می ٹو، شی ٹو!

مدثر احمد

پچھلے کچھ دنوں سے ملک میں ایک نئی وباء” می ٹو”(میں بھی ) پھیلی ہوئی ہے اور اس وباء کو ہم اور آپ بے حیائی کہیں تو کچھ برا نہ ہوگا۔ دراصل پچھلے سال یوروپ کے چند خودساختہ ترقی پسند خواتین نے سوشیل نیٹورکنگ سائٹ ٹوئٹر پر "می ٹو” نامی مہم کا آغاز کرتے ہوئے اپنے اوپر ہونے والے جنسی و جسمانی استحصال کے تعلق سے اپنے اظہارات قائم کئے تھے اس دوران یوروپ سے حج و عمرہ پر جانے والی خواتین نے حرمین شریفین میں انکے ساتھ ہونے والی جنسی استحصال کے تعلق سے پردہ فاش کرتے ہوئے دنیا کو تعجب میں ڈال دیا تھا، اسکے کچھ عرصے بعد ہی ہندوستان میں جب یہ مہم شروع ہوئی تو کئی نامی گرامی ہستیوں کے تعلق سے خواتین نے الزامات لگانا شروع کردیا کہ انکے ساتھ بھی جنسی استحصال ہوئے ہیں، انکے ساتھ بھی جسمانی ذیادتیاں ہوئی ہیں۔ اس مہم میں یوں تو سینکڑوں خواتین شامل ہوئی ہیں جن میں زیادہ ترعام خواتین ہیں لیکن بات ان خواتین کی ہورہی ہیں جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ خواتین تسلیم کرتی ہیں۔ ان میں سیاسی، فلمی، صنعتوں سے جڑی ہوئی، سرکاری افسران اور بڑی بڑی کمپنیوں کی خواتین ہیں جنہوںنے اپنے مالکان، استاد، ساتھیوں اور افسروں پر الزامات لگائے ہیں کہ انکے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں۔

غور طلب بات ہے کہ یہ تمام معاملات کم از کم دس سے بیس سال پرانے ہیں اور ان میں سے کئی ملزمان ایسے بھی ہیں جنہیں آج خواتین کو کچھ کرنے کی بات تو دور دیکھنے کی بھی استطاعت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ می ٹو مہم میں جن خواتین نے الزام تراشیوں کا سلسلہ اب شروع کیاہے وہ خواتین سالوں بعد اب کیونکر اس بات کو منظر عام پر لارہی ہیں اور اتنے دنوں تک وہ خاموش کیوں تھیں ؟۔ کونسا قانون انہیں روکے ہوا تھا اور کس کے دبائو میں وہ تھیں۔ اظہار رائے کی آزادی تو اب کے مقابلے میں پہلے زیادہ تھی لیکن کیوں آج اظہار رائے کے تحت اپنی جوانی کے قصے بیان کئے جارہے ہیں۔ سب سے بڑی یہ بھی ہے کہ جتنی بھی خواتین می ٹو مہم کے تحت اپنے قصے بیان کررہی ہیں ان میں سے بیشتر ایسی خواتین ہیں جو قانون کو بہت اچھی طرح سے جانتی ہیں خاص طور سے خواتین صحافی جو پولیس سے لے کر عدالت تک کی کارروائیوں کا آسانی کے ساتھ سامنا کرسکتی ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کئی خواتین نے الزام لگایاہے کہ انکا مسلسل استحصال کیاگیا تھا یا ہے، مسلسل استحصال کا مطلب یہی ہواکہ وہ آزاد تھیں پھر بھی استحصال کرنے والے کے ساتھ مسلسل ملتی رہیں۔ جب انکا کوئی استحصال کرتا رہا تو وہ کیوں کر انکے ساتھ مسلسل تعلقات بنائی ہوئیں تھیں؟

یہ حقیقت ہے، شاید کڑوی ہی صحیح کہ اکثر خواتین ترقی پانے کے لئے شارٹ کٹ راستوں کا استعمال کرتی رہیں ہیں لیکن اسکا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب سامنے والے سے انکا مقصد نکل جاتا ہے یا پھر وہ کسی مقام پر پہنچ جاتی ہیں۔ خواتین نے جس طرح سے اپنے اوپر ظلم و ستم کو بھرے بازار میں لاکر اپنی ہی عزتوں کو اچھالاہے وہ اچھے معاشرے کی نشانی نہیں ہے۔ کچھ سال قبل تک جب کسی عورت کو کوئی گھور کر بھی دیکھتا تو وہ خاتون خود ہی اپنی عزت کو پامال ہونے کے خدشے سے خاموشی اختیار کرلیتی لیکن آج جدید طرز کو اپنانے اور آزادی نسوان و آزادی اظہار رائے کا سہارا لے کر جن عورتوں نے اپنے اوپر ہوئے استحصال کی بات کررہی ہیں وہ شرمناک بات ہے۔ شرم و حیا کی حدیں اس وقت بھی پار ہورہی ہیں جب وہ خواتین استحصال کے دوران ہونے والی تمام حرکتوں کو بھی میڈیا، سوشیل میڈیا اور اپنی تحریروں میں جاری کررہی ہیں۔ کوئی کہہ رہی ہے کہ فلاں نے میرے ہونٹ پکڑے تو کوئی کہہ رہی ہے کہ فلاں نے اس انداز میں میرے کپڑے اتارے۔ جتنا ظلم کسی اور نے انکا جنسی استحصال کرتے ہوئے کیاہے اس سے کہیں زیادہ ظلم وہ اپنے آپ پر کررہی ہیں۔

یہ بات تو ہوئی می ٹو مہم کی۔ لیکن آج کے دور میں سب اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ جس طرح سے عورتیں ظلم کا شکار ہوتی رہی ہیں اسی طرح سے مردوں کی جانب سے بھی عیاشیوں کے سلسلے کچھ کم نہیں رہے ہیں۔ اگر مرد بھی شہرت حاصل کرنے یا پھر اپنی مردانگی کا مظاہرہ کرنے لگیں گے اور اس مظاہرے کے لئے ” شی ٹو "کا سلسلہ شروع کردیا جائے تو سوچئے کہ کتنی گھر اجڑ جائینگے۔ کتنے مرد اپنی بیویوں کو چھوڑنے لگیں گے۔ جس طرح سے آج خواتین جنسی استحصال کی باتیں کررہی ہیں وہیں مرد خواتین کے ساتھ اپنے ناجائز رشتوں کا پردہ فاش کریں اور کون کون سی عورتیں اکے حوس کی شکار ہوئی ہیں تو لاکھوں گھروں میں  طلاق کے معاملات رونما ہونگے۔

می ٹو مہم کے واقعات کے پس منظر کو دیکھا جائے تو یہاں حکومت کا بھی اہم رول ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی پر رافیل معاہدہ، پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ، بینکوں کی لوٹ اور ماب لنچنگ جیسے معاملات پر نکتہ چینی کی جارہی تھی، اس دوران بابری مسجد کے معاملے کو اچھالاگیا تو اس کا اثر مودی پر لگنے والے الزامات پر زیادہ نہیں ہوا۔ اب آخرمیں می ٹو مہم پر جیسے ہی میڈیا نے بولنا شروع کیا فوراََ ہندوستان کی میڈیا حکومت کی ناکامیوں اور اپوزیشن کی الزام تراشیوں کو خیر آباد کہتے ہوئے می ٹو مہم کو بڑھا وا دینے لگی جس سے حقیقی مدعے چھپنے لگے۔

جہاں تک ہماری سوچ ہے آج ملک کو می ٹو کی متاثرین سے بڑھ کر اور بھی کئی مدعے ہیں جنہیں جان بوجھ کر چھپا یا جاتاہے۔ نجیب و اخلاق کے معاملات کودبا یا جاتاہے۔ یہی میڈیا ہے اور یہی حکومت کی پالیسی ہے کہ وہ اپنے بچائو میں کسی کی بھی عزت کو پامال کرے۔ می ٹو مہم کے تحت جن خواتین نے آواز اٹھائی ہے وہ بھلے ہی حقیقی ہو لیکن اپنی ہی عزتوں کو سرعام پامال کرتے ہوئے کونسی عزت بچانے کی بات کی جارہی ہے اس پر غور کرنے کی بات ہے۔ یہ سب اس لئے بھی ہورہاہے کہ اب لوگ مہنگی عزت سے زیادہ سستی شہرت کے دلدادہ ہوتے جارہے ہیں اور انہیں شہرت ملنی چاہئے وہ بھی کسی بھی قیمت پر۔ کسی بھی حال میں۔

تبصرے بند ہیں۔