میں مسلمان ہوں!

عبد العزیز

 ہادیہ کا سابقہ نام اکھیلا اشوکان ہے۔کیرالہ کی رہنے والی ہے۔ گزشتہ سال ایک مسلمان لڑکے شفین جہاں سے اس کی شادی ہوئی اور اس نے بخوشی دین اسلام کو قبول کیا۔ اس کی عمر 24سال کی ہے۔ اس کے والد کے۔ ایم۔ اشوکان اگر چہ کمیونسٹ ہیں مگر انھیں یہ شادی اور تبدیلی مذہب ناگوار معلوم ہوئی جس کی وجہ سے انھوں نے کیرالہ ہائی کارٹ میں شفین جہاں کے خلاف مقدمہ دائر کیا کہ اس نے ان کی لڑکی کا Brain Wash (ذہن کی دھلائی) کیا۔ وہ انتہا پسندوں (Radical Group) کے قبضہ میں چلی گئی ہے اور اسلام قبول کرنے پرمجبور کی گئی ۔

 ہادیہ نے کیرالا ہائی کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے بتایا تھا کہ اس کا نہ Brain Wash ہوا اور نہ کسی دباؤ اور لالچ سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوئی۔ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور راضی خوشی سے شفین جہاں سے شادی کی ہے۔ اس کی عمر 24سال کی ہوگئی ہے ، لہٰذا اسے اپنا ساتھی چننے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق ہے۔ کیرالہ ہائی کورٹ کے ججوں نےہادیہ کی ایک نہ سنی۔ حکومت کیرالہ کا بیان داخل ہوا کہ قبولِ اسلامہادیہ نے کسی دباؤ اور لالچ سے نہیں کیا بلکہ اپنی مرضی اور خواہش سے کیا۔ شادی بھی ایک دوسرے کی رضامندی سے ہوئی۔ کیرالہ کی عدالت نے نہ حکومت کی بات تسلیم کی اور نہ ہیہادیہ اور اس کے شوہر کی باتوں کا اعتبار کیا۔

 شفین جہاں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس کے نتیجہ میں گزشتہ روز (27نومبر) مقدمہ کی شنوائی ہوئی۔ ججوں کئی سوالوں کے جواب میںہادیہ نے کہا کہ میں نے بخوشی اسلام قبول کیا، اس میں نہ کسی لالچ اور دباؤ کا دخل ہے اور نہ ہی نادانی اور جہالت کا معاملہ ہے۔ میں نے سمجھ بوجھ کر دانستہ اسلام قبول کیا ہے۔ میں مسلمان ہوں ۔ مجھے آزادانہ زندگی جینے کا حق ہے۔ میں نے راضی خوشی سے اپنا ساتھی شفین جہاں کا انتخاب کیا اور راضی خوشی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئی ہوں ۔ 3بجے دن سے شنوائی شروع ہوئی اور 5-30بجے شام تک سماعت جاری رہی۔ ججوں نے فیصلہ کیا کہہادیہ کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے 11مہینے کی مدتِ کارکردگی جو شیوراج ہومیو اسپتال سیلم میں پوری کرنے کو ہے وہ پوری کرکے اور اس کی گارجین شپ (سرپرستی) کا فریضہ سیلم کالج کے ڈین (Dean) ادا کریں گے۔

 کیرالہ حکومت کو کورٹ نے ہدایت کی کہ سادہ وردی میں ہوسٹل کے اندر خواتین پولس محافظوں کا کام انجام دیں گی۔ فیصلہ میں یہ نہیں درج ہے کہ وہ ہوسٹل میں اپنے والدین یا شوہر سے مل سکے گی یا نہیں ۔ہادیہ کے باپ کے وکیل نے کہاکہ کیرالہ ہائی کورٹ کی جانب سے جو شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا اس پر روک لگادی جائے، جسے کورٹ نے منظور نہیں کیا۔ شفین نے کہاکہ یہ اچھا ہوا کہ کورٹ نےہادیہ کو اس والدین کی حراست سے رہائی دلادی۔

 سنگھ پریوار کی ٹیم نےہادیہ کے قبول اسلام اور شادی کو نام نہاد لو جہاد کے نام سے واویلا کیا تھا۔ لو جہاد کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اب چند دنوں میں سپریم کورٹ کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کی شنوائی کرے گا اور اپنا فیصلہ سنائے گا۔ کیرالہ ہائی کورٹ یا کسی کورٹ کو جبکہ لڑکے اور لڑکی شادی جن کی عمریں 18سال سے تجاوز کرچکی ہیں اسے کیسے غیر قانونی قرار دیا ہے، سمجھنا مشکل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کورٹ بھی حالات سے متاثر ہوگیا تھا جبکہ کیرالہ کی حکومت کے وکیل نے شادی کو جائز بتایا اور قبول اسلام کو صحیح قرار دیا۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاہے کہ ہادیہ کے والدین کو اپنی Custody (حراست) میں رکھنے کا حق نہیں ہے۔ کئی مہینے تکہادیہ اپنے والدین کے گھر میں رہی اور والدین اور اس کے عزیز و اقارب کا اس پر کتنا دباؤ رہا ہوگا، ہر ایک نے اپنے طور سے گھر واپسی کی بات کہی ہوگی مگرہادیہ اپنے ایمان و عقیدہ پر اٹل رہی  اور نہ صرف اٹل رہی بلکہ سپریم کورٹ میں ببانگ دہل کہا کہ وہ مسلمان ہے۔ وہ اپنے ایمان و عقیدہ سے خلوص اور سچائی کے ساتھ جڑی رہنا چاہتی ہے۔ کسی کو بھی حق نہیں ہے کہ وہ اسے اس حق سے محروم کرسکے۔ہادیہ کے استحکام اور استقلال کو دس بار سلام کرنا ہوگا۔ آج جو حالات پیدا کئے جارہے ہیں ۔ہادیہ کا فرقہ پرستوں کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہے اور مسلمانوں کا حوصلہ بڑھانے والا ہے۔ بشرطیکہ مسلمان اپنے حال کو درست کرلیں اور اپنے اعمال کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کریں ۔

 ہادیہ نے اخباری نامہ نگاروں اور سپریم کورٹ کے ججوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے گفتار، کردار اور لباس سے اسلام کی بھرپور نمائندگی کی۔ آج جو ہمارے بھائی اور بہن گفتار، کردار اور اپنے لباسوں سے اسلام کی غلط نمائندگی کر رہے ہیں ۔ اس پرفتن دور میں ان کا یہ گناہ اور بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ کفر اپنے پورے جلال پر ہے۔ اگر کفر کی ہٹ دھرمی کا جواب دینا ہے توہادیہ جیسے ایمان کی ضرورت ہے۔ہادیہ پر چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں ۔ یہاں تک کہ اس کے ماں باپ بھی اس کے قبول اسلام کے خلاف ہیں ۔ سرپرستی دینے کے بجائے دشمنی سے پیش آرہے ہیں ۔ہادیہ سے ہمارے بھائی بہنوں کو سبق لینا چاہئے۔ ہمارے بھائیوں میں کچھ ایسے بھی نادان ہیں جو کسی مسلم یا غیر مسلم لڑکی سے شادی کرتے ہیں اور لڑکی کے ساتھ وفا نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو معاشرہ میں نکو بنانے کی ضرورت ہے اور ممکن ہو تو سماجی بائیکاٹ کرنا چاہئے تاکہ ایسے لوگوں کو اسلام کی غلط نمائندگی کرنے اور بدنام کرنے کی جرأت و جسارت نہ ہو۔

   اللہ کرے ہادیہ کے عزم اور حوصلے کا آج کے مسلمانوں پر اثر پڑے اور وہ بھی ہوش میں آئیں اور اسلام اور مسلمان کی نیکی نامی کا سبب بن سکیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔