حبیب بدر
میں مظلوم سہی جفاکار نہیں ہوں
تڑپادوں کسی کومیں حقدار نہیں ہوں
…
بہت پرکھے میں نے مزاج دوستاں کو لیکن
دوست ہوں میں کسی کا پرستار نہیں ہوں
…
کیسے کٹے گلشن پر خار میں یہ زندگی
بلبل کی زباں سننے کا میں سزاوار نہیں ہوں
…
سنتے آئے تھے کہ ہےبڑا ہی عہد شکن یہ انسان
میٹھی زباں سننے کو میں تیار نہیں ہوں
…
بہت کھا ئی ٹھوکڑیں تلاش وفا میں بدر
اب کسی سے بھی وفا کا میں طلبگار نہیں ہوں
…
بہت پاس رکھا میں نے آداب در عشق کا بدر
عشق ہی شیوہ ہے میرا ہوس کار نہیں ہوں
…
تڑپ جاتا ہوں جب بھی درد جدائی جاگ اٹھتا ہے
بھلادوں محسن کو وہ خطاکار نہیں ہوں
تبصرے بند ہیں۔