نابھا جیل سے فرار دہشت گرد اور میڈیا کا دوہرا رویہ

مہدی حسن عینی قاسمی

    اتوار کی صبح پولیس کی وردی میں آئے 10 مسلح افراد نے نابھا جیل میں حملہ کر خالصتان لبریشن فورس کے دہشت گرد ہرمندر سنگھ منٹو سمیت 5 لوگوں کو بھگا کر لے گئے.
چار دیگر فرار بدمعاشوں کے نام گرپريت سنگھ،وکی گوندرا، نتن دیول اور وكرماجيت سنگھ ہے.

مسلح بدمعاشوں نے جیل میں تقریبا 100 راؤنڈ فائرنگ کی.
فی الحال جائے حادثہ پر پولیس پہنچ گئی ہےاور معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہے. یہ سب سے بڑی خبر ہے،
اس کے  بہت سارے پہلو ہیں،

01.خالصتان لبریشن فرنٹ کا مقصد اٹوٹ بھارت کو توڑ کر پنجاب کو ایک الگ ملک خالصتان بنانا ہے،
اب آپ طے کرلیں کہ کہ یہ تنظیم ملک مخالف، دہشت گرد، اور غدار ہے یا نہیں؟

02.اسكا سربراہ ہرمندر سنگھ منٹو ایک بدنام زمانہ دہشت گرد ہے،
جو 2008 میں ڈیرہ سچا سودا پرمکھ  گرمیت رام رحیم،
اور هلواڑا ایئر فورس اسٹیشن دہشت گردانہ  حملے جیسے کئی بڑے دہشت گرد دھماکوں میں شریک تھا،
یہ KLF کیلئے فنڈ  جمع کرنے اور نیٹ ورکنگ کا کام کرتا تھا، یہ دنیا کے کئی ممالک میں جا چکا ہے،2013 میں پاکستان میں بھی تھا،
2014 میں اسے بھارت سے فرار ہوتے ہوئے IGI
ایئر پورٹ پر گرفتار کیا گیا تھا،
اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے بدنام زمانہ غدار وطن کو فقط مجرم كہینگے یا دہشت گرد؟؟

03. پنجاب کے نابھا جیل جیسے محفوظ ترین جیل سے
جہاں ہائی پروفائل سیكيورٹی ہوتی ہے
وہاں
10 بدمعاش آتے ہیں اور بڑے آرام سے 100
راؤنڈ گولیاں چلا کر 6 لوگوں کو بھگا لے
جاتے ہیں،
نہ کوئی جیل ملازم زخمی یا ہلاک ہوا،
نہ ہی کسی طرح کا کوئی نقصان، یہ بھی ایک بڑا سوال ہے

04، اکالی دل، بی جے پی اتحاد کی حکومت والی  اس رام راجیہ کی
پولس نے ایک لڑکی کو فرار قیدی سمجھ کر
گولی مار دی، لڑکی کی موت بھی ہو گئی،
کیا ریاستی حکومت  نے ان فرار دہشت گردوں کو اندھا دھند قتل کرنے کی اجازت  دے دی ہے ؟؟یا یہاں کی پولیس کو بھوپال پولیس جیسی بننے کا شوق ہے؟

اب آئیے بات کرتے ہیں بھوپال جیل سے
بھگاکر مارے گئے قیدیوں اور نابھا جیل سے بھاگے دہشت گردوں کے بارے میں میڈیا کی پالیسی پر،
بھوپال جیل سے رات کے 3 بجے 8 زیرالتواء قیدیوں کو انتظامیہ کی جانب سے بھاگ جانے کو کہا جاتا ہے،
ان سب کو نئے کپڑے اور ایک جیسے ڈیزائن کے برانڈیڈ جوتے دئیے جاتے ہیں،
اور جیل سے 10 کلومیٹر دور ایک جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے،کہ چلے جاؤ اور پھر گھیر کر ان بیٹوں کو ماردیا جاتا ہے ،.
کیونکہ  اس انكاؤنٹر میں مارے گئے بے گناہوں کا تعلق سیمی نامی ایک ایسی تنظیم سے تھا15 سال پہلے ہی جسے بھارت میں پابندی لگا کر ختم کر دیا گیا تھا، اس وقت ان بے قصوروں کا بچپن تھا، اسی سیمی کے یہ آٹھ مبینہ ممبران  جب 25-30 سال کی عمر کے ہوئے تو سیمی کے خونخوار دہشت گرد بنا دیے گئے،
میڈیا نے انہیں انٹرنیشنل دہشت گرد اور بھارت کی سلامتی کے لیے خطرناک بتایا تھا،

اب آئیے نابھا کی بات کرتے ہیں، نابھا جیل سے فرار ہرمندر سنگھ منٹو اور اس کی تنظیم دونوں سے ہی ملک کے اتحاد و سالمیت کو خطرہ ہے،
یہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کی کوشش میں لگے ہیں،
ہرمندر کئی بڑے دہشت گرد حملوں کا ماسٹرمائنڈ ہے،
اور اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک انتہائی محفوظ جیل سے دن دہاڑے ہتھیاروں کے دم پر چھڑا لیا جاتا ہے
اور ہماری میڈیا انہیں صرف مجرم کہہ کر
دامن چھڑا لیتی ہے،
کیا اس لئے کہ بھوپال میں مسلمان تھے اور یہاں غیر مسلم؟

اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ میڈیا کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ایک دہشت گرد پر فقط اس کے مسلم نہ ہونے کی وجہ سے نرم رخ اپنا لیتی ہے،
اور ایسے خطرناک دیش دروہی، غدار، آتنک وادی کو ایک عام مجرم بنا دیتی ہے،
اب یہ تو آپ طے کریں گے کہ جمہوریت کے چوتھے ستون کہے جانی والی  میڈیا پر کس طرح کے نظریہ والے لوگوں کا قبضہ ہے؟
اور میڈیا سماج کو کو کس طرح بانٹنے کا کام کررہی ہے؟
اور دیکھنا یہ بھی ھیکہ کیا ان خالصتانی دہشت گردوں کا انكاؤنٹر کر دیا جاتا ہے  یا انہیں معمولی مجرم کہہ کر باعزت مہمان خانے میں واپس لے آیا جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔