یوم سر سید

ڈاکٹر خالد اختر علیگ

گزشتہ سال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں کی پیدائش کا دو سوسالہ جشن ہندوستان وبیرون ہندوستان غرض کہ جہاں جہاں اردو بولنے والے لوگ موجود ہیں مناکر ان کو یاد کیا گیا 17اکتوبرکے دن ہر سال ان کا یوم پیدائش یوم سرسید کے نام سے منایا جاتا ہے ۔ سرسید احمدآخر تھے کو ن، جنہوں نے ایساکون سا کام کیاجس کی وجہ سے وہ گزشتہ دو سو برس سے چھائے ہوئے ہیں اَور نجانے کب تک چھائے رہیں گے ۔سر سید جنہوں نے مسلمانوں اور برصغیر کے عام انسانوں کے لئےً ایسا کام کیا جو رہتی دنیا تک ان کو اچھے لفظوں میں یاد کرنے کے لئے کافی ہے،جنہوں نے علم و ادب و آگہی کی روشنی پھیلائی، ذہنی بیداری پیدا کی۔ غلاموں کو حاکمیت کی راہ پر لگایا، انگریزوں کی تعلیم، جو صرف چپراسی اور کلرک بنانے کے لئے تھی، اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کر کے انہیں نئی منزلوں کی نوید دی۔ نہ صرف راغب کر کے بلکہ عملی طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسی عظیم تعلیمی درس گاہ بنا کر مسلمانان برصغیر کے لئے کامیابی و کامرانی کے نئے افق دِکھلائے۔

 بلاشبہ سر سید احمد خاں کی تحریک نے برصغیر کے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا۔ علمی، تعلیمی، ادبی، ثقافتی، سماجی، سیاسی، غرض ہر ہر شعبے میں ان کی اپنے زمانے سے آگے کی سوچ نے عظیم الشان فکری انقلاب برپا کیا۔ اس بطل عظیم نے پورے برصغیر کے عام و خاص لوگوں پر وہ احسان کئے، جو اتارے ہی نہیں جا سکتے۔ ان سے بے حد اختلاف کیا گیا، انگریزوں کا زلہ خوار کہا گیا، کفر کے فتوے لگائے گئے، حتیٰ کہ چندہ کھانے کا الزام بھی بعض دریدہ دہنوں نے عائد کیا، سر سید احمد خاں نے ایک عظیم مقصد کے حصول کے لئے ا سٹیج پر اداکاری بھی کی اور چندہ اکٹھا کیا، طوائفوں کے سامنے چندے کا کشکول بڑھایا اور بھر بھر کے لا کے دکھایا، لوگوں نے طوائفوں کے چندے کو حرام قرار دینا چاہا تو کہا کہ اسکول میں متعدد باتھ روم، واش روم بھی تو بننے ہیں، یہ چندہ وہاں کام آئے گا۔ مسلمانانِ برصغیر کی فکری، سیاسی، ذہنی بیداری میں سر سید احمد خاں کا کردار لاثانی ، بے عدیل ،بنیادی ، لازوال ، انمٹ اور ناقابلِ فراموش ہے۔

  سوال یہ ہے کہ سرسید کے یو م پیدائش پر لوگ جشن کیوں منارہے ہیں ،کیا ہم واقعی سر سید کے اس مشن کو پورا کررہے ہیں جو وہ چھوڑ کر گئے تھے ،شاید نہیں ،ہم توسر سید کے ان خوابوں میں ابھی تک رنگ بھی نہیں بھر پائے ہیں جو وہ اپنی دور بیں چشم سے دیکھا کرتے تھے ،ہم صرف ایک ہی ادارے تک سمٹ کر رہ گئے ،نئے ادارے کھولنا تو دور کی بات اس ادارے کو بچا پانے میں بھی تقریباًناکام ہی نظر آتے ہیں ،اس کے تشخص پر تلوار لٹکی ہوئی ہے اور ہم باہم دست و گریباں ہیں۔سرسید اس ادارے سے ملک کو ایسے نوکر شاہ دینا چاہتے تھے جو ملک کی بہتری کے لئے کام کریں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے طلبہ میں اب سول سروس کی طرف رجحان باقی نہیں رہا ۔یہاں سے اب وہ در نایاب کیوں نہیں نکلتے جو سارے عالم میں اپنی چھاپ چھوڑ سکیں۔ ہم نے ماضی میں دیکھا بھی ہے کہ اس ادارے نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے بیشتر ملکوں کو بہترین سپوت دئے ہیں ،جن میں سائنس سے لے کر ادب تک،سماج سے لیکر سیاست تک،نوکر شاہی سے لیکر وزارت عظمیٰ اور جمہوریت کے صدور تک شامل ہیں۔ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب اس یونیورسٹی کے پاس وسائل کم تھے مگر یہاں کے اساتذہ اور ملازمین کے دلوں میں ادارے کی ترقی کی خواہش اور خلوص تھاآج سب کچھ ہے مگر حالات ابتر ہیں۔

  17اکتوبر کو جب ہم ہر سال یوم سرسید مناتے ہیں تو اس میںہونے والی تقاریر میں سرسید کے ان ہم عصر علماءکوتنقید نشانہ بنایا جاتا ہے جنہوں نے ان کے تعلیمی مشن کوشک کی نگاہ سے دیکھا تھا اور جو سمجھتے تھے کہ انگریزی تعلیم مسلمانوں کو الحاد کی طرف لے جائے گی ۔لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم نے سرسید کی تعلیمی تحریک کو یکسر فراموش کردیا ہے ،تحریک ایک جہد مسلسل کا نام ہے مگر اس میں جمود کیوں طاری ہوگیا؟جن علماءکو ہم سرسید کا مخالف مان کر ماتم کرتے ہیں ان کے شاگردوں نے تو پورے برصغیر کے اندر مدارس و مکاتب کا جال پھیلادیا،بھلے ہی ان مدارس کے تربیت یافتہ لوگ ملک و بیرون ملک میں بڑے عہدوں پر متمکن نہ ہو پائے ہوں ، پالیسی ساز اداروں میں شامل ہوکر پالیسیاں بنانے میں اپناکردار نہ ادا کرپائے ہوں مگر انہوں نے برصغیر کے عام مسلمانوںکی ایک بڑی اکثریت کو لکھنااورپڑھنا تو سکھا دیااور ان کے عقائد کی حفاظت کی۔یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اس پڑھنے لکھنے سے کیا حاصل جو ان کو اعلیٰ نوکریاں نہ دلاسکے ،عیش وآسائش سے بھری زندگی نہ فراہم کرسکے ۔ لیکن اگر آپ سر سید کی زندگی کا کھلے دل سے مطالعہ کریں تو یہ بات صاف طور پر نکل آئے گی کہ سرسید احمد خاں اپنے ادارے کے تربیت یافتہ افراد کو صرف مادیت پسند بنا نا نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کا یہ قول تو بہت مشہور کہ ہمارے داہنے ہاتھ میں قرآن ہو اور بائیں ہاتھ میں فلسفہ اور پیشانی پر کلمہ لاالہ کاتاج۔اگر سر سید کی تعلیمی تحریک کو اسی قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس تحریک سے جڑے افرادصرف اپنے بارے میں نہیں سوچ سکتے ،قرآن تو ملت کی بات کرتا ہے ،جب معاملہ ملت کا ہو تو یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ سرسید کی تعلیمی تحریک سے وابستہ افراد نے ملک کے مسلمانوں کے لئے کتنے ادارے قائم کئے؟اگر کچھ ادارے قائم بھی ہوئے تو وہاں تک مسلمانوں کے عام طبقہ کی رسائی ہی نہیں ہے کیونکہ اخراجات ہی اتنے زیادہ ہیں اور سچر کمیٹی نے مسلمانوں معاشی اور تعلیمی صورتحال کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ہر فرزند سر سید کی تعلیمی تحریک کا رکن ہے ،لیکن شاید ہی کسی کے دل بشمول راقم کے یہ خیال آتا ہوکہ اس ملت کے لئے جو بقول سرسید جہالت میں غرق تھی جس کو اس جہالت کی گندگی سے نکالنے کے لئے انہوں نے ایسے ادارے کی داغ بیل ڈالی جہاں وہ اپنی شناخت ،عقیدہ کے تحفظ کے ساتھ جدید تعلیم سے آراستہ ہوسکیں ،ملت آج پھر اسی اندھیرے میں ہے اور اس کو اجالے میں لانا ہے ۔مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیوں میں کوئی بھی ایسا اسکول نظر نہیں آتا جہاں وہ اپنے تشخص کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں ۔ہاں ایک آدھ دینی مکتب یا مدرسے ضرور نظر آجاتے ہےں جو انہی لوگوں کے ذریعہ قائم کئے گئے ہیں جن کوہم نے معتوب قرار دے رکھا ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ پسماندہ مسلم علاقوں میں ہمارے باشعور افراد اسکول کھولنے کی کوشش نہیں کرتے ۔کیا تعلیم کا حق صرف ان متمول گھرانوں کو ہی ہے جو اسے خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ملک کے تقریباً ہر اس چھوٹے بڑے شہر میں جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اولڈ بوائز کی تنظیمیں قائم ہیں مگر شاید ہی کسی جگہ ان تنظیموں نے کوئی اسکول قائم کیا ہو ،وہاں پر رہنے والے اپنے بھائیوں کی فلاح و بہبود کے لئے کسی قسم کا کوئی کارنامہ انجام دیا ہو ۔پھر ایسی تنظیموں کا کیا فائدہ جو خود کو سرسید کے مشن کا دعویدار مانے لیکن سرسید کے خوابوں کو چکنا چور بھی کرتی پھرے۔ کیا ان تنظیموں میں ایسے لوگ موجود نہیں جو سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہوں ، انتظامیہ میں ہوں ،بڑے عہدوں پر فائز ہوں ،لیکن اس قابل نہ ہوں کہ چھوٹے چھوٹے ایسے اسکول قائم کرسکیں جہاں ملت کے بچے اور بچیاں اپنے تشخص اور عقیدے کو بچاتے ہوئے ،اپنی زبان اور جدید علوم کی تعلیم حاصل کرسکیں ۔سر سید نے بھی تو ایک چھوٹا سا مدرسہ ’مدرستہ العلوم ‘کے نام سے قائم کیا تھا جو محمڈن اینگلو اورینٹئل کالج میں تبدیل ہوا بعد ازاں ان کے لائق جانشینوں کی کوششوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوا۔آج ارتداد کی لہر ہمارے گھر تک آپہنچی ہے ،ملت کی بیٹیاں غیروں سے متاثر ہو رہی ہےں جن میںبیشتر وہ بچیاں ہیں جو ایسے اداروں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں جہاں اخلاقیات کے نام پر صرف دیومالائی کہانیاں پڑھائی جارہی ہیں ۔جہاں ان کے عقائد محفوظ نہیں ہیں ۔سر سید احمد خاں اتنے کم فہم تو نہ تھے کہ انہوں نے اپنے ادارے سے ایسے افرادکی تیاری چاہی تھی کہ جن کے ایک ہاتھ میں فلسفہ یا سائنس، دوسرے ہاتھ میں قرآن ،اور پیشانی پر کلمہ لاالہ الا کا تاج ہو ،یقینا وہ الحاد کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے آشنا تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں اپنے قائم کردہ ادارے میں دینی تعلیم کو ابتداءسے ہی رواج دیا۔

  اگر واقعی فرزندان علی گڑھ کو سرسید کے مشن سے محبت ہے تو انہیں ابھی سے ابتدائی اسکولوں کے قیام کی طرف توجہ دینی ہوگی ،ہر اس علاقہ میں جہاں مسلمان قیام پذیر ہیں اسکولوں کا قیام لازمی بنانا ہوگا ۔صرف سرسید کا یوم پیدائش منالینا کافی نہیں بلکہ ان کے مشن سے مکمل طورپر وابستگی کا عملی طور پر اظہار بھی کرنا ہوگا۔ خالی تقریریں کرلینے اور ڈنر کھا لینے سے قوموں کی تقدیر نہیں بدلتی۔ خدارا اپنی کسمپرسی کی مرثیہ خوانی بند کیجئے ،مولویوں پر اپنی بدحالی کا ٹھیکرا مت پھوڑئیے۔بلکہ سرسید کے ادھورے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لئے میدان عمل میں آیئے اور ملکی پیمانہ پر تعلیمی تحریک کو پھر سے ایک بار کھڑا کیجئے ،ورنہ صرف ماتم کرتے رہ جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔