نئی امنگ

سیدہ تبسم منظور

 لقمان ساتویں منزل کی گیلری میں ہاتھ میں کافی کا کپ لئے کھڑاٹھنڈے ٹھنڈے خوش گوار دل کو مسرور کرنے والے ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک بچے پر پڑی جو اپنے سر پر اینٹیں لادے چلا جارہا تھا۔وہ اس طرف جارہا تھاجہاں کنسٹرکشن کا کام چل رہا تھا۔ لقمان اس بچے کو دیکھے جارہا تھا کہ اس کے ذہن میں ماضی کے صفحات پلٹنے لگے۔ اسے اپنا بچپن یاد آگیا۔

’’ ماں بہت بھوک لگی ہے۔کچھ کھانے کےلئے ہے تو دو نا۔‘‘

’’نہیں بیٹے کچھ بھی نہیں ہے۔ آج میری طبیعت خراب تھی اس لئے کام کرنے نہیں گئی تو کہیں سے کھانا بھی نہیں مل پایا۔‘‘لقمان کو ماں کا جواب سن کر بڑا ملال ہوااوردل ہی دل میں خود کوہی برا بھلا بولنے لگا کہ کیوں اب تک میں نے اپنی ذمے داری نہیں نبھائی؟ کیوں اب تک ماں کی تکلیف کو سمجھ نہیں پاتا؟ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں اور لرزتی آواز میں بولا،’’”ٹھیک ہے ماں۔ کوئی بات نہیں۔تم پریشان مت ہونا۔‘‘ جاکر مٹکے سے ایک گلاس پانی پیا اور رب کا شکر ادا کر اپنی جگہ واپس آگیا۔

گاڑے مٹی سے بنا ہوا گھر تھا۔دیواروں کی جگہ جگہ سے مٹی نکلی ہوئی تھی۔بس یوں سمجھیں  ٹھنڈی، گرمی، بارش سے بچنے کے لئے ایک آسرا تھا اور کچھ بھی نہیں۔گھر کیا مفلسی کی منہ بولتی تصویر تھا۔ماں روزانہ محنت مزدوری کر کے سودا لاتی یا کہیں سے کھانا مل جائے تو وہ لاکر اپنا اور بچوں کا پیٹ بھرتی۔کیسی دن کام نہ ملا تو فاقہ ہو جاتا۔باپ کا سایہ تو دو سال پہلے ہی سر سے اٹھ گیا تھا تب سے ماں ہی کام کرتی تھی۔ آج لقمان کو بہت بھوک لگی پر کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔اپنی اس مفلسی اور بے بسی پر بہت رونا آرہا تھااوروہ ماں کی تکلیف پر تڑپ کر رہ گیا۔ سوچنے لگا کہ میں ایسا کیا کر سکتا ہوں کہ اپنی ماں اور چھوٹے بھائی اور اپنے لئے دال روٹی کا انتظام کر سکوں۔لقمان آٹھویں جماعت کا اور ریان چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ لقمان پڑھائی میں بہت ہوشیار تھا۔کلاس میں اول نمبر سے کامیاب ہوتا۔

وہ ایک نئی امنگ کے ساتھ اٹھااور ماں سے ’تھوڑی دیر میں آتا ہوں‘ کہہ کر گھر سے باہر نکلا اور قریب ہی کرانےدوکان پر پہنچاجہاں سے اس کی ماں روز مرہ کا سامان لایا کرتی تھی۔

’’چاچاجی! آپ کی دوکان میں مجھے کوئی چھوٹا موٹا کام مل سکتا ہے ؟‘‘

’’بیٹے ابھی تم چھوٹے ہو۔ پہلے اپنی پڑھائی پر دھیان دو۔‘‘

’’چاچاجی! میں پڑھائی بھی کروں گا اور کام بھی کروں گا۔پیٹ کی آگ کو بھی تو بجھانا ہے۔ اسکول کے بعد کچھ کام ملا تو تھوڑی بہت گھر میں مدد ہوجائےگی۔میں آپ سے عاجزانہ گزارش کرتا ہوں مجھے کچھ کام دیجئے۔ میری مجبوری کو سمجھئے۔ آپ تو واقف ہیں میرے گھر کے حالات سے۔مجھے کام کی سخت ضرورت ہے۔ ‘‘

دوکاندار لقمان کو جانتا تھا اوراس کے عادت اخلاق سے بھی واقف تھااس لئےبلا جھجھک بولا، ’’ اچھا ٹھیک ہے۔میں بھی اکیلا کام کرتا ہوں۔ گاہک دیکھنا، پیسے کا حساب کتاب، دوکان کی دیکھ بھال سب خود کرنا پڑتا ہے۔ تم رہوگے تو تھوڑی بہت مجھے بھی مدد ملے گی۔چلو آجاؤ۔ آج ہی سے بسم للہ کر دو۔‘‘

’’بہت بہت شکریہ چاچاجی۔میں ابھی ماں کو بتا کر آتا ہوں۔‘‘

لقمان بھاگ کر گیا اور اپنی ماں سے اجازت لے کر دوکان پر آگیا۔کام شروع کیااوربڑی محنت اور لگن سے کام کیا۔ دوکاندار اس کے کام سے بہت خوش تھا۔جو پیسے ملے اس سے وہیں سے سامان لیا اور گھر آیا۔ماں نے کھانابنایا اور تینوں نےمل کر پورے دن کے بعد پیٹ بھر کھانا کھایا اور رب کا شکر ادا کیا۔

 لقمان کا اب یہ روز کا معمول بن گیا۔اسکول جاتا۔ اسکول سے آکر دکان میں کام کرنے آجاتا۔ کبھی گھر گھر سامان پہنچا آتا۔اسکول کی کبھی چھٹی ہوتی تو جہاں گھر بنتے وہاں اینٹ پتھر اٹھانے کا بھی کام کرتا۔کسی کام میں وہ کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔کئی لوگوں کی باتیں سنیں،   گالیاں ملیں، نہ جانے لوگوں نے کیسے کیسے القاب سے نوازا پر وہ ہر روز ایک نئی امنگ کے ساتھ اپنے کام میں لگ جاتا۔بہت اتار چڑھاؤ آئے مگر لقمان کبھی مایوس نہیں ہوا۔ بس تھوڑا تھک جاتا اور یہی تھکن اسے اذیت دیتی اور وہ بکھرنے لگتا مگر ہمت نہیں ہاری بڑی لگن اور محنت سے اپنی پڑھائی بھی کرتا رہا اور اپنے بھائی کی پڑھائی میں بھی مدد کرتا۔ریان پڑھائی میں تھوڑا کمزور تھا۔ لقمان نے اچھے نمبروں سے دسویں میں کامیابی حاصل کی تو آگے کالج میں بھی داخلہ مل گیا۔ذہین اور ہر جماعت میں اول آنے سے اس کو اسکالر شپ بھی ملتی رہی۔ سبھی اساتذہ کا ہر دل عزیز تھا کیونکہ وہ اپنے اساتذہ کی بہت عزت و احترام کرتا۔ وہ آگے پڑھتا رہا۔استاد بھی اس کی مدد کرتے رہے۔ پڑھائی کے ساتھ لقمان نے گھرکی ساری ذمےداریاں  بھی خود اٹھالیں۔ ماں کو کام کرنے سے منع کردیا۔ اپنے گھر کی ذمےداری کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی مکمل کر لی۔ اپنے بچپن کو محنت مشقت اور پتھریلی راہوں پر گنوا کر وہ بہت ہی حساس بن گیا تھا۔ہر کسی کے دل میں اس کے لیے عزت اور وقارتھا۔

آج اس کی محنت رنگ لائی اور ماں کی دعاؤں سے وہ ایک آفیسر بن گیا۔ سارے محلے والے اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔جو رشتے دار مفلسی کی وجہ دیکھتے بھی نہ تھے وہی سب اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دے رہےتھے۔لقمان نے اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر کو بھی ازسرنو تعمیر کیا۔بھائی کو بھی قابل بنایا۔ماں کی دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کی کمائی میں بہت برکت دی تھی۔رب العزت نے اس کی محنت کا پھل دیا۔ اپنی لگن اور کوششوں سے سب کچھ حاصل کیا۔ لقمان کی سوچ وسیع تھی۔ مشکل حالات انسان کی ترقی کا زینہ بن سکتے ہیں بشرط انسان مشکل حالات میں ہمت نہ ہارے بلکہ اپنے اندر ایک نیا عزم پیدا کرے۔زندگی کو بس صحیح آغاز کی ضرورت ہوتی ہے۔کسی بھی کام کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔کامیابی کا زینہ چڑھنے کے لئے آغاز سب سے پہلی سیڑھی ہے۔اللہ تعالیٰ پر تو کل کے ساتھ ایک بار قدم اٹھانا اور آگے بڑھنا شروع ہو جائے تو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

  جب لقمان نے گیلری سے اس بچے کو دیکھا تو اسے اپنا گزرا وقت یاد آگیا۔ فوراً جاکر اس بچے اور اس کی ماں سے ملاقات کی۔ اس کی پڑھائی کا، اس کی ماں اور اس کا خرچ اپنے ذمے لیا۔جب بھی وہ کسی بچے کو محنت مزدوری کرتے دیکھتا اسے اپنا بچپن اور غریبی یاد آتےاور ایسے بچوں کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوجاتا تاکہ کوئی بچہ اپنی غربت کی وجہ سے اپنے بچپن اور تعلیم حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جائے۔

میرا طریق امیری نھیں غریبی ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

(علامہ اقبال)

تبصرے بند ہیں۔