کیا برطانوی دور ہندوستان کا سنہری دور تھا؟

ڈاکٹر احید حسن

طالب علم ایف آرسی پی نیورولاجی لندن (پاکستان)

برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے کیسے برصغیر جیسے دنیا کے امیر ترین ملک کو دنیا کا غریب ترین ملک بنا دیا؟کیا برطانیہ نے برصغیر کو تعلیم سے روشناس کرایا؟ کیابرطانیہ نے برصغیر کو دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام اور ریلوے نیٹ ورک دیا؟
برصغیر پہ برطانوی دور حکومت کے بارے میں نام نہاد کالم نگاروں اور جاہل دانشوروں کے گمراہ کن خیالات اور ان کی تحقیقی تردید عام طور سے ہمارے دانشوروں میں یہ مشہور ہے کہ برطانوی حکومت نے ہندوستانی معیشت کو فائدے پہنچائے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ جب تک ہندوستان میں کمپنی کی حکومت تھی تو اس کی ساری توجہ اس طرف تھی کہ کس طرح ہندوستان سے دولت اکٹھی کی جائے تاکہ انگلستان میں شیئر ہولڈر کو زیادہ سے زیادہ منافع دے کر اُنہیں خوش رکھا جائے برطانوی حکومت کے اس استحصال کو دادا بھائی نوروجی، آر۔سی۔دت اور رجنی پام دت نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ہندوستانی کسانوں کی محنت آمدنی پر انگلستان کے امراء اور اشرافیہ نے بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں اور صنعت کاروں نے نئی ایجادات کے ذریعے صنعتوں کو فروغ دیا۔ لہٰذا برطانوی دور ہندوستانی معیشت کے لئے باعث رحمت نہیں بلکہ زحمت تھا۔

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے کس طرح برصغیر کو لوٹا اور اس کا زرعی، معاشی، تعلیمی، صنعتی غرضیکہ ہر طرح کا ڈھانچہ مکمل طور پہ تباہ کر دیا، اس پہ ایک بھارتی ششی تھرو نے ایک کتاب لکھی ہےجو  بھارت میں ’’دی ایرا آف ڈارکنیس‘‘ کے نام سے جبکہ برطانیہ میں ’’دی انگلوریس ایمپائر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی اور یہ کتاب دونوں ممالک میں بیسٹ سیلر رہی ہے۔

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے صرف اپنے فائدے کے لیے ریلوے کی تعمیر شروع کی تھی۔گورنر جنرل  ہارڈنگ نے 1843 میں دلیل دی کہ ریل ویز \تجارت، حکومت اور ملک کے فوجی کنٹرول پر فائدہ مند ہوگا\.  ,انگریزوں کے تصور اور تعمیر میں، بھارتی ریلوے ایک نوآبادیاتی قبضے کا حصہ تھے.  ,برطانوی حصص داروں نے ریلوے میں سرمایہ کاری کے لیے پیسے کی رقم صرف کی، جس پہ انہیں برطانوی حکومت کی طرف سے دوہرے منافعے کی نوید سنائی گئی تھی اور یہ ساری رقم ہندوستان کی لوٹ مار اور ہندوستان کی عوام پہ ڈالے جانے والے بھاری لگان یعنی ٹیکس سے ادا کی گئ۔ریلوے کا مقصد برطانوی فوج کی نقل و حمل، ہندوستان سے لوٹے گئے کوئلے، لوہے اور کپاس کی آسانی سے بندرگاہوں اور پھر آگے برطانیہ کی طرف ترسیل تھا۔لوگوں کی نقل و حمل بعد کی بات تھی اور وہ بھی اس طرح کہ ہندوستانی ریل کے سب سے گھٹیا طبقے میں سفر کر سکتے تھے۔ ہندوستانیوں کو ریلوے میں کوئی بڑی ملازمت نہیں مل سکتی تھی جب تک وہ انگریزوں کے بہت بڑے خوشامدی نہ ہوں۔

انگریزوں کا موجودہ نقطہ نظر یہ تھا کہ ریلوے کو خاص طور پر سرمایہ کاری کی حفاظت کے لیےیورپ کے ذریعہ تقریبا کے ذریعے خصوصی طور پر چلانا پڑے گا. ، لیکن 20 ویں صدی کے آغاز میں پالیسی بے بنیاد سطح تک بڑھ گئی تھی کہ سگنل می اور جو لوگ بھاپ ٹرینوں کو چلاتے اور بحال کرتے تھے، ریلوے بورڈ کے ڈائریکٹر  ٹکٹ جمع کرنے والے تمام اہم ملازمین انگریز تھے. جن کی تنخواہ اور فوائد بھی یورپی، نہ کہ ہندوستانی سطح کے اور بڑے پیمانے پہ تھے۔، ٹرینوں کو برقرار رکھنے کے لئے 1862 میں  بنگال میں جمال پور میں  اور راجپوتانا کے اجمیر  ریلوے ورکشاپیں  تعمیر کی گئی، لیکن ان کے ہندوستانی میکانکس اتنے قابل اطمینان بن گئے کہ 1878 ء میں انہوں نے اپنی گاڑیوں کو ڈیزائن اور تعمیر کرنے کا آغاز کیا.  ,ان کی کامیابی نے برطانویوں کو تیزی سے دھمکی دی، کیونکہ ہندوستانی انجنیران صرف اچھے تھے اور ان کے بنائے گئے انجن برطانوی انجنوں سے بہت سستے تھے۔ انگریز نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستانی ترقی کریں یا خود کفیل ہوں۔ لہذا 1912ء میں برطانویوں نے ایک قانون منظور کیا اور ہندوستانی ریلوے انجنوں کے بنائے جانے پہ پابندی لگا دی گئی۔اس کی جگہ 1854 اور 1947 کے درمیان، ہندوستان نے انگلینڈ سے تقریبا 14، 400 انجنوں کو درآمد کیا، اور 3، 000 سے زیادہ کینیڈا، امریکہ اور جرمنی سے درآمد کیا۔ لیکن اب بھارت نے ریلوے میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ برطانیہ کو اس معاملے میں مشاورت فراہم کرتا ہے جب کہ پاکستان ابھی تک انگریز دور میں کی جانے والی ریلوے کی بدحالی سے باہر نہیں آسکا۔

انگریزوں نے ریلوے کے ذریعے وسیع سلطنت کی تعمیر کی.خود کئ انگریز تجزیہ نگاروں کے مطابق ریلوے کی تعمیر کا مقصد ہی یہی تھا کہ کس طرح ہندوستان پہ برطانیہ کا قبضہ مستحکم کیا جائے اور ہندوستان سے حاصل کردہ لوٹ مار کا مال برطانیہ کی طرف آسانی سے منتقل کیا جائے۔ اور ان کی طاقت کی اونچائی پر، سلطنت کا مرکزی ریلوے نظام تھا، پلیٹ فارم پہ ان کے لیے یورپی ریفریجریشن فارم موجود ہوتے تھے جہاں ان کی عیاشیوں کا سارا سامان موجود ہوتا تھا۔وہ ریل سے اترتے ہی ان کا رخ کرتے جب کہ غریب ہندوستانی ملازم وزن اٹھانے اور ان کی ہر طرح کی خدمت پہ مقرر ہوتے۔ان ریسٹورانوں کو ہندوستانی سمارٹ یونیفارم میں  اعتماد انگریزی بولنے والے ہندوستانی غلام چلاتے۔

عام ہندوستانی کو ٹرین کے اعلی طبقات میں سفر کرنے کی اجازت نہیں دے جاتی تھی، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس میں سوار انگریز صاحب یا مدام کی نازک اداؤں کو ہندوستانی کی کسی حرکت سے نفرت ہو.  ,ایک ہندوستانی کے مطابق ہندوستانیوں کے لیے مخصوص ریل کے طبقات گندگی سے بھرپور ہوتے تھے جن پہ کئ انچ موٹی مٹی کی تہہ جمی تھی اور نہیں لگتا تھا کہ ریل کے اس طبقے نے کبھی صابن یا پانی دیکھا ہے.

اور انگریزوں  نے ایک سال میں تقریبا 1000 کلو میٹر ریلوے لائن تعمیر کی، ایک دن میں 3 کلو میٹر.  یہ سب کام انگریز بہت کم معاوضے پہ ہندوستانی مزدوروں سے کرا رہے تھے۔,سرنگوں کو ہاتھ سے کاٹ دیا گیا تھا، پتھروں کو توڑا گیا تھا۔ گیا کلومیٹر کے  … تصور کریں کہ کس طرح ان کو پھنسے ہوئے پہاڑیوں، پہاڑی سلسلے اور دلکش جنگلات میں تعمیر کرنا ہوگا.  ,تصور کریں کہ وہ کیسے کام کریں گے، ناقابل یقین گرمی اور سردی کو برداشت کرنے کے بغیر، کافی خوراک، آلات یا حفاظتی اقدامات کے بغیر۔
ہمارے ان غریب ہندوستانی ملازمین اور مزدوروں، کارکنوں کے بالکل ریکارڈ نہیں ہیں جنہوں نے  ریلوے کو تعمیر کیا، جو وہ تھے، وہ کہاں سے کام کر رہے تھے، کتنےاس جان توڑ کام میں مر گئے۔ اور ان کے خاندانوں سے کیا ہوا، .. ہاں، یہ ہمارے خون اور پسینہ ہے جس نے ریلوے کی تعمیر کی.

ہندوستانی ریلوے کی تاریخ کے بارے میں کئی برطانوی تحریری ریکارڈز ہیں جنہوں نے  اپنی عالیشان اولین اور دوسری کلاسوں کی ریل گاڑیوں میں سفر کیا لیکن اس کے بارے میں کچھ نہیں کہ کس طرح ہندوستانیوں نے تیسری اور چوتھائی کلاسوں میں سفر کیا جس کی کچھ تفصیل گاندھی کی طرف سے لکھی گئی تھی.

سر پر ٹوپیاں اور کوٹ پتلون پہنے اور خوبصورت عورتوں کے ساتھ اور خادموں کے ہجوم میں رہنے والے انگریز عام ہندوستانیوں کی تکالیف سے بالکل بیزار تھے۔

ہندوستانی ریلوے کی تاریخ کے بارے میں کئی برطانوی تحریری ریکارڈز ہیں جنہوں نے  اپنی عالیشان اولین اور دوسری کلاسوں کی ریل گاڑیوں میں سفر کیا لیکن اس کے بارے میں کچھ نہیں کہ کس طرح ہندوستانیوں نے تیسری اور چوتھائی کلاسوں میں سفر کیا جس کی کچھ تفصیل گاندھی کی طرف سے لکھی گئی تھی.
ریلوے نیٹ ورک کا بنیادی تصور یہ تھا کہ برطانوی حکمرانوں کو پورے ملک میں قدرتی وسائل تک آسانی سے رسائی میسر ہو اور

ہندوستان سے ملنے والے اقتصادی فوائد میں اضافہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ریلوے سے اگر ہندوستانیوں کو سفر میں آسانی میسر ہوئی تو برطانوی حکمرانوں کو ملک سے مزید دولت حاصل کرنے اور ہندوستانیوں کا مزید استحصال کرنے میں سہولت ملی۔ اس حقیقت کو بہت سوں نے نظر انداز کر رکھا ہے کہ اخراجات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث ہندوستان میں ریلوے نیٹ ورک بچھانے پر آنے والی لاگت بہت زیادہ تھی۔ ہندوستان میں 1850ء اور 1870ء کے عشرے میں ریلوے کا ایک کلومیٹر کا ٹریک بچھانے پر آنے والی لاگت 22 ہزار ڈالر تھی جبکہ اُسی عہد میں امریکا میں یہ لاگت صرف ڈھائی ہزار ڈالر تھی!

ہندوستان میں ٹرین سے سفر کرنے والوں کو غیر معمولی کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا جبکہ برطانوی کمپنیوں سے وصول کیا جانے والا مال گاڑی کا کرایہ دنیا بھر میں سب سے کم تھا۔

پہلی جنگ عظیم میں، ریلوے کو بمبئی اور کراچی بندرگاہوں میں برطانیہ، ماسسوپاسپیا اور مشرقی افریقی راستہ میں فوجیوں اور اناجوں کو منتقل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا.  ,برطانیہ سے سازوسامان اور حصے کی ترسیل کے ساتھ، ریلوے کی بحالی کی زیادہ مشکل ہو گیا؛  ورکشاپس کو فوج میں داخل آرٹیکل بنانے میں تبدیل کر دیا گیا.  ,مشرق وسطی میں کچھ انجن اور گاڑیوں کو بھیج دیا گیا تھا.  ,,دوسری عالمی جنگ میں ریلوے رولنگ سٹاک مشرق وسطی میں منتقل ہوگئی تھی، ,اس نے ریلوے کو شدید نقصان پہنچایا.

کشتی سازی پر وار سترہویں صدی میں بنگال کی بندرگاہوں پر مقامی طور پر بنائے گئے چار سے پانچ ہزار بحری جہاز موجود تھے۔ 1757ء میں پلاسی کی جنگ کے نتیجے میں بنگال پر قبضے کے بعد سے انگریز انتظامیہ نے مقامی جہازوں کی آمد و رفت پر بھاری ڈیوٹی ٹیکس نافذ کردیا تھا۔برطانوی مقننہ نے 1813 ء میں ایک قانون بنایا جس کے تحت ہندوستانی جہازوں کو ’غیر برطانوی‘ قرار دیا گیا (تاکہ ہندوستانی جہاز تجارتی راستوں پر انگریزی جہازوں سے مقابلہ نہ کر سکیں )۔انیسویں صدی کے آغاز میں نپولین سے جنگ کے دوران انگریز بحریہ کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تو سرکار برطانیا نے ہندوستانی جہاز ٹھیکے پر حاصل کئے۔ جنگ کے بعد یہ فرمان واپس لے لیا گیا۔ مالی فائدے کے لئے انگریز تاجروں نے جہاز برطانیا کی بجائے بنگال میں بنوانا شروع کر دئیے تھے 1801ء سے 1839ء کے دوران بنگال میں 327 جہاز تیار کر لیے گئے تھے۔

کچھ لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ انگریزوں نے پہلی بار ہندوستان کو سیاسی طور پہ منظم کیا۔ ہندوستان کا تصور ویدقدیم ترین ہندو مقدس کتابوں میں موجود ہے جس میں اس کی حدود ہمالیہ سے سمندر تک بتائی گئی ہیں۔ عرب مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب اس سارے علاقے کو ہندوستان کہتے تھے۔ کئی ہندوستانی حکمرانوں نے مسیح سے تین صدی پہلےکےہندوستان کو   متحد ہونے کی کوشش کی تھی اور مغل برصغیر کے تقریبا 90 فیصد علاقے کے حکمران  تھے.  اگر برطانیہ نے یہ کام مکمل نہیں کیا تھا، تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کچھ ہندوستانی حکمران، یہی کر لیتے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ نے ہندوستان کو سیاسی طور پہ منظم نہیں کیا بلکہ مذہبی اور سیاسی نفرت کو ہوا دی اور لڑاؤ اور تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے پہ عمل کیا۔انگریزوں نے جان بوجھ کر ہندوستان کی غلط تقسیم کی۔تقسیم ہند نے دس لاکھ سے زائد افراد کو قتل اور ، 13 ملین بے گھر کر دئے، اربوں روپے کی جائیداد کو تباہ کر دیا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے ہندوستان میں جمہوری نظام کو فروغ دیا۔یہ بھی جھوٹ ہے۔1920 کے آخر تک، منتخب کونسلوں پر بھارتی نمائندوں کو محدود اور انتخابی طور پر منتخب کیا گیا تھا کہ 250 ہندوستانیوں میں سے صرف ایک ہی ووٹ دینے کا حق تھا.   تعلیم اور صحت کی طرح، ٹیکس، قانون اور حکم سمیت، اصل طاقت، بھارتی قانون سازوں کی طرف سے کسی بھی ووٹ کو منسوخ کرنے کا اختیار، صوبوں کے برطانوی گورنر کے پاس تھے۔. یہ ظلم اور شدید ظلم ہے  ,200 سال تک لوگوں کو قیدمیں رکھنا اور پھر اس کے آخر میں دعوی کرنا کہ انگریزجمہوری ہیں .

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انگریز بہت انصاف پسند اور رحمدل تھے۔یہ بھی جھوٹ ہے۔ایک انگریز  نے اپنے بھارتی ملازم کو ہلاک کر دیا، اس کے لیے سزا صرف چھ ماہ کے جیل کا وقت مقرر کی گئی اور ایک معمولی جرمانے 100 روپے کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔جبکہ ایک ہندوستانی  جس نے ایک انگریز عورت عصمت دری کرنے کی کوشش کی تھی، جس میں 20 سالہ قید کی سزا تھی۔
برطانوی حکومت کے دو صدیوں میں، ہندوستانیوں کے قتل کے الزام میں صرف تین مقدمات مل سکتے ہیں، جبکہ برطانیہ کے ہاتھوں لاکھوں افراد کی ہلاکت  ہوگئی. برطانوی فوج میں ایک ہندوستانی کی موت ہمیشہ ایک حادثہ قرار دی جاتی تھی۔

1878 ء میں وائسرائے لارڈ لٹن نے ایک خط میں لکھا:’اصولی طور پر ہندوستانی افسران کو وہ تمام مراعات حاصل ہونی چاہئیں جو انگریز افسران کو میسر ہیں لیکن ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ہمیں ان کا راستہ روکنے اور انہیں دغا دینے کے بیچ کوئی راستہ چننا ہو گا‘۔سرسید احمد خان کے صاحب زادے سید محمود، 1887ء میں الہٰ آبادہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ ان کے مطابق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر جان ایج ان سے ہم عصر کی بجائے رعایا کے طور پر سلوک کرتے تھے۔ اس تفریق کے باعث سید محمود بد دل ہو گئے اور 1892ء میں استعفیٰ دے دیا۔اانگریز افسران کی تنخواہیں ہندوستانی افسران سے کئی گنا زائد تھیں (ایک موقعے پر آٹھ ہزار برطانوی افسران کی کل تنخواہ 14 کروڑ پاؤنڈ جب کہ ایک لاکھ 30 ہزار ہندوستانی افسران کی کل تنخواہ 3 کروڑ پاؤنڈ تھی)۔ کمپنیوں کو ’سٹرلنگ‘ اور ’روپیہ‘ کمپنیوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ سٹرلنگ کمپنیوں میں صرف برطانیا کے شہری کھاتہ کھول سکتے تھے جب کہ روپیہ کمپنیوں میں ہندوستانی شہری بھی پیسہ لگا سکتے تھے۔سٹرلنگ کمپنیاں منافع بخش اجناس جیسے چائے، پٹ سن اور دیگر اشیائے ضرورت کا کاروبار کر سکتی تھیں۔  1929ء میں دنیا بھر کے کاروبار مندی کا شکار ہوئے اور اس دور کے مالی بحران کو آج بھی ’بد ترین مندی‘ The Great Depression کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس مشکل وقت میں بھی انگریز انتظامیہ نے ہندوستانی روپے کی قیمت کم کرنے سے انکار کر دیا تھا(کیونکہ قیمت کم کرنے سے برطانیہ کو نقصان ہونا تھا) اور ہندوستان میں پیسوں کی کمی کے باعث قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ انگریزوں کی آمد سے قبل ہندوستانی لوہا اپنے معیار کی بدولت دنیا میں مشہور تھا۔ انگریزوں نے لوہا بنانے کی مقامی تکنیک سیکھی اور اٹھارویں صدی کے اختتام تک مقامی صنعت زبردستی بند کروا دی۔ 1912ء میں دوراب جی ٹاٹا نے بمشکل ایک سٹیل مل قائم کی تو اس کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے۔
برطانوی راج کے گن گانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ برطانوی حکمرانوں کو انتظام و انصرام کے معاملے میں غیر معمولی مہارت حاصل تھی یعنی انہوں نے ملک کو بہت عمدگی سے چلایا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ برطانوی حکمرانوں کو ہندوستانیوں کے مفاد سے کچھ غرض نہ تھی۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ تاج برطانیہ کی بھلائی کے لیے کیا۔ جو اقدامات بظاہر ہندوستانیوں کی فلاح کے لیے تھے وہ بھی دراصل برطانوی راج کو مضبوط کرنے ہی کے لیے تھے۔

انگریز زندگی بھر تو مزے کرتے ہی تھے، ریٹائر منٹ کے بعد بھی بہت مزے کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کی پنشن ہندوستانیوں کی خون پسینے کی کمائی پر مشتمل ہوتی تھی۔ دوسری طرف ہندوستانیوں کو ریٹائرمنٹ پر معمولی سی رقم دی جاتی تھی اور پنشن اُس سے بھی کم ہوتی تھی۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے ہندوستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری  نظام قائم کرکے اس علاقے پہ بہت بڑا احسان کیا۔یہ سفید جھوٹ ہے۔خود کچھ انگریز مورخین کے مطابق یہ نہری نظام اس لیے تعمیر کیا گیا تھا کہ برصغیر کی زیادہ سے زیادہ زراعت لوٹ کر برطانیہ منتقل کی جا سکے۔عام ہندوستانی اس نظام کے ہر طرح کے فائدوں سے محروم تھے۔1600 ء میں، جب ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی تو، برطانیہ دنیا کی جی ڈی پی کا صرف 1.8٪ پیدا کررہا تھا، جبکہ برصغیر کچھ 23سے27% یعنی دنیا میں سب سے زیادہ  پیدا کر رہا تھا. 1940ء تک تک، راج کے تقریبا دو صدیوں کے بعد، برطانیہ نے دنیا بھر میں جی ڈی ڈی کا تقریبا 10 فیصد حصہ لیا، جب کہ برصغیر انگریزوں کی طرف سے ان دو صدیوں کی بے تحاشا لوٹ مار کی وجہ سے دنیا کا غریب ترین خطہ بن چکا تھا۔ جب برطانوی برصغیر میں آئے تو یہاں شرح خواندگی 90% تھی لیکن جب گئے تو شرح خواندگی صرف 16% تھی۔انگریزوں نے ہندوستان کی عوام کو جان بوجھ کر جاہل رکھا اور ہندوستانیوں میں تعلیم  صرف ایک خاص طبقے تک محدود رکھی تاکہ اس طبقے کو ہندوستان کی باقی عوام کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔اس عمل نے طبقاتی تعلیم اور سیاسی جاگیرداری کو فروغ دیا جن کی نسل اج بھی پاکستان کے سیاہ و سفید کی مالک ہے۔ 90% افراد غربت کی نچلی لکیر پہ زندگی گزار رہے تھے۔برصغیر میں اوسط عمر صرف 32 سال تھی۔یہ کونسا دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام اور زرعی ترقی تھی جس کے بعد بھی برصغیر جہالت اور غربت اور بیماریوں کا شکار تھا۔

اس عرصے کے دوران ہندوستان  deindustrialrialization کاشکار ہوا۔مغل دور کے مقابلے میں، برتانوی نوآبادیاتی دور کے دوران ہندوستان میں کم تناسب آمدنی تھی، سیکنڈری سیکٹر میں ایک بڑی کمی، اور شہریوں کا کم  معیار زندگی بھی شامل تھا۔ عالمی معیشت اور عالمی صنعتی پیداوار میں برصغیر کا حصہ برتانوی حکمرانی کے دوران نمایاں طور پر کم ہوگیا.

سترہویں صدی میں، برصغیر ایک نسبتا شہری اور تجارتی ملک تھا جس کے نتیجے میں برآمد کی تجارت کرتاتھا، جس میں زیادہ تر کپاس کی ٹیکسٹائل پر مشتمل تھا، بلکہ ریشم، مصالحے اور چاول بھی شامل تھے.  ,برصغیر کا کپاس ٹیکسٹائل کی دنیا کا مرکزی پروڈیوسر تھا اور یہ وہ  ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ برطانیہ کے ساتھ ساتھ بہت سے یورپی ممالک کو برآمد  بھی کیا کرتاتھا.  ,اس کے باوجود 18 ویں صدی کی ابتدا کے دوران  برطانوی لوٹ مار کے نتیجے میں برطانوی کپاس کی صنعت نے تکنیکی انقلاب کی راہنمائی کی تھی، اور ہندوستانی صنعت کو مستقل طور پر روک دیا۔ یہاں تک کہ 1772ء تک برصغیر کے مقابلے میں دنیا کا کوئی ملک کپاس کی مصنوعات پیدا نہیں کر رہا تھا لیکن پھر برطانوی لوٹ مار کے نتیجے میں ایک نہ رکنے والے معاشی زوال کا سلسلہ شروع ہوا۔ کئی معاشی مؤرخ جیسا کہ پروانن پارتیسرتی  کے مطابق18 ویں صدی میں بنگال اور اور میسور میں مزدور کی روزانہ کی آمدنی اس وقت کے برطانیہ اور یورپ سے زیادہ تھی۔برطانوی مزدور بنگال اور برصغیر کے مزدوروں کی نسبت کم تنخواہ میں زیادہ کام کرتے تھے۔اقتصادی مورخوں کے مطابق آئینولیل والیرسین، عرفان حبیب، پیسیفیل سپیئر اور اشوک دیسی کے مطابق مغل دور کا سترہویں صدی عیسوی کا برصغیر زرعی طور پہ بیسویں صدی کے برطانوی دور اور برطانیہ سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔

برطانویوں نے محصول اور ٹیکس کے حصول کے لیے بہت ظالم افراد اور جاگیردار مقرر کیے جو ٹیکس نہ دینے پہ زمین ہتھیا لیتے تھے جس سے بھارت اور پاکستان کا اج کا مربعوں ایکڑ زمین پر قابض جاگیرداروں اور وڈیرا طبقہ وجود میں آیا اور کروڑوں کے حساب سے کسان اور عوام اپنی زمینوں سے محروم اور بے گھر ہوگئے۔وہ اپنی بقا کے لئے ان جاگیرداروں کے مرہون منت تھے جن کی پہلی ترجیح برطانوی حکومت کی خوشنودی تھی تاکہ زمینوں پہ ان کے قبضے برقرار رہیں۔ ٹیکس یا لگان کی زیادہ شرح، جاگیرداری نظام اور قرضوں نے کسانوں کو پامال کردیا اور برصغیر کی  زراعت تباہ و برباد ہوگئ۔برطانوی حکومت نے اپنی کاروباری دلچسپی، فوجی مقاصد اورمفاد کے لیے 1905ء کے بعد ہندوستانیوں کی جیب سے ریلوے پہ 360 کروڑ روپے خرچ کیے جب کہ زراعت کے لیے 50 کروڑ سے بھی کم خرچ کیے گئے۔لہذا اس وقت جب باقی دنیا زراعت میں ترقی کر رہی تھی، برصغیر تباہ و برباد ہورہا تھا اور کم و بیش اج تک ہے۔نصف زرعی آبادی ایسی تھی جس کو دو وقت کا کھانا بھی ٹھیک طرح سے میسر نہیں تھا۔ برطانوی راج کی پالیسی سے کئی بار قحط رونما ہوا جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر ساڑھے تین کروڑ ہندوستانی موت کے منہ میں چلے گئے۔ مگر اِن مصائب کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔

دوسرے صوبوں کے مقابلے میں برطانوی حکومت نے پنجاب کو خاص طور سے اہمیت دی۔ زرعی نظام کو بہتر بنانے کے لئے نہریں نکالیں اور آب پاشی کے لئے اقدامات کیے۔ یہاں اس بات کی بھی کوشش کی کہ ساہوکار سیٹھ زرعی زمینوں پر قابض نہ ہوں۔ اس لئے ایک ایکٹ کے تحت زرعی جائیدادوں کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخرکار پنجاب کے ساتھ یہ خصوصی سلوک کیوں روا رکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 1857ء میں پنجاب کے فوجیوں نے کمپنی کا ساتھ دیا تھا اور اُس کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کی تھی۔ لہٰذا برطانوی حکومت نے مارشل ایس کا نمونہ پیش کر کے اہلِ پنجاب کو اس کا مستحق سمجھا۔ برطانوی فوج میں اب پنجاب کے فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ حکومت نے پنجاب میں گھوڑوں کو پالنے اور اُن کی پرورش کے لئے زمینیں دیں تاکہ وہ گھوڑوں کی برآمد کے لئے وسط ایشیا اور افغانستان کے محتاج نہ رہیں۔ برطانوی حکومت کی اس خصوصی توجہ سے پنجاب کی زرعی پیداوار بڑھی اور معاشی طور پر یہ خوشحال ہوا۔ تاریخ کے اس تسلسل کو ہم آزادی کے بعد بھی دیکھتے ہیں کیونکہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پنجاب کی معیشت زیادہ مستحکم اور مضبوط ہے۔

لارڈکیننگ (Lort Canning) کے 1857ُء کی جنگ آزادی دبانے کے بعد زمینوں کو ان سے واپس لیکر ایک کمیشن قائم کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ ان لوگوں میں کون سے لوگ غداری (جنگ آزادی) کے مرتکب ہوئے اور کون کون سے جاگیردار، زمیندار، تعلقدار وغیرہ برطانوی راج کے حق میں رہے اور پھر نتیجتاً جو لوگ تاج برطانیہ کے وفادار پائے گئے ان سے ان کی لی ہوئی زمینیں، جاگیریں بطور انعام واپس بخش دی گئیں۔ اس کے علاوہ ایک اور گروہ بھی تھا جو زمیندار تو نہ تھے مگر انہوں نے برطانوی راج کی ہر طرح سے مدد کی تو ان وطن فروشوں کو بھی انعام میں جاگیریں دی گئیں۔
یہ ہے انگریزوں کی طرف سے دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام اور زرعی ترقی کی اصل حقیقت جس کو لوگ برطانوی دور کے دفاع میں پیش کرتے ہیں۔

برطانویوں نے دو سو سال کے قبضے میں برصغیر کی چھ سو ٹریلین پاؤنڈ دولت لوٹ کر برطانیہ منتقل کی۔
وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم کے علاوہ برٹش میوزیم میں بھی بھارت سے لُوٹی ہوئی بہت سی نادر اشیا رکھی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری دولت کو برطانوی حکمرانوں نے کس طور لوٹا اور کس طور ہمیں انتہائی پس ماندہ کرکے یہاں سے رخصت ہوئے۔

برطانوی حکمرانوں نے برصغیر کی جان چھوڑتے وقت بھی ایسی پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد قتل ہوئے۔ ہندوستان کی تقسیم اِس انداز سے کی گئی کہ بہت بڑے پیمانے پر نقل مکانی ناگزیر ہوگئی اور یوں فسادات پُھوٹ پڑے اور لاکھوں انسانوں کی جان گئی۔ مگر یہ سب کچھ بیان کرنے کے لیے اب تک کوئی عجائب گھر نہیں پایا جاتا۔

برطانوی راج کے بہت سے قوانین آج بھی پاکستانی معاشرے سے چمٹے ہوئے ہیں۔ وکٹورین عہد میں ترتیب دی جانے والی تعزیرات آج بھی بھارت میں نافذ ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں لوگ آج بھی ناکام ہیں کہ برطانوی دور میں وضع اور نافذ کیے جانے والے قوانین اب بھارت کے لوگوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ یہ قوانین ایک بہت بڑی آبادی کو کچل کر رکھنے کے لیے وضع کیے گئے تھے۔ ایک استعماری قوت اپنے زیر نگیں علاقوں کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول میں رکھنے کے لیے جو قوانین نافذ کرتی ہے وہ قوانین کسی آزاد ریاست کی بہبود کو یقینی بنانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انگریزوں کا چھوڑا ہوا قانونی اور تعلیمی ڈھانچا آج بھی ہماری اجتماعی زندگی سے چمٹا ہوا ہے اور اِس سے گلوخلاصی میں بظاہر غیر معمولی دلچسپی لینے والے خال خال ہیں۔ نو آبادیاتی دور کی اِن بلاؤں کو گلے لگانے والوں کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ اِن کے ہاتھوں پاکستان کو ماضی میں کتنا نقصان پہنچتا رہا ہے اور اب بھی پہنچ رہا ہے۔ ذہنوں سے انگریزوں کی غلامی کا بیج نکال پھینکنا آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

برطانوی حکومت سے ہندوستان پر قبضے کے دنوں کی زیادتی کا ہرجانہ  طلب کیا جانا چاہیے۔

یہ کیسے لٹیرے اور چور مغل حکمران تھے جن کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا اور ان کے جانے کے بعد برطانوی لوٹ مار سے دنیا کا غریب ترین خطہ بن چکا تھا۔مسلمان حکمرانوں کو چور، لٹیرا اور ڈاکو کہنے والے اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟

حوالہ جات:

ِhttp://irak.pk/the-need-for-a-museum-on-british-colonisation-of-india/
http://jehanpakistan.pk/column-blog-detail/معیشت-اور-برطانوی-راج
https://24coaches.com/indian-railways-british-era-romance/
https://www.theguardian.com/world/2017/mar/08/india-britain-empire-railways-myths-gifts
James Cypher (2014). The Process of Economic Development. Routledge.
Shireen Moosvi (2015). "The Economy of the Mughal Empire c. 1595: A Statistical Study”. Oxford Scholarship Online. Oxford University Press.
Abraham Eraly (2007), The Mughal World: Life in India’s Last Golden Age, page 5, Penguin Books
Maddison, Angus (2003): Development Centre Studies The World Economy Historical Statistics: Historical Statistics, OECD Publishing, ISBN 9264104143, page 261
Jeffrey G. Williamson, David Clingingsmith (August 2005). "India’s Deindustrialization in the 18th and 19th Centuries” (PDF). Harvard University. Retrieved 2017-05-18.
Rajat Kanta Ray, "Indian Society and the Establishment of British Supremacy, 1765–1818,” in The Oxford History of the British Empire: vol. 2, "The Eighteenth Century” ed. by P. J. Marshall, (1998), pp 508–29
Niall Ferguson (2004). Empire: How Britain Made The Modern World. Penguin Books. p. 216.
K. N., Chaudhuri (1978). The Trading World of Asia and the English East India Company: 1660-1760. Cambridge University Press. p. 237. ISBN 9780521031592.
India and the Contemporary World – II (March 2007 ed.). National Council of Educational Research and Training. p. 116. ISBN 8174507078.
Broadberry, Stephen; Gupta, Bishnupriya (2005). "Cotton textiles and the great divergence: Lancashire, India and shifting competitive advantage, 1600-1850” (PDF). International Institute of Social History. Department of Economics, University of Warwick. Retrieved 5 December 2016.
Booker, M. Keith (1997). Colonial Power, Colonial Texts: India in the Modern British Novel. University of Michigan. pp. 153–154. ISBN 9780472107803.
T.R. Jain; V.K. Ohri. Statistics for Economics and indian economic development. VK publications. p. 15. ISBN 9788190986496.
Kumar, Dharma (2005). The Cambridge Economic History of India, Volume II : c. 1757–2003. New Delhi: Orient Longman. pp. 538–540. ISBN 978-81-250-2710-2.
Kumar, Dharma (2005). The Cambridge Economic History of India, Volume II : c. 1757–2003. New Delhi: Orient Longman. pp. 876–877. ISBN 978-81-250-2710-2.
B. H. Tomlinson, "India and the British Empire, 1880–1935,” Indian Economic and Social History Review, (Oct 1975), 12#4 pp 337–380
R.R. Bhandari (2005). Indian Railways: Glorious 150 years. Ministry of Information and Broadcasting, Government of India. pp. 44–52. ISBN 81-230-1254-3.
Daniel R. Headrick, The tentacles of progress: technology transfer in the age of imperialism, 1850–1940, (1988) pp 78–79
Awasthi, Aruna (1994). History and development of railways in India. New Delhi: Deep & Deep Publications. pp. 181–246.
https://www.marxists.org/archive/hyndman/1907/ruin-india.htm
Wainwright, A. Marin (1994). Inheritance of Empire. Westport, CT: Greenwood Publishing Group. p. 48. ISBN 978-0-275-94733-0.
Daniel R. Headrick, The tentacles of progress: technology transfer in the age of imperialism, 1850–1940, (1988) pp 8–82
R. O. Christensen, "The State and Indian Railway Performance, 1870–1920: Part I, Financial Efficiency and Standards of Service,” Journal of Transport History (Sept. 1981) 2#2, pp. 1–15

تبصرے بند ہیں۔