میں زمیں کی پروردہ، اور وہ آسمانی ہے

صائمہ آفتاب

(لاہور)

میں زمیں کی پروردہ، اور وہ آسمانی ہے

نیلگوں ہے پَگ اسکی، اوڑھنی یہ دھانی ہے

مصلحت پسندوں کی ایک بھی نہیں چلتی

عشق کی نگریا ہے، دل کی حکمرانی ہے

ہم نبھائیں یکطرفہ، رسمِ پاسداری کیوں

آج تک ہماری کیا بات اس نے مانی ہے

زندگی کے تھیٹر میں، پردہ اُٹھنے گرنے تک

لوگ آتے جاتے ہیں، اتنی سی کہانی ہے

ڈر رہی ہوں فرداؔ ان ہاتھ کی لکیروں سے

میں نے پیڑ چھونا ہے شاخ سوکھ جانی ہے

تبصرے بند ہیں۔