نئی معلومات

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

قارئین کرام!

آج آپ کوکچھ نئی معلومات فراہم کرنے کاارادہ رکھتاہوں اورچیلنچ کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ سائنس وٹکنالوجی کی ترقی کے باوجود آج تک ان نئی معلومات کاسراغ نہیں لگایاجاسکا، یہ اوربات ہے کہ دن کاایک تہائی حصہ ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اوراخبارات کے سمندرمیں غواصی کرکے ’’لبِ لعلیں ‘‘ اورجعد ِمشکیں ‘‘ جیسے گوہرنایاب کی تلاش وجستجومیں خرچ کیاجاتاہے۔

آپ نے چاول کی بہت ساری قسمیں سنی ہوں گی؛ بل کہ ’’جشنِ مرگ‘‘یعنی شادی کی دعوتوں میں کھائی بھی ہوں گی، دال کی بھی کئی قسموں کے نام سنے ہوں گے اورایک قسم کی ضرب المثل بھی سنی ہوگی’’ میاں ! یہ منھ اورمسورکی دال‘‘، (کہیں آپ کے منھ میں بھی پانی نہ آگیاہو)، آج کی تازہ معلومات ہیں کہ ’’نقاب‘‘ کی بھی بہت ساری قسمیں وجودمیں آگئی ہیں ، اُن میں سے کچھ پرمعذرت کے ساتھ روشنی ڈالنے کی جسارت کررہاہوں۔

ہیجانی نقاب:

یہ ایسا نقاب ہے، جس کودیکھ کرہی بعض خزاں رسیدہ چمڑی والے بھی ’’لمسِ بہار‘‘کامزہ لوٹنے لگتے ہیں، بے حس سے بے حس انسان بھی اس طرح اُچھل پڑتاہے، جیسے ٹینس کی گیند، (براہِ کرم ٹینس اسٹارکوابھی اپنے ذہن میں جگہ نہ دیں)، اِس نقاب میں آگے سے لے کرپیچھے تک خوب صورت اورقسم قسم کے حسین نگ جڑے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ چست اورتنگ بھی ہوتاہے، الٹرامارڈن بننے کی خواہش مند دوشیزائیں اسے زیب تن کرتی ہیں۔

ہوائی نقاب:

نقاب توایساہی ہوتاہے، جیسانقاب ہوتاہے، بس اس میں دوپلوزائدہوتے ہیں ، جنھیں آوارہ ہوائیں آوارگی کے راستہ پرڈال دیتی ہیں، دونوں پلوآپس میں اٹکھیلیاں کرتے ہوئے ہرراہ گزرکے سینہ پربجلیاں گراتے ہوئے بہ اندازِ خرام آگے بڑھتے رہتے ہیں اوراپنے پیچھے کئی کوفالج زدہ کرجاتے ہیں۔

جغرافیائی نقاب:

یہ ایسا نقاب ہوتاہے، جس کے پہننے سے ایک ہی جھلک میں جسم کاپوراجغرافیہ معلوم ہوجاتاہے، نشیب وفراز،  اونچ نیچ اورسانچہ وساخت بہ یک چشم نظرآجاتاہے، اس نقاب کے ذریعہ ہمالیہ کی چوٹی کی اونچائی اورسیناکی وادی کی گہرائی آسانی کے ساتھ ناپی جاسکتی ہے، اگرصاحب نقاب کے پیچھے کبھی چلنے کااتفاق ہوجائے توہیئت کذائی سے محظوظ ہوئے بغیرنہ رہ سکیں گے۔

جگرپاش نقاب:اس نقاب میں کچھ اس قسم کی کامدانی زری ہوتی ہے کہ صاحبِ جگرلوگوں کے جگرپاش پاش ہوجاتے ہیں ، اورراستہ ہی میں سینہ پرہاتھ رکھ کربیٹھ جاتے ہیں۔

آوردہ نقاب:

یہ نقاب ایسی ’’اقابلائیں ‘‘استعمال کرتی ہیں ، جنھیں کالج میں پڑھنے کے لئے جاناہوتاہے، چوں کہ ان کاتعلق مسلمان گھرانے سے ہوتاہے اوربدقسمتی یہ ہے کہ ماں دادی نقاب پہنتی چلی آرہی ہوتی ہیں ؛ اس لئے زبردستی انھیں بھی پہنناپڑتاہے، کالج کے دروازہ پرقدم رکھتے ہیں جھٹ سے نقاب وینٹی بیگ میں ڈال لیتی ہیں کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے؛ بل کہ ایسے وقت میں ماں اوردادی کوہزارسلواتیں بھی سناڈالتی ہیں۔

پیکانی نقاب:

نقاب کی یہ قسم بسوں میں دیکھنے کوملتی ہے، جہاں قتالہائے عالم اپنی پیکانی نگاہوں سے ہم جیسے کمزوردل والوں پروارکرکے ڈھیرکرتی رہتی ہیں۔

کوبرانقاب:

اس نقاب کی بناوٹ میں کچھ اس قسم کی کاری گری کی جاتی ہے کہ نقاب پہننے والی ناگن کاروپ دھارلیتی ہے، اورظاہرہے کہ جہاں ناگن ہوگی، وہاں ناگ اپناپھن کیوں نہ پھیلائے گا؟

روغنی نقاب:

یہ نقاب وہ خواتین استعمال کرتی ہیں ، جنھیں کبھی اتفاق سے مہینوں نقاب دھونے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی، اُن کے پاس بیٹھنے سے ایسی بھبھک آتی ہے کہ بے ساختہ قے ہوجائے۔

روندگشتی نقاب:

یہ نقاب آوارہ فطرت خواتین خاص طورپررات میں استعمال کرتی ہیں، ریڈلائن(Red Line)علاقوں (جیسے: نیکلس روڈ، لال باغ)میں ایسے بہت سارے نقاب دیکھنے کومل جائیں گے۔

سنجوگی نقاب:

یہ نقاب ایسی شیریں زیب تن کرتی ہے، جس کا فرہادکسی پارک میں بیٹھاانتظارکررہاہوتاہے؛ چوں کہ کوہ کنی کرکے شیریں سے ملاقات کرنے والے فرہاد اب نہیں ؛ اس لئے بے چاری شیریں ہی کواپنے فرہادسے ملنے کے لئے چپکے سے، چھپ چھپا کرجانا پڑتاہے؛ اس لئے وہ اس نقاب کواستعمال کرتی ہیں کہ’’ کہیں کوئی دیکھتانہ ہو‘‘۔

آنریبل نقاب:

یہ خواتین کاشریفانہ نقاب ہے، لمبائی اورچوڑائی ایسی ہوتی ہے کہ مکمل طورپرحجاب کاکام کرتاہے، ڈھیلاڈھالا ایسا کہ کہیں سے بھی جسم کی ساخت کاسراغ نہیں لگایاجاسکتا، یہی نقاب دراصل نقاب کہلانے کے لائق ہے، ورنہ مذکورہ بالانقاب کی جتنی بھی قسمیں ہیں ، تقریباًسب سے سفلی جذبات بھڑک کرعلیاکی منڈیرتک جاپہنچتے ہیں، پھرکہیں اغوااورکہیں عصمت دری وغیرہ کے کیسز وجودپذیرہوتے ہیں، خواتین سے ادباً گزارش ہے کہ اختیارہی کرناہے توکیوں نہ انتخاب’’عمدہ‘‘ کا کریں؟

تبصرے بند ہیں۔