می ٹو: فتنہ یا حقیقت

عمر فراہی

انسٹا گرام فیس بک یا ٹوئٹر پر بہت ہی اختصار سے کہی گئی بات سے پہلے #  ہیش سوشل میڈیا کی زبان کا ایک ایسا علامتی نشان ہے جو اکثر عالمی پیمانے پر اپنی بات کو اہمیت دینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آجکل میڈیا میں نانا پاٹیکر آلوک ناتھ اور ایم جے اکبر کو ’ہیش می ٹو‘ تحریک کی طرف سے اپنے ساتھ کام کرنے والی دوشیزاؤں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے الزام کا سامنا ہے۔ بہت دیر سے ایم جے اکبر نے خاموشی توڑی۔ یہ عورتیں بھی جن کے ساتھ کئی سالوں پہلے یہ زیادتی ہوئی تھی اتنے سالوں سے کیوں خاموش رہیں مجھے یہ سوال کرنے کا حق ہے یا نہیں لیکن کہتے ہیں کہ ان عورتوں کو اپنی خاموشی توڑنے کا حوصلہ امریکہ کی ان دو عورتوں سے ملا جن کا نام ترانا برکے اور الیشا میلانو ہے #Trana Burke & Alyssa Milano ان کی تحریک کا نام ہے #MeTooMovement اس تحریک کی شروعات 2006 میں ایک سیاہ فام خاتون ترانہ برکے کے ایک چھوٹے سے ٹوئٹر پیغام سے ہوئی تھی جو خود بھی چھ سال کی عمر میں جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہے۔ ان  کی اس بات کو انہیں کے عنوان سے جب ایک دوسری سفید فام خاتون امریکی اداکارہ الیشا میلانو نے ٹوئٹ کیا تو یہ عنوان لوگوں میں شہرت اختیار کرتا گیا اور امریکہ میں عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو می ٹو کے عنوان سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو شیئر کرنے کا حوصلہ ملا۔

اس طرح سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ میڈیا نے بھی مختلف پروگرام کے ذریعے اسے خوب مشتہر کیا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ترانہ برکے ایک سیاہ فام پسماندہ خاندان سے تھی اور الیشا میلانو کاتعلق گوروں کی نسل اور ہالی ووڈ فلم انڈسٹری سے تھا۔ برکے نے جب یہ دیکھا کہ الیشا کو میری اس بات سے شہرت مل رہی ہے تو اس نے  الیشا کے سامنے اعتراض اٹھایا کہ یہ بات ٹوئٹر پر سب سے پہلے اس نے  شیئر کی تھی۔ الیشا نے برکے سے کہا کہ یہ ایک عام بات ہے کوئی بھی کہہ سکتا ہے۔ برکے نے اس کے بعد جب اپنا ٹوئٹر پیغام اور اس عنوان منعقد کیئے گئے پروگرام کی ویڈیو گرافی بنائی تو الیشا نے برکے کے ساتھ پورے خلوص کے ساتھ تعاون کیا اور باقاعدہ ایک تنظیم بنائی جس کا نام رکھا #Me Too Movement

دسمبر 2017 میں ٹائم مگزین نے ان دونوں خواتین کی صفحہ اول پر تصویر لگاکر سائلینس بریکر سرخی لگائی اور اب یہ تحریک ایک عالمی تحریک میں تبدیل ہوکر نہ جانے کتنے ایم جے اکبر اور نانا پاٹیکر کو بے نقاب کرے گی۔ یہ سوال اپنی جگہ لیکن کیا کسی بل کلنٹن لیونسکی اور ترون تیجپال اور ایم جے اکبر کو بے نقاب کردینا ہی مسئلے کا حل ہے ؟ جبکہ فحاشی اور مخلوط کلچر کو جس طرح سیلاب کی طرح قانونی تحفظ فراہم کیا جارہا ہے  انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے آپسی رضامندی کے اس استحصال کا کیا ہوگا جہاں سو فیصد عورتیں اپنی عصمت کو صرف اس لیے تحفے میں پیش کررہی ہیں کیوں کہ انہیں اس کے عوض خوبصورت پیکج اور کارپوریٹ انڈسٹری میں  اشتہارات کی تجارت کے مواقع مل رہےہیں۔ اس کا اعتراف فلمی دنیا کی مشہور اداکارہ ریکھا نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران بھی کیا تھا کہ جو عورتیں عورتوں کے تقدس کی بات کرتی ہیں انہیں فلم صنعت کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔ اس بات کا اعتراف فلم جگت کے عنوان پر لکھنے والی مشہور خاتون انگلش جرنلسٹ شوبھاڈے بھی اپنے ایک مضمون میں کرچکی ہیں۔ سوال اس برائی اور اس استحصال کو ختم کرنے کا ہے نہ کہ بے نقاب کرنے  کا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب اس انڈسٹری کی کسی خاتون، ہیروئن یا دیگر اداکارہ کو ان کا معقول معاوضہ نہیں ملتا یا اس انڈسٹری کے فائننسر پروڈیوسر اور ڈائریکٹر اپنے وعدے سے مکر جاتے ہیں تو یہ خاتون ان کے خلاف میڈیا کا سہارا لینا شروع کردیتی ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سماج میں اب یہ مخلوط کلچر کارپوریٹ انڈسٹری کا فیشن بن چکا ہے کہ  ماڈرن دوشیزائیں خود اپنے خوبصورت کریئر کیلئے جسمانی استحصال کو برا نہیں  مانتیں۔ خاص طور سے فلم انڈسٹری اور ہوابازی کی صنعت میں نوجوان  دوشیزاؤں کو اس وقت تک آگے بڑھایا ہی نہیں جاتا جب تک کہ وہ اپنے  پروڈیوسر، ڈائریکٹر، فائنانسر اور پروموٹرکو خوش نہ کریں۔ بدقسمتی  سے ماضی میں جس طرح ترون تیجپال کو منصوبہ بند طریقے سے پھنسایا گیا تو اس لیے کہ اس نے اپنی تمام تر برائیوں کے باوجود اپنے اخبار تہلکہ کے ذریعے فاشزم اور فرقہ پرستی کے خلاف جنگ کی تھی۔ نانا پاٹیکر نے بھی فاشزم مخالف اپنے سیکولر کردار سے کبھی مصالحت نہیں کی۔ ایم جے اکبر بھی ایک اصول پسند جرنلسٹ تھے۔

سوال یہ ہے کہ فلم انڈسٹری اور  کارپوریٹ میڈیا میں کیا ان چند شخصیتوں کے علاوہ باقی سب نے گنگا نہایا ہوا ہے۔ ہندوستان کے ان نوے فیصد وی آئی پیوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو بیشتر اوقات فائیو اسٹار ہوٹلوں میں میٹنگ کر رھے  ہوتے ہیں۔ ویسے ایم  جے اکبر جب بی جے پی میں گئے تو ان کے بارے میں سیما مصطفےٰ اور کچھ ان کے ساتھیوں نے بہت اچھا تبصرہ کیا تھا کہ اکبر بی جے پی میں خوشی خوشی تو جارہے ہیں لیکن وہ صحیح سلامت واپس نہیں آسکتے۔ میں ایم جے اکبر کی صفائی بالکل پیش نہیں کرہا ہوں جبکہ ایم جے اکبر ہندوستان میں واحد ایسے جرنلسٹ ہیں جنھوں نے ایشین ایج کے ذریعے کارپوریٹ پرنٹ میڈیا میں سب سے پہلے پیج تھری کے نام سے فلم انڈسٹری کی خوبصورت دوشیزاؤں کے بدن کی  نمائش کرکے فحاشی کو فروغ دیا اور اب وہ خود اپنے ہی کھودے گئے گڑھے میں گر گئے۔ اللہ رحم کرے ! ہیش می ٹو تحریک اور اس تحریک کی روح رواں دونوں عورتوں کے پیچھے بھی ممکن ہے کوئی عالمی تحریک خطرناک کھیل کھیل رہی ہو اور مستقبل میں بہت ساری آوازوں کو خاموش  کیا   جاسکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔