نئی انتہا

مبصر: خان یاسر

مصنف: راشد شاز

ناشر: ملی پبلی کیشنز
صفحات:  ۲۴۰

قیمت: ۳۰۰؍ روپے

کودرا ’حقیقی مشاہدات پر مبنی‘ ایک سفرنامہ ہے۔البتہ ’’طوالت سے بچنے کے لئے‘‘ بعض کردار بعض کرداروں میں ضم کردیے گئے ہیں۔ ’’حقیقی شخصیات کی اصل شناخت کی پردہ داری‘‘ بھی کی گئی ہے۔(ص ۶) یقینی طور پر پلاٹ سے لے کر کردار اور ان کے باہم تبادلہ خیالات میں بہت کچھ تیسیر(simplification) اور توضیح و تشریح بھی ہوئی ہو گی۔ یوں فکشن و نان فکشن کے درمیان کسی نامعلوم جگہ پر واقع یہ سفرنامہ اپنے اپروچ کے اعتبار سے پوسٹ ماڈرن ہے۔ اس ’پوسٹ ماڈرنزم‘ کے بہت سے فائدے ہیں۔ سب سے بڑا یہ کہ صحیح یا غلط دل کھول کے ساری بات لکھی جاسکتی ہے لیکن جب کسی خاص واقعے، ڈائیلاگ، یا رائے کے بارے میں انگلی رکھ کر پوچھا جائے تو اطمینان سے ہاتھ جھاڑے جاسکتے ہیں کہ ’’میاں ! مفتی اور ملّاکی طرح بال کی کھال نہ نکالو، یہ تو خیالات کی ترسیل کا ادبی انداز ہے۔اسے اتنا literary لینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ یا سیدھے سیدھے اس طرح کہ ’’آ پ نے غور سے نہیں پڑھا، یہ میری نہیں بلکہ فلاں کردار کی رائے ہے۔‘‘ اس طرح نہ فرضی خیالات اور کرداروں کے اک دوسرے میں انضمام سے ’’حقیقت پر مبنی‘‘ ہونے میں کوئی حرف آتا ہے اور نہ ہی افشائے حقیقت سے کسی کی دل آزاری ہوپاتی ہے! یوں اس قسم کی تحریر کے مصنف کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہوتا ہے۔

اس تمہید کا مقصد یہ نہیں کہ اس قسم کی تحریریں نہیں لکھی جانی چاہئیں۔ پروپیگنڈا لٹریچر میں اس قسم کی تحریروں کا مقام انتہائی اعلیٰ ہے۔ لیکن کوئی نئی علمی بات کہنے کے لئے یہ اسلوب اختیار کرنا، اس بات کی علمی دھار کو کند کردیتا ہے۔ علمی ذوق رکھنے والے قارئین، اگر نیک گمان رکھنے والے ہوئے تو ان، کو قدم قدم پر لکھنے والے کی سنجیدگی پر از سر نو ایمان لانا پڑتا ہے۔ عموماً اس طرح کی تحریریں تب لکھی جاتی ہیں جب لکھنے والے کو اپنی بات پر اتنا شرح صدر نہ ہو جتنا کہ علمی طور پر اسے پیش کرنے کے لئے درکار ہے یا پھر اسے کسی قسم کے سنسر اور مخالفت کا اندیشہ ہو۔ ہمارے علم کی حد تک یہ ناپختگی، علمی احساس کمتری یا خوف لومۃ لائم مصنف کے شایان شان نہیں ہے۔

سیکولرزم کے اس زمانے میں جو دوسرا مسئلہ ’کودرا‘ کو لاحق ہے وہ یہ کہ صاحب کتاب نے خواہ مخواہ غیرجانبدار بننے کی کوشش کی ہے۔ ایک علمی تحریر میں یہ بات ممکن ہے کہ مصنف دو فریقوں کے درمیان محاکمہ کرے۔ بحیثیت فریق دونوں مساوی ہیں، یہ بھی ٹھیک ہے۔ یہ بات بھی خدا لگتی ہے کہ شواہد کی بنیاد پر وہ کسی معاملے میں فریق الف کے ساتھ ہواور کسی معاملے میں فریق ب کے۔ لیکن تحقیق اور فیصلے کے بعد دونوں فریق مساوی نہیں رہ جائیں گے۔ کوئی صحیح اور کوئی غلط ہوگا۔ یا کوئی زیادہ صحیح اور کم غلط اور کوئی زیادہ غلط اور کم صحیح ہوگا۔ ’ان میں سے کون حق پر اور کون باطل پر یا زیادہ علمی انداز میں کون کتنے حق پر اور کتنے باطل پر ہے؟‘ اس سوال کو طرح دے جانا علمی خیانت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنف کی یہ وضاحت شاید ضروری تھی کہ ’’اس بیانیہ کا راوی نہ تو سنی موقف کا ترجمان ہے اور نہ ہی شیعہ نقطہ نظر کا وکیل۔‘‘ (ص۶)لیکن یہ کہنا غلط تھا کہ اس وجہ سے وہ اصحاب نبیؐ کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ یا علیہ السلام کی علامتوں کے استعمال سے احتراز کریں گے۔ اس بات میں صداقت کا شائبہ موجود ہے کہ ان علامتوں کے استعمال سے لوگ فرد کے فرقہ وارانہ نقطہ نظر کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کا علاج ان علامتوں سے احتراز کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ’’فرار‘‘ کا ٹھیٹھ وہی اپروچ ہے جو آج کل بہت سے ماڈرن دانشوروں کے علمی کارناموں کا طرہ امتیاز ہے۔ انہیں یہ مسئلہ نظر آتا ہے کہ احادیث کے ذخیرے میں ایسی احادیث بھی در آئی ہیں جو صحیح نہیں ؛ تو وہ اس کا یہ نادر حل ڈھونڈ لاتے ہیں کہ احادیث کی تشریعی حیثیت کا انکار کردیا جائے۔انہیں یہ مسئلہ نظر آتا ہے کہ تاریخ میں بہت سی ایسی باتیں درج ہوگئی ہیں جو صحیح نہیں ؛ تو وہ اس کے لئے تاریخ کے دفتر کو (صرف محاورتاً نہیں حقیقتاً بھی) دریابرد کردینے کا نسخۂ کیمیا تجویز کرتے ہیں۔ چنانچہ کتاب ہذا میں مختلف مواقع پر تمام فرقوں او ر ان کے تمام طرح کے اختلافات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نصیری، بہائی، دروز(ص ۱۶۲، ۱۶۳) بلکہ قادیانی (ص ۲۲۸) جیسے فرق و ملل حنفی اور حنبلی جیسے طائفے کہلاتے ہیں اور ان پر علماء کی گرفت محض ’’انسانی محاکمے‘‘ قرار پاتی ہے جن کی ’’حیثیت آراء الرجال سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ ‘‘ (ص ۱۶۲)زور اس بات پر صرف ہوا ہے کہ ’’اہل قبلہ کے تمام ہی طائفے کسی نہ کسی درجہ میں خطاکار ہیں۔ ‘‘(ص ۱۶۳) اور ’’یہ صورتحال کہیں کم اور کہیں زیادہ ہر فرقے کے یہاں ہے۔ ‘‘(ص ۱۶۸)’’شیعہ، سنی دونوں ہی روایتوں ‘‘ اور ’’تراشیدہ تاریخی واقعات‘‘ کے اسیر ہیں۔ (ص ۱۹۳اور ۲۳۹)یہ Balancing Act کوئی علمی کارنامہ نہیں بلکہ علمی التباس اور خیانت ہے۔ اصل علمی کام یہ ہے کہ ’کسی نہ کسی درجہ‘ اور ’کم اور زیادہ‘ کی وضاحت ہو۔ صرف ضال و مضل فرقوں کے لئے نہیں، مصنف کا فیض عام ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ’’سقراط سے لے کر مارکس تک اور زرتشت سے لے کر گاندھی تک اصلاح احوال کے لئے جو لوگ بھی وقتاً فوقتاً اٹھتے رہے ہیں ‘‘ ان سب کو خدائی مدد حاصل تھی، کیونکہ ’’ اگر ان کی توفیق فکر و عمل خدا کی نصرت و حمایت سے مملو نہ ہوتی تو اصلاح احوال کی یہ تمام کوششیں بارآور ہونے سے پہلے ہی دم توڑدیتیں۔ ‘‘ (ص۹۲)
تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس پورے سفرنامے کو پڑھ ڈالنے پر بھی قاری کو صراحتاً یہ پتہ نہیں چلتا کہ سفر کب کیا گیا؟ کہاں کیا گیا؟ سفر کا مقصد کیا تھا؟ نشستیں کس نے اور کیوں بلائی تھیں ؟ شرکاء کون کون تھے اور کیوں تھے؟ جس مقصد کے لئے سفر کیا گیا اس کا کیا بنا؟ الغرض کوئی بات بھی verifiable نہیں ہے۔ یہ پردہ داری حیرت انگیز ہے۔ یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ اس سفرنامے کا مرکزی کردار علی کودرا ہیں یا خود راشد شاز؟ کتاب کے نام کے حوالے سے اگر یہ سمجھاجائے کہ کودرا ہی مرکزی کردار ہیں یا کودرا بھی مرکزی کردار ہیں تو کیا مصنف کودرا کی باتوں سے متفق ہیں ؟نہیں تو کس حد تک نہیں ؟

علی کودرا بیک وقت شیعہ اور سنی دونوں ہیں۔ انہوں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ اور حوضۂ علمیہ قم سے تعلیم حاصل کی ہے۔غالباً اسی لئے ان کا زخم ’’ایک شخص کا ذاتی سانحہ نہیں بلکہ ایک پوری امت کی محرومی کا علامیہ ہے جس نے صدیوں سے دو مختلف نظری قطب پر جینا گوارا کر رکھا ہے۔‘‘ (ص۷۴) کودرا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سوچنے سمجھنے والے انسان ہیں۔ ’’انتہائی بیدار مغز اور دل پرسوز کے حامل‘‘بھی! آپ عرفان ذات کے لیے سگریٹ پیتے ہیں۔ حق کی تلاش میں ایک چوکھٹے کو خیرآباد کہتے ہیں لیکن دوسرے چوکھٹے میں پوری طرح فٹ بھی نہیں بیٹھتے۔ ان چوکھٹوں کی وجہ سے اب کودرا کو لگتا ہے کہ عالمی بحران میں عالم اسلام کوئی رول ادا نہیں کرسکتا۔(ص ۹)’’ہماری ملی شخصیت‘‘ اب ’’دیمک زدہ‘‘ ہوگئی ہے ؛ ایک ’’غیر روایتی طریقۂ علاج‘‘ کے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں۔ لیکن ملت اس علاج کے لئے ’’عقلی، علمی اور نفسیاتی طور پر‘‘ تیار نہیں ہے۔ (ص ۱۰)اس دیمک کی وضاحت ہی کتاب کا مرکزی موضوع ہے اور خصوصاً علی کودرا نے شرح و بسط سے یہ کام کیا ہے۔ ان کے مطابق:

تاریخ ’’ایک خطرناک اسلحہ‘‘ ہے جو ’’انسانی دل و دماغ کو ماؤف‘‘ کردیتا ہے۔(ص ۱۰۱۔ ۱۰۰) روایات حرف آخر نہیں ہیں۔ (ص ۴۰) ’’روایت کی کتابوں میں رطب و یابس کی بھرمار ہے۔‘‘(ص ۴۳) ’’معتدل اور خداترس علماء خواہ وہ سنی وہابیوں میں ہوں یا اثنا عشری شیعوں میں، وہ ریاض یا مدینہ میں رہتے ہوں یا قم اور تہران میں، ان کا تمام خلوص، ان کی للہیت اور مل بیٹھنے کی تمام کوششیٍں اس لیے کامیاب نہیں ہوسکتیں کہ ان دونوں فرقوں کی کتابوں میں ایسی متحارب روایتیں اور ایسے اشتعال انگیز بیانات لکھ دئیے گئے ہیں جو رہتی دنیا تک باہمی مناقشے اور خانہ جنگی کو غذا فراہم کرتے رہیں گے۔‘‘(ص۴۲) ’’صدیوں سے ہم مسموم تاریخ، گمراہ کن سیاسی پروپیگنڈہ، محیرالعقول روایتوں اور شان نزول کے متحارب بیانات میں کچھ اس طرح گرفتار ہیں کہ اس شیطانی گرداب محوری پر اب حقائق اور عقائد کا گمان ہونے لگا ہے۔ تاریخ کے یہ متنازع اور مسموم بیانات عقائد کی کتابوں میں مدون ہوگئے ہیں۔ اب کوئی فرقہ ان تناظرات سے ماوراء وحی ربانی کی تفہیم کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہر فرقے نے اپنے منحرف گروہی اسلام کے استحکام اور اس کی نشر واشاعت کے لئے باقاعدہ تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں جنہیں وہ اسلام کے قلعوں سے تعبیر کرتا ہے اور ان تمام قلعوں کے ساکنین ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے اپنی فکری اور عملی صلاحیتوں کو مسلسل صیقل کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘ (ص ۵۰)مدارس ’’گروہی اور مسلکی منافرت کی تربیت گاہیں ہیں۔ ‘‘بلکہ ’’دینی مدارس کا قیام ہی اس وقت عمل میں آیا جب حکمرانوں کو اپنی ڈھب کا اسلام تیار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔‘‘(ص ۵۰)’’فتنہ کے ایام میں ان تراشیدہ روایتوں کی اس قدر کثرت ہوئی کہ ایک ایک محدث کو کئی کئی لاکھ روایتوں کو مسترد کرنا پڑا۔ جب ان لاکھوں روایتوں کے استرداد سے اسلام میں کوئی نقص واقع نہیں ہوا تو بچی کھچی روایتوں کو بھی اگر تقدیسی مقام سے ساقط کردیا جائے اور ہم ایک بار پھر قدماء کے فہم تاویل وتاریخ پر قرآن کے روشن بیانات کو حکم بناسکیں تو ہمارے لئے قصے کہانیوں کی مصنوعی فضا سے نکل کر وحی کی روشنی میں چلنا آسان ہوجائے گا۔‘‘ (ص ۱۹۴)

تاریخ کے اس بے رحم دلدل سے کودرا تو پریشان ہیں ہی، خود صاحب کتاب فرماتے ہیں:

وحی ربانی کے گرد ’’آثار و روایات، فقہ و تاویلات کی ایک ناقابل عبور فصیل‘‘ چن دی گئی ہے۔(ص ۶۳)تاریخ کے سراب سے نکلنے کی سبیل ’’اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ تاریخ سے کہیں زیادہ مستند اور معتبر ماخذ‘‘ سے استفادہ کیا جائے، ’’وہ ماخذ جہاں متحارب بیانات نہ پائے جاتے ہوں اور جس کی صداقت پر تمام فرقوں کا اتفاق ہو۔‘‘(ص ۶۸) ’’ہم نے تاریخ کو وحی پر قاضی بنا رکھا ہے۔ مفسرین کی اصطلاح میں اس طریقۂ تاویل کو تفسیر بالماثور کہتے ہیں۔ ‘‘(ص ۶۹)’’ہم مسلمانوں کے ہاں شیعیوں اور سنیوں کی باہمی تفرقہ بازیاں بھی تاریخ کے سہارے ہی زندہ ہیں … وہ تاریخ جسے اب تحلیل و تجزیہ سے ماورا سمجھا جاتا ہے۔ صدر اول کے مسلمانوں کی باہمی رقابتوں بلکہ منافرت اور جدال و قتال کی تمام بنیادی روایتیں جن میں حضرت عمر کو حضرت فاطمہ اور علی کے دشمن کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور جن کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویا رسول اللہ کی آنکھ بند ہوتے ہی آپؐ کے قریب ترین اصحاب رحماء بینھم کی صفت سے خالی ہوگئے تھے اور جس کے سبب آج تک مسلمان اپنے آپ کو ابوبکر و علی کے کیمپ میں بٹا ہوا پاتے ہیں۔ یہ سارے تراشیدہ افسانے اور متحارب تاریخی بیانات بڑی حد تک سیاسی پروپیگنڈوں کی پیداوار ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ گمراہ کن روایتیں مسلمانوں کی تقدیسی تاریخ میں ایک ایسا مقام حاصل کرچکی ہیں کہ اب انہیں تحلیل و تجزیہ کی میز پر لانا خلاف ایمان سمجھا جاتا ہے۔‘‘(ص ۱۰۱)
جب صورتحال ایسی سنگین ہے تو پھر مسئلے کا حل کیا ہو؟ علی کودرا نامی شخصیت سے انسپائر ہوکر راشد شاز صاحب کی

لکھی ہوئی اس کتاب کودرا میں راشد شاز صاحب کے پوچھے گئے اسی طرح کے ایک سوال پر شیخ سلیمان کا جواب ملاحظہ ہو:

’’مسئلہ کا حل تو یہ ہے کہ شیعی و سنی شناخت کوڈی کنسٹرکٹ کیا جائے، وحی اور عقل کی روشنی میں ان فرقوں کے نمود و ارتقاء کا بے لاگ محاکمہ کیا جائے۔‘‘

رد تشکیل (Deconstruction) کا یہ انقلابی کام کیسے کیا جائے؟ قاری کو دربدر بھٹکنا نہیں پڑتا، کودرا میں اس کی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک موقع سے علی کودرا ارشاد فرماتے ہیں، ’’ذرا غور کیجئے ام سلمی کے پاس تو صرف دو بال ہیں اور وہ بھی انہیں بقول راویان، حدیبیہ میں مل پائے، جبکہ وہ زوجۂ رسول ہیں۔ اس کے برعکس ام سلیم بنت ملحن اور ان کے شوہر ابوطلحہ کے پاس آپؐ کے آدھے سر کے بال ہیں جو ان راویوں کے بقول آپؐ نے انہیں حجۃ الوداع میں سر منڈاتے وقت عطا کئے۔‘‘ (ص ۱۱۸) غور طلب ہے کہ خود ہمارے بال ہمارے حجاموں کے پاس زیادہ اور بیوی کے پاس کم ہوتے ہیں (وہ بھی جھڑ رہے ہوں تب!)۔ اس کا مطلب یہ کب سے ہوگیا کہ نعوذ باللہ حجام بیوی سے زیادہ اہم ہیں ؟ یہ روایتیں تبرکات کے معاملے میں امت کے ایک طبقے کی انتہا پسندی کے خلاف ایک اہم ہتھیار ہیں۔ تعجب ہے کہ کودرا ان روایتوں سے تبرکات کی حیثیت متعین کرنے کے بدلے کہ اگر یہ ایسے ہی اہم ہوتے تو ان کے تحفظ کا ویسا انتظام ہوتا جیسا قرآن حدیث کا بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ، یہ معنی اخذ کرنے پر تلے ہیں کہ سرے سے یہ روایتیں ہی غلط ہیں۔ ایک دوسرے موقع سے کودرا صاحب کا ارشاد ہوتا ہے: ’’رسول اللہؐؐ جیسے نفیس ترین انسان کے بارے میں راویوں کا یہ کہنا کہ جب کسی انسان کو تکلیف ہوتی یا کوئی زخم ہوتا تو وہ اپنا لعاب دہن مٹی کے ساتھ ملا کر لگاتے‘‘ اور دعا پڑھتے ’’دراصل اس عقلی رویے کی نفی ہے جو اسلام اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔‘‘ (ص۱۲۳) ایک نبی اور رسول کے معجزوں کو اگر رہنے بھی دیں تو بھی جو بات کہی گئی اس سے عقلی رویے کا انکار کیسے ثابت ہوتا ہے؟ کاش کودرا صاحب سائنس بھی پڑھے ہوتے تو جانتے کہ لعاب دہن ایک قدرتی اینٹی سپٹک ہے۔

کودرا خود اپنی ہی بات پر غور سے کان دھرلیں تو اپنی اور اپنے ہم سفر ساتھیوں کی بہت سی فکری غلطیوں کی اصلاح کردیں گے، فرماتے ہیں: ’’دل و دماغ پر جب اساطیر کی دھند گہری ہوجائے تو ہر طرف وہی کچھ نظر آتا ہے جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں، وہی کچھ سنائی دیتا ہے جس کے لئے آپ کے کان آمادہ ہوں۔ ‘‘(ص ۱۰۸) شاید پرانے علمی ذخیرے کے خلاف اسی اندھے اور عریاں تعصب کی مثال ہے کہ کتاب میں ایک سے زائد مرتبہ ایک سے زائد کردار بغداد کے کتب خانوں کی تباہی اور دجلہ میں کتابوں کے ڈبوئے جانے کو بھی صحیح ٹھہراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ (ص۱۳۸، ۲۰۳)

کتاب میں اصطلاحات کا ایک طومار ہے کہ تھمنے ہی میں نہیں آتا۔ ’’قیل و قال کے یہ دفتر‘‘، ’’مکذوبہ روایتیں ‘‘، ’’ابدی بے توفیقی‘‘، ’’تاریخ کے قیدی‘‘، ’’فکری خانہ جنگی‘‘، ’’ نظری تشتت‘‘، ’’تراشیدہ عبادتیں ‘‘ وغیرہ ان میں سے چند ایک نمونے ہیں وگرنہ پوری کتاب انہی سے مملو ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ اس آخری اصطلاح میں تراویح کی نماز بھی شامل ہے۔

امت کی بدحالی اور بے وزنی سے مصنف پریشان ہیں اور ایک ’’نئی ابتدا‘‘ (ص ۳۰) کے خواہاں ہیں۔ کہتے ہیں، ’’کیا واقعی رہتی دنیا تک یہ ممکن نہیں کہ سنی اپنی سنیت اور شیعہ اپنی شیعیت کو خیرآباد کہہ دیں ؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ تیسری صدی سے پہلے والا متفقہ اور مشترکہ اسلام ایک بار پھر ہماری ملی وحدت کا اعلامیہ بن جائے؟‘‘(ص ۵۴) ایسا ہونے کے لئے جو شاہ کلید چاہئے، خوش قسمتی سے وہ بھی ان کے علم میں ہے۔ ان کے خیال میں قرآن مجید کو تاریخ پر محاکمے کا اختیار دینے سے صورتحال یکسر بدل جائے گی۔ مثلاً مدون تاریخ میں مذکور مسئلہ خلافت پر پیدا ہونے والے اختلافی بیانات کی بابت کہتے ہیں کہ ’’ابوبکر کی تنصیب خلافت کے مسئلہ پر علی کے دل میں تنگی کا پیدا ہونا یا فاطمہ کا فدک کے مسئلہ پر ابوبکر سے تاحیات بول چال بند کردینا یا عمر کا فاطمہ کا گھر جلانے کے لئے آنا اور کبار صحابہ کے مابین اس قسم کے دسیوں تراشیدہ افسانے ہرگز لائق اعتبار نہیں کہ بقول قرآن: محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار و رحماء بینھم۔‘‘(ص ۷۰)بات بالکل دل کو چھو جاتی ہے۔ صدیوں پرانے جھگڑے کو کیا چٹکیوں میں نپٹایا ہے۔ لیکن کیا اس طرح مصنف مدون تاریخ میں مذکورہ جنگ جمل و جنگ صفین کا انکار کردیں گے؟ آخر اس جنگ میں صحابہ قرآن کے بقول رحماء بینھم کیوں نہ تھے؟ اور اگر اس کی کوئی تاویل ممکن ہے تو تنصیب خلافت کے وقت بھی جو مسائل پیدا ہوئے ان کی تاویل کیوں ممکن نہیں ؟ وہ مسائل کیا تھے؛ ان کی کیفیت و کمیت پر بحث و مباحثہ تاریخ دانوں کا کام ہے لیکن ان کا سرے سے انکار سادہ لوحی ہے۔ امت کے اقبال کی یہ جو شاہ کلید ہے کہ وحی الٰہی متبعین محمدؐ کے لئے ’’واحد حوالہ‘‘ بن جائے (ص۲۳۹) اور ’’جو چیز عقل اور وحی کے قرین ہو اسے قبول کرلیں اور جو چیز اس کے خلاف ہواسے یکسر مسترد کردیں۔ ‘‘(ص ۲۰۴)اس میں ہمیں صرف’واحد‘ اور ’عقل اور وحی‘ کی ترتیب سے اختلاف ہے۔ یہ ترتیب کوئی اتفاقی نہیں بلکہ کتاب میں جابجا موجود ہے (مثلاً ص۱۸۷، ۲۲۷ وغیرہ)اور ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’کودرا‘‘ بیک وقت ناول، سفرنامہ، وعظ، نرالی تحقیقات، اور اکیڈمک مونولاگس کا ایک ملغوبہ ہے۔ کردار نگاری کے لحاظ سے یہ ناول نما سفرنامہ کافی کمزور ہے۔ علی کودرا، حسن فولادی، المینہ، عبدالوہاب آفندی، سلیمان نصیری وغیرھم اپنی الگ الگ شناخت چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہیں۔ ہر ایک مصنف کی زبان بولتا ہے اور اکثر و بیشتر انہی کے شاذ خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ایسا ادراک ہوتا ہے کہ ہر کردار ’ادراک زوال امت‘ کا مطالعہ کرکے آیا ہے۔ گفتگو لمبی لمبی تقریروں کی شکل میں ہے۔ کئی بار پڑھتے پڑھتے یہ یاد رکھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ بول کون رہا ہے اور بور کون ہورہا ہے۔ تقریری سلسلوں کے درمیان کہیں کہیں کسی کردار سے اختلاف کراکے ایسا جتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تقریر نہیں ہورہی ہے، مکالمہ چل رہا ہے۔ لیکن صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ کوشش آدھے من سے ہوئی ہے۔ مثلاً قادیانیوں کے کفر پر مصنف شیخ سلیمان کو یہ ’دلیل‘دیتے ہیں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اکثریت سے ان کے کفر پر صاد کیا ہے۔ اس دلیل کی بخیہ ادھیڑنے میں شیخ سلیمان کو ذرا وقت نہیں لگتا اور مصنف جیسا صاحب علم قائل ہوکر گفتگو آگے بڑھادیتاہے۔ شق قمر کے واقعے کی مصنف ایک نرالی تفسیر فرماتے ہیں اور کودرا جیسا ذہین و فطین آدمی بغیر کسی جرح کے اس موقف کو تسلیم کرلیتا ہے۔(ص۹۶، ۹۷)اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعہ پیداشدہ امکانات کی دنیا پر شیخ سلیمان کی ساڑھے چھ سطری تقریرسن کر کودرا اپنی زندگی بھر کی مایوسی سے تائب ہوجاتے ہیں۔ (ص۲۳۱)

مختصراً یہ کہ سفرنامے کے مطالعہ کے بعد معزز جناب علی کودرا صاحب کی یہ بات برحق معلوم ہوتی ہے کہ: ’’جب خود یہ بات سمجھ میں نہ آتی ہو کہ جانا کدھر ہے تو مضامین اور کتابیں لکھنا قارئین کو گمراہ کرنا ہے۔‘‘(ص ۲۲)

تبصرے بند ہیں۔