شہر غوطہ کے چند مناظر

عامر سہیل نور اللہ

میرا شہر دمشق کے نواح میں غوطہ کے نام سے بسا ہوا ہے، زمین کی  زرخیزی اور سر سبزی و شادابی اسے اتنا خوبصورت بناتی ہے کہ غوطہ جنت نما معلوم ہوتا ہے، شہر کے چاروں اور ہرے بھرے باغات ہیں اور ان کے پیچھے دراز قد پہاڑ سنتریوں کی مانند کھڑے پہرہ دے رہے ہیں اور مسلسل اپنی آغوش سے پانی انڈیلتے رہتے ہیں اسی وجہ سے پیڑ پودھے اور چرند و پرند ہمیشہ سیراب ملتے ہیں اور رعنائی و دلکشی کا مظہر بنے رہتے ہیں، لوگوں کو جنگلات سے خوف محسوس ہوتا ہے جب کہ ہم انھیں سب سے بڑی نعمت مانتے ہیں کیونکہ ہمارے جنگلات نوع بنوع پھول اور پھل سے بھرے پڑے ہیں، ایسے خوشبو دار درخت کہ ان کے نیچے سے گزر جائے تو انسان کا روم روم معطر ہوجاتا ہے اور خاصی دیر تک تازگی و فرحت کا احساس باقی رہتا ہے، دنیا کا وہ کون سا پھل اور میوہ ہے جو ہمارے یہاں نہیں پایا جاتا ہے، قدرت نے ہمارے اوپر خاصی مہربانی کی ہے اور ہمارا بسیرا ایسی جگہ بنایا ہے جسے لوگوں نے عجوبہ تک کہا ہے.

داداجان نے مجھے سحرگاہی کا عادی بنادیا تھا قریب کی مسجد سے نغمہ سحر گونجا کہ کہ میں آنکھ ملتے ہوئے اٹھ بیٹھتا اور کھڑکی کے راستے بھینی بھینی نسیم سحر غنودگی کو اڑا لے جاتی، ادھر ہم تیاری میں مصروف ہوتے کہ خالق کی حمد وثنا بیان کریں اُدھر خوشنما و خوش رنگ پرندے زود رفتار ثابت ہوتے اور نواسنجی کرتے ہوئے رب کا شکر بجا لاتے.

پو پھٹتے ہی ہم گل و گلزار سے ہوتے ہوئے کھیتوں کا رخ کرتے، روحانی تازگی کے بعد اب جسمانی تازگی کا سامان ہوتا، شگفتہ پھول، شیفتہ بھونرے، ادھ کھلی کلیاں اور پھلوں کے بوجھ سے لرزاں درخت خوب روئی کا ایک نیا انداز پیش کرتے، شبنم کی ہلکی پھوار بھی اپنا حصہ ڈالتی اور سب کو موتیوں کے گہنے سے آراستہ کردیتی.

اب مشرق سے جہاں افروز کی سرخ گول ٹکیہ جھانکتی اور دھیرے دھیرے سنہرے دور کا آغاز ہونے لگتا۔

دوسرا منظ

ایک زوردار آواز ہوئی اور نیند کی وادیوں میں زلزلہ برپا ہوگیا، گھر کے سارے لوگ پہلے سے ہی جاگے ہوئے تھے، باہر چیخ و پکار مچی ہوئی تھی اور ہم سب حیران و پریشان ایک دوسرے کا منہ تاک رہے تھے، اچانک داداجان نے زینے کی جانب قدم بڑھائے اور ہم ان کے پیچھے ہولئے، ایک خوفناک منظر ہمارے سامنے تھا،پورا غوطہ شہر آتش زار تھا، کہیں دور سے آگ کے گولے اڑتے ہوئے آتے اور عمارتوں پر گرکر خاکستر کردیتے، ابھی ہم ڈرے سہمے اس منظر کو دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک گولا پڑوس کی مسجد پر گرا اور آن کی آن میں مسجد کی جنوبی دیوار زمیں بوس ہوگئی، داداجان آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مسجد کو دیکھ رہے تھے سسکیوں کی آواز کے ساتھ انھوں نے آسمان کی جانب دیکھا اور کہا الہی یہ کون لوگ ہیں جنھیں تیرے گھر کی بھی پروا نہیں ہے، داداجان کو اس حالت میں دیکھ کر ہماری قوت برداشت جواب دے گئی اور ہم سب رونے لگے، خوف و دہشت کے عالم میں سبھی نیچے اتر آئے.

صبح کا اجالا پھیلنے لگا تھا لیکن یہ اجالا اجالا نہیں بلکہ ہماری تاریکی کا آغاز تھا، روز ہم اذان کی آواز سے اٹھتے تھے لیکن آج اذان کی نوبت ہی نہیں آئی، اقتدار کے نشے میں چور لوگوں نے مؤذن کو ہی خاموش کردیا تھا، اب سب کچھ صاف صاف نظر آنے لگا تھا، ہمارے شہر کا سبزہ سیاہ ہوچکا تھا، روز صبح چہل قدمی کے لئے نکلنے والے آج جان بچانے کے لئے بھاگ دوڑ کررہے تھے، گولوں کی گَڑگَڑاہٹ ختم ہوگئی تھی ہم خام خیال تھے کہ طوفان تھم چکا ہے لیکن یہ وقتی سکون بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوا کچھ ہی دیر میں بوٹوں کی آواز نے ماحول کو ہنگامہ خیز بنادیا تھا ہم نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو فوجیوں کی ایک ٹولی دوڑتی چلی جارہی تھی ان کے پیچھے بھی لاتعداد فوجی تھے، اتنے میں کسی نے ہمارے دروازے پر دستک دی داداجان نے ابھی ہاتھ ہی لگایا تھا کہ تیز آواز کے ساتھ دروازہ ٹوٹا اور داداجان کے سر کو زخمی کر گیا داداجان لڑکھڑا کر گر پڑے اور ان کے آس پاس خون پھیلنے لگا، میں آگے بڑھا کہ داداجان کو دیکھوں کہ ایک فوجی نے پستول کے دستے سے میری پشت پر وار کیا اور میں چکرا کے گر پڑا اتنے میں دو فوجی آگے بڑھے اور بابا کا گریبان پکڑ کر انھیں تیز قدموں سے باہر لے جانے لگے، میں پھر اٹھ کر پانی کی بوتل کو داداجان کے چہرے پر انڈیل دیا انھوں نے آنکھیں کھولیں مجھے سکون محسوس ہوا، اب میں بابا کو لے جانے والے فوجیوں کے تعاقب میں باہر کی جانب بھاگا اور سڑک کے آخری حصے تک دوڑتا چلا گیا لیکن تب تک وہ لوگ بابا جان کو گاڑی میں بیٹھا کر نگاہوں سے روپوش ہوچکے تھے.

سڑک پر ہر طرف خون کی لالی تھی، جابجا کٹے ہوئے جسمانی اعضاء تھے، قدم بہ قدم عورتوں اور بچوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں، ملبوں کے نیچے کٹے ہوئے بازو دبے تھے، بعض کی ہتھیلیاں اس انداز میں آسمان کی جانب اٹھی ہوئی تھیں گویا وہ کسی نجات دہندہ کی آمد کی فریاد کررہی ہوں.

مجھے اپنے پیچھے ایک دھماکہ سنائی دیا میں نے مڑکر دیکھا تو میری دنیا تباہ ہوچکی تھی، سب کچھ ختم ہوگیا تھا، میرا گھر جس میں میرے زخمی داداجان، میری ماما، میری چھوٹی بہن تھی اب کھنڈر بن چکا تھا، میرا ذہن شل ہوگیا،آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا، دوبارہ روشنی ہوئی تو چند گاڑیاں نظر آئیں جن پر سبز پرچم لہرا رہا تھا یہ کسی ملک کی رضاکار ٹیم تھی جو راحت رسانی کا کام کررہی تھی اور مجھے بھی اپنے کیمپ میں اٹھالائی تھی، اب سارا منظر مجھے یاد آگیا تھا دل میں آیا کہ چیخ چیخ کر روؤں لیکن رونے کی قوت چھن گئی تھی، آنکھوں میں آنسوؤں کا پتہ ہی نہیں تھا، اندر ایک طوفان موجزن تھا، میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی لیکن قدم میں جان ہی نہیں باقی تھی، پورا غوطہ شہر خون اور لاش کی کہانی بیان بیان کررہا تھا میرا گھر بھی اسی کہانی کا ایک حصہ تھا۔

آخری منظر

ایک مرتبہ میں داداجان کے ساتھ دمشق گیا، داداجان مجھے *جامع اموی*(خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم سے دمشق میں بنائی گئی مسجد) دکھانے لے گئے تھے مسجد کی بائیں جانب مدرسہ عزیزیہ ہے اسی میں اسلام کا تابناک ماضی  سلطان صلاح الدین ایوبی آرام فرما ہیں.

صلاح الدین ایوبی جس نے دشمنان اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، آج جب کہ میں پانے سے پہلے ہی اپنا سب کچھ گنواچکا تھا، کوئی میرا درد خواہ نہیں تھا، میرا خوبصورت شہر نذر آتش ہو چکا تھا، راستے پر چلتے چلتے میرے پیر خون سے سن گئے تھے مجھے اس عظیم انسان کی بڑی یاد آئی، داداجان کی زبانی اس ناقابل یقین شخصیت کے متعلق بہت کچھ سنا تھا، کاش آج وہ ہوتا تو ان ظالموں کی گھگھی بندھی ہوتی، آج وہ ہوتا تو ان سرکشوں کی سرکشی انھیں کے اوپر انڈیل دیتا، آج وہ ہوتا تو یہ باطل کے پجاری اپنی کرتوت پر ماتم کررہے ہوتے، کاش ایسا ہوتا!!.

آج باطل قوتوں کے حوصلے کیوں اتنے بڑھ گئے کہ وہ امت کے بچوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں؟ ان کے اندر اتنی بے حیائی کہاں سے آتی ہے کہ وہ پردہ نشینوں کی عصمتوں کو پامال کرتے پھر رہے ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں جو بہار کا نام دے کر عرب کو خزاں کا لباس پہنا رہے ہیں؟ کیوں یہ لوگ خوشی کے رنگوں میں شرابور ملک کو خون سے نہلا رہے ہیں؟ حکومت کے لالچی ان باطل پرستوں نے جس بھی ملک پر نظر گڑائی اس کی آبادی کو برباد کرڈالا، بہار کے نام پر ان لوگوں نے خزاں کے بے رحم  زہر آلود تھپیڑوں کو ہم پر مسلط کردیا اور ہرا بھرا شام خون آشام بھیڑیوں کے پنجوں میں آکر لہولہان ہوگیا.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔