نکاح: حیات طیبہ کا ضامن

سلیمان سعود رشیدیؔ

انسان ایک سماجی حیوان ہے جو اپنی بہت سی ضروریات کے لئے  سماج کا محتاج ہے کیوں کہ انسان کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ خاندان کے زیر سایہ زندگی گذارے جبکہ خاندان کی بنیاد نکاح پر ہے اور نکاح ہی کے ذریعہ رشتے وجود میں آتے ہیں جو دکھ اور سوکھ میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں اور یہ سلسلہ اب کا نہیں بلکہ آدم ؑ سے اس آخری شریعت تک کسی نے ممنوع قرار نہیں دیا جس کے بغیر مرد وعورت کا باہمی اجتماع کسی شریعت نے جائز قرار نہیں دیا غرض یہ کہ اسلام میں نکاح کو بڑی فضیلت حاصل ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی اور اپنے سے پہلے انبیاء کی سنت قرار دیا ہے۔ (ترمذی :۱۱۔۱)

 انتخاب زوجہ

جب شادی کا ارادہ ہو جائے تو سب سے پہلے زوجہ کا انتخاب ضروری ہے تاکہ مطلوبہ اوصاف کے فقدان کی صورت میں ابغض الحلال کی نوبت نہ آجائے ، چنانچہ چند اوصاف کا دونوں میں پایاجانا ضروری ہے ، زوجین کا دین دار اور با اخلاق ہونا جب کہ مرد کا دین داری کے ساتھ مال دار وسخی اور رحم دل ہونا عورت کے خوشیوں کا ضامن ہے ، نیز عورت کا دین داری کے ساتھ درجہ ذیل اوصاف سے متصف ہوتو وہ ’’ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ‘‘ اور ’’ربنا ہب لنا من ازواجنا وذریتنا قرۃ اعین ‘‘ کی عملی تفسیر ہوگی ، مثلاً مطیع و فرمانبردار ، کفایت شعار ، بچہ والی ، کم عمر ، حسب ونسب والی ہو ، حسین وخوبصورت ہو تاکہ محبت وکمال اوجِ سریا کو پہنچے۔

نکاح کی عمر

نکاح کا پسندیدہ زمانہ بلوغ و رستگی عقل کے بعد کا ہے۔ (در مع الدر :کتاب النکاح ۴؍۶۷) حضرت فاطمہؓ کی عمر شادی کے وقت ساڑھے پندرہ سال اور حضرت علیؓ کی اکیس برس کی تھی ، اس عمر کے بعد توقف اچھا نہیں تاکہ انسان اس ہنگامہ خیز زمانہ میں عقل کو بالائے طاق رکھ کر نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر عفت وعصمت کے دامن کو داغ دار نہ کرلے البتہ یہ بات ضروری ہے کہ لڑکانان ونفقہ کی ذمہ داری اور لڑکی امور ِخانہ داری سے واقف ہو۔

مخطوبہ کو دیکھنا

 جب مطلوبہ اوصاف والا رشتہ مل جائے تو تاخیر نہ کی جا ئے اوربہتر ہے کہ اولاً مخطوبہ(لڑکی) کو ایک نظر دیکھ لے(شامی ، مطلب کثیراً مایتساھل فی۔ ۔ ۔ ۴؍۶۷) خواہ عورت کی اجازت سے دیکھے یا بلا اجازت دیکھنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ زوجین ایک دوسرے کو بذات خود محرم کی موجودگی میں دیکھے، لیکن آج کے زمانے میں جو طریقہ ہے کہ زوجین کا تنہائی میں ملنا ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے کثیر اوقات کاگذارناسرا سر غلط اور غیراسلامی فعل ہے۔

پیغام نکاح و منگنی

جب اطمینان ہو جائے تو عورت کے ولی کو یا خود عورت کو پیغام بھیجا جائے جیسے ہمارے عرف میں منگنی ، نسبت، رسم کہتے ہیں، مستحب یہ ہے کہ پیغام بھیجنے سے قبل طرفین استخارہ کر لیں۔

منگنی دراصل ہندی لفظ ہے جس کے معنی عربی میں ’’ـخطبہ‘‘  اور اردو میں ’’پیغام‘‘ کے ہیں اسلام میں منگنی کا ثبوت ملتا ہے ، اللہ کا ارـــــشاد ہے:لیس علیکم جناح فیما عرضتم بہ من خطبۃ النساء (البقرہ:۲۳۵) ترجمہ:اور تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم عورتوں کو اشارے میں نکاح کا پیغام دو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہؓ کو نکاح کا پیغام دیا تھا اور ان سے منگنی کی تھی(بخاری: ۴۷۹۳)مذکورہ دلائل سے منگنی مشروع ہے ، لہٰذا منگنی ہونے کے بعد بغیر کسی عیب کے قول وقرار سے مکر نا جائز نہیں ، جیسا کہ روز مرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی دو فریق کے درمیان کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو آپس میں ملاقات کرتے ہیں ، اس کی حکمت قاعدے سے ایک دوسرے کو جاننا ، لیکن اس میں چند خرابیاں در آئی ہیں ، جیسا کہ انگوٹھی کر رسم، منگنی کی دعورت، پھول مالا پیش کرنا ، مردو زن کا اختلاط ، مہنگے تحائف اورلڑکے کو خلوت میں چھوٹ دی جاتی ہے تاکہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جان سکیں ، یہ سب حرام کام ہے، پیغام نکاح کے منطور ہوجانے کے بعد کوئی دن عقد نکاح کے لئے طرفین کی رضامندی سے طئے کرلے اور مستحب یہ ہے کہ جمعہ کا دن ہو۔ (شامی: کتاب النکاح ۴؍۶۷)

بارات کی شرعی حیثیت

نکاح کو شریعت میں بڑی اہمیت حاصل ہے ، اس کو آسان کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ، لیکن جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جارہا ہے اس میں نت نئے رسوم وجود میں آرہے ہیں ، ان ہی میں سے ایک بارات ہے، بارات کو جو طریقہ چلا ہے اس کا ثبوت قرونِ ثلاثہ میں کہیں نہیں ملتا ، بس اتنا ثابت ہوتا ہے کہ نکاح کے موقع پر کچھ لوگ اکھٹے ہوکرجائیں جن میں کچھ دولہے کے متعلقین جائیں ، آج کے دور میں جو طریقہ رائج ہے اس کا ثبوت تو ہرگز اسلام میں نہیں ہے ، چوں کہ مروجہ طورپر عمل کرنے سے فضول خرچی، بے عزتی ، مردو زن کا اختلاط ، آتش بازی اور ناجائز حرکات وجود میں آتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔

بارات کا کھانا:

نکاح کے موقع پر ولیمہ کے دستر کے علاوہ کسی دستر کا ثبت نہیں ہے ، لہٰذا بارات کا کھانا خلاف سنت ہے ، اگر لڑکی والے بطور مہمان نوازی کے کچھ ناشتہ کرادیں تو جائز ہے ، اگر رسم ہے تو اس میں کئی ایک خرابیاں لازم آتی ہیں۔

جہیز کی شرعی حیثیت

شریعت میں جہاں تک ازدواجی زندگی بات ہے تو اس کی تفصیلات واضح انداز میں بیا ن کی گئی ہیں ، حضورؐنے گیارہ شادیاں کر کے امت کو دکھایا ، جن کی ہر ادا محفوظ ہے ، لیکن ان محفوظ روایات میں کہیں بھی جہیز کا ذکر نہیں ملتا، یہی وجہ ہے کہ آج تک بھی عرب ممالک میں کہیں بھی جہیز کی رسم نہیں ہے ۹۰؍فیصد سے زائد یہ رسم ہندوستان ہی میں پائی جاتی ہے ، تاریح ہند پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس کی شروعات ہندوستان میں ہی ہوئی او رابتدا کرنے والے رام جی، کرشن جی اور ادرجی وغیرہ ہیں ، چوں کہ ہندو دھرم میں عورت کو میراث دینے کا تصور نہیں ہے اسی لئے شادیکے موققع پر یہ سازوسامان جہیز کے نام پر دیتے ہیں ، جب کہ اسلام کا قانون اس کے برعکس ہے ، (اس کی تاریخ کی ایک لمبی داستان ہے جو ایک مستقل موضوع ہے )لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان سنت کی پابجائی میں ہندو دھرم کے دیوتاؤں کا اسوہ اپناتے ہیں ، جس کی سخت وعید ہے ’’ من تشبہ بقوم فہو منہ‘‘(ابوداؤد:۴۰۳۱)جہیز کا لینا مانگناگویا سود اور رشوت کھانے کے مترادف ہے ، بعض پڑھے لکھے جاہلوں میں یہ بات عام ہے کہ حضورؐنے حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا جو کہ سراسرجھوٹ اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس پر بہتان ہے ، اس خبیث رسم کو ختم کرنے کے لئے آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی سطح پر مؤثر تدبیریں اختیار کرکے ایسی شادیوں کا بائیکاٹ کریں۔

منجے کی شرعی حیثیت

شادی سے چار پانچ روم قبل ہلدی پکائی جاتی ہے ، جس کو ’’ابٹن‘‘ کہتے ہیں اور یہ ابٹن شادی کے روزتک لڑکی کو ملا جاتا ہے ، اسی طرح لڑکے کو بھی غیر محرم عورتیں خاص طور سے بھابیاں یہ رسم اداکرتی ہیں ان دونوں صوررت میں غیر محرم کا ہاتھ لگتا ہے جو کہ حرام ہے ’’کسی اجنبی کو ہاتھ پکڑنا یا کوئی بھی عضو مس کرنا ، قدرت دینا بلاضرورت شدیدہ حرام ہے ، چوڑیاں پہننا اور ابٹن لگانا ضرورت میں داخل نہیں ہے۔ (احسن الفتاویٰ:۸؍۳۱)اسی منجے کے آخر میں سانچق کی رسم اداکی جاتی ہے جو کہ غلط اور حرام ہے۔

عقد نکاح وخطبہ

مستحب یہ ہے کہ نکاح کی مجلس علانیہ طور پر منعقد ہو ، جس میں طرفین کے اعزانیز ابرار واخیار بھی شریک ہوں اور مستحب یہ ہے کہ نکاح مسجد میں ہو عورت مجلس میں شریک نہ ہو بلکہ اس کا ولی یا وکیل شریک ہو ، جو پرہیزگار ومتقی اور نکاح کے طریقہ کو سنت کے مطابق انجام دینا جانتا ہو ، عاقد کے ساتھ گواہوں کا متقی ہونا بھی ضروری ہے ، ان سب کے بعد مستحب یہ ہے کہ خطبہ نکاح ہو اور واضح رہے کہ خطبہ کے الفاظ متعین نہیں ہے ، البتہ خطبہ مأثورہ پڑھے تو بہتر ہے ، جس کا سننا حاضرین پر فرض ہے، مستحب یہ ہے کہ خطبہ لڑکی کا ولی پڑھے اگر وہ ناواقف ہو تو کسی اور سے خطبہ پڑھائے۔

سہرا کی ممانعت

نکاح کے موقع پر دولہے کو پھول یا کاغذاہار اسی طرح مالا گلے میں باندھا اور ہاتھ اور گلے میں گجرے پہنانا، جوڑبندباندھنایہ سب ہندوانہ رسم ہے اور اس میں غیروں کی شباہت بھی ہے، نوشہ کے سہرے اورگجرے وغیرہ اصالہ ہندوستان کے ہندوں کی رسم ہے جوکہ بے علم وبے عمل نومسلم خاندانوں میں رہ گئی ہے، اس لیے یہ واجب الترک ہے، اس لیے اسے ہندوستانی علما ء وفقہاء نے منع فرمایا ہے (فتوی محمودیہ:۱۱؍۲۱۳)

مہر کی شرعی حیثیت

زمانہ جاہلیت میں نکاح وشادی کا جو طریقہ رائج تھااس میں بھی مہر مقرر کیا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام جاہلیت کی اس شریفانہ طرزنکاح کو بر قرار رکھا، ارشادی باری ہے:وآتوالنساصدقتھن نحلۃترجمہ :تم لوگ اپنی بیویوں کو ان کا مہر خوش دلی سے دو، اور مہر کی دو قسمیں ہیں:

۱) مہر  معجل: تعجیل سے بناہے یعنی جلدی کرنااصطلاح فقہا میں مہر معجل اس مہر کو کہتے ہیں جو بوقت عقد نکاح دیا جاتاہے۔

۲) مہر  مؤجل: اجل سے بناہے یعنی مدت مقرر کرنایہ اس مہر کو کہتے ہیں جس کی ادائیگی کے لئے کچھ مدت مقررکی گئی ہو۔

بہر صورت مہر مرد پرفرض ہے اگر نہ دیں توحدیث میں سخت وعید آئی ہے، رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اسکے دل میں اس حق مہر کو ادانہ کرنے کا ارادہ ہوتو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کے دربار میں زناکار کی حیثیت سے پیش ہوگا(المعجم الصغیر:۱۱۱)مہر کی کم سے کم مقدار دو تولہ ساڑھے سات ماشہ (۰۳ گرام ۸۱۶ملی گرام)چاندی ہے ، موجودہ دور میں مہر فاطمی کی مقدار پانچ درھم ہے اگر اس کو چاندی میں تبدیل کریں توایک سو چون (۱۵۴)تولہ چاندی ہوتی ہے۔

  نکاح کے بعد مصافحہ ومعانقہ

اسی طرح یہ رسم وراج ہے کہ محفل عقد میں پہلے سے لوگ یکجا ہوکر آمنے سامنے بیٹھتے ہیں اور خطبہ نکاح کے بعد دولہا حاضرین مجلس سے کھڑے ہوکر مصافحہ ومعانقہ کرتا ہے اس مصافحہ کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ’’فان محل المصافحۃ المشروعیۃ اول الملاقاۃ‘‘(مرقاہ:۹؍ ۷۴)

چوتھی وجمعگی

ایک رسم چوتھی کی ہے کہ دولہن کے آنے کے اگلے دن اس کے عزیز واقارب کافی مقدار میں مٹھائیاں اور ناشتہ کے ساتھ آتے ہیں جوکہ پورے رشتہ داروں میں تقسیم کی جاتی ہے جس کا منشاء ریا ء وافتخار ہوتا ہے جو کہ مکروہ ہے حضرت تھانویؒ نے لکھا ہے ’’بہو کے آنے سے اگلے دن اس کے عزیز واقارب کے کچھ لوگ میٹھے کے ساتھ آتے ہیں اس آمد کا نام چوتھی ہے‘‘ یہ ماخوذہے کفار ہند سے اور تشبہ بالکفار کا ممنوع ہونا ظاہر ہے(اصلاح الرسوم:۸۰) بہت سے علاقوں میں یہ رواج ہے کے شادی کے بعد دولہا دولہن کو ہر جمعہ یا اتوار رشتہ داروں کے یہاں یا پھر دولہن یا دولہے کے گھر پر دعوت ہوتی ہے، یہ سلسلہ کئی جمعوں تک چلتا ہے اس کا ایسا التزام ہوگیا ہے جیسا کہ یہ فرض ہے، جس کا ثبوت شریعت میں نہ ہو اسے بہتر سمجھ کر کرنا بڑا گناہ ہے۔

 ولیمہ کا حکم

ولیمہ کرنا سنت ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے ولیمہ کیا ہے علمائے جمہور کے یہاں ولیمہ مسنون ہے مگر اس میں ریا وسمعہ کی نیت نہ ہو بلکہ شادی کی خوشی حاصل ہونے کی شکر گذاری اور اتباع سنت نبویہ کی نیت سے دعوت دی جائے جس کوکرنے کی گنجائش تین دن تک ہے فتاوی ہندیہ میں ہے ’’ولا بٔاس بأن یدعوا یومئذمن الغدوبعد الغد ثم ینقطع العرس والولیمۃ(فتاوی ہندیہ:۵؍۳۴۳)لیکن اس دعوت میں بھی اسراف گناہ کبیرہ ہے۔

خلاصہ

معاشرہ اور سماج کے پیداکردہ رسم ورواج کو چھوڑکر سنت کے مطابق شادی کرنے کا مزاج بنانا چاہیئے اور اسکو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے، اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔