نامِ محمد ﷺ کے فضائل وبرکات

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

سرور کونین ،فخرِ دوعالم سیدنا نبی اکرم ﷺ کی ذات والاصفات کو اللہ تعالی نے خوبیوں اور کمالات کا پیکر بناکر دنیامیں بھیجا۔جو چیز بھی آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی سے منسوب ہوگئی اس کی عظمتوں میں اضافہ ہوگیا اور اس کا مقام ومرتبہ بڑھ گیا۔چناں چہ آپ ﷺ کے نامِ مبارک کی برکتیں بھی بے شمار ہیں اور ان کی تاثیر اور اثر انگیزی بھی بے مثال ہے۔آپﷺ کے بہت سے نام ہیں لیکن دو نام’’ محمد‘‘اور’’ احمد‘‘ آپﷺ کے ذاتی اور باقی صفاتی کہلاتے ہیں ۔آپ ﷺ کا نام نامی اسم گرامی زبان سے جاری کرنا اس کے لئے آداب واحترام کے کچھ تقاضے ہیں۔کہنے والوں نے یہاں تک کہا ہے کہ:
؂ ہزاربار بشویم دہن ز مشک وگلاب ہنوز تو نامِ گفتی کمالِ بے ادبی
کہ ہزار بار بھی منہ کو مشک وگلاب سے دھویا جائے اور پھر آپ ﷺ کا نامِ مبارک لیا جائے تب بھی یہ ڈر اور خوف ہوتا ہے کہ کہیں نام لینے میں بے ادبی نہ ہوجائے ،کیوں کہ آپ ﷺ کا نام بہت اونچا اور اعلی وارفع ہے۔ہماری زبان کی آلودگیاں اور منہ کی بے اعتدالیاں ہم جانتے ہیں اسی لئے ان تمام کے ساتھ زبان پر نامِ محمد ﷺ کا آنا یقیناًیہ ایک ذمہ داری والی بات ہے۔اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ اللہ تعالی نے نامِ محمد ﷺ میں جہاں بلا کی تاثیر رکھی ہے وہیں حلاوت و چاشنی ،شیرینی اور لطافت کا بے پناہ مزہ بھی رکھا ہے ،محمد رسول اللہ ﷺ کا نام منہ سے اس وقت تک نکل نہیں سکتا جب تک کہ دونوں ہونٹ اظہارِ محبت و عقیدت میں مل نہ جائیں اور وارفتگی و شوق کے ساتھ آپ ﷺ کے نام کو نہ لے۔کسی نے اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:
؂ بارالہا! یہ زباں پہ کس کانا م آیا کہ مرے نطق نے بوسے لئے مری زباں کے لئے
الغرض نبی اکرم ﷺ کے تمام اسمائے گرامی اپنی جگہ عظیم برکتوں اور خصوصیتوں والے ہیں اور اللہ تعالی نے ہر نام کی جدا تاثیر اور انقلاب انگیزی رکھی ہے ،اس وقت ہم صرف نامِ محمد ﷺ پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں۔
آپ ﷺ کے ناموں کی تعداد:
علامہ قسطلانی ؒ نے لکھا ہے کہ:آپﷺ کے بہت نام اور القاب قرآن وحدیث میں آئے ہیں ،مختلف علماء نے الگ الگ تعداد بتائی ہے ،بعض نے اللہ تعالی کے ناموں کے برابر 99 نام بتائے ہیں اور بعض نے لکھا ہے کہ اگر قرآن وحدیث اور کتابوں کو تلاش کیا جائے تو آپﷺ کے ناموں کی کُل تعداد ۳۰۰ تک پہنچتی ہے۔(المواہب اللدنیہ:1/14بیروت)
نامِ محمد ﷺ کی وجہ تسمیہ:
عبد المطلب نے ولادت کے ساتویں روزآپ ﷺ کا عقیقہ کیا اور اس تقریب میں تمام قریش کو دعوت دی ،اور’’ محمد‘‘آپﷺ کا نام تجویز کیا ۔قریش نے کہاکہ : اے ابو الحارث!( عبد المطلب کی کنیت)آپ نے ایسا نام کیوں تجویز کیا جو آپ کے آباء واجداد اور آپ کی قوم میں سے اب تک کسی نے نہیں رکھا ۔عبد المطلب نے کہاکہ : میں نے یہ نام اس لئے رکھا کہ اللہ آسمان میں اور اللہ کی مخلوق میں اس مولود کی حمد و ثنا کرے۔( سیرت المصطفیٰ:1/61)اسی طرح اس عظیم الشان نام رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عبدالمطلب نے آپ ﷺ کی ولادت سے پہلے ایک خواب دیکھا جو اس نام رکھنے کا باعث ہوا وہ یہ ہے کہ عبد المطلب کی پشت سے ایک زنجیر ظاہر ہوئی جس کی ایک جانب آسمان میں ایک جانب زمین میں اور ایک جانب مشرق میں اور ایک جانب مغرب میں ہے ۔کچھ دیر کے بعد وہ زنجیردرخت بن گئی جس کے ہر پتہ پر ایسا نور ہے کہ جو آفتا ب کے نور سے ستر درجہ زائد ہے ۔مشرق اور مغرب کے لوگ اس کی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں ،قریش میں سے بھی کچھ لوگ اس کی شاخوں کو پکڑ ے ہوئے ہیں اور قریش میں سے کچھ لوگ اس کے کاٹنے کاارادہ کرتے ہیں ۔یہ لوگ جب اس ارادے سے اس درخت کے قریب آنا چاہتے ہیں تو ایک نہایت حسین وجمیل جوان ان کو آکر ہٹا دیتا ہے ۔معبرین نے عبد المطلب کے اس خواب کی یہ تعبیر دی کہ تمہاری نسل سے ایک ایسالڑکا پیدا ہوگا کہ مشرق و مغرب تک لوگ اس کی اتباع کریں گے اور آسمان و زمین والے اس کی حمد اور ثناکریں گے ،اس وجہ سے عبد المطلب نے آپ ﷺ کانام محمد رکھا۔(الروض الانف فی السیرۃ النبویۃ:1/280بیروت)
محمد ﷺ اور احمد ﷺ کے معنی:
محمد ﷺکے معنی ہے کہ جن کی تعریف کی جاتی ہے ان میں سب سے زیادہ آپﷺ کی تعریف کی گئی ۔اور احمد ﷺ کے معنی ہے کہ جو اللہ کی تعریف کرنے والے ہیں ان میں سب سے زیادہ تعریف کرنے والے بھی آپﷺ ہیں۔( سیرت حلبیہ:1/262)آپ ﷺ کا اسم گرامی ’’احمد‘‘حمد کے معنی کے میں مبالغہ کا صیغہ ہے اور ’’محمد‘‘بھی کثرتِ حمد سے مبالغہ کا صیغہ ہے اس اعتبار سے آپ کی ذات ہر اس آدمی سے زیادہ شان رکھتی ہے جس نے اللہ کی حمد ادا کی اور ہر اس شخص سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے جس کی تعریف کی گئی۔( اسماء النبی ﷺ:15)
قرآن کریم میں نامِ محمدﷺ کا استعمال:
قرآن کریم ﷺ میں نامِ محمدﷺ چار جگہوں پر آیاہے ۔ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔( اٰل عمران :144)’’اور محمد(ﷺ)ایک رسول ہی تو ہیں ؛ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرچکے ہیں۔‘‘ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین۔( الاحزاب :40)’’( مسلمانو!) محمد (ﷺ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ۔لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ،اورتمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔‘‘والذین امنوا وعملو الصلحت وامنوا بما انزل علی محمد( محمد:2)۔’’اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ،اورا نہوں نے نیک عمل کئے ہیں ،اور ہر بات کو دل سے مانا جو محمد(ﷺ) پر نازل کی گئی ہے۔‘‘محمد رسول اللہ ۔’’( الفتح:29)’’محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
نامِ محمدﷺ کے فضائل:
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: من ولد مولود فسماہ محمدا تبرکابہ کان ھو ومولود فی الجنۃ۔(فضائل التسمیۃ باحمد ومحمد:حدیث29)جس شخص کو کوئی بچہ پیدا ہو اور اس نے اس کا نام محمد رکھاتاکہ (نبی ﷺ) کے نام کے ذریعہ برکت حاصل کرے تو وہ باپ اور اس کا بچہ جنت میں جائیں گے۔حضرت ملاعلی قاری ؒ نے ’’شرح شفاء ‘‘ میں ایک طویل حدیث نقل فرمائی ہے جس کے آخرمیں سرکارِ دوعالم ﷺ یوں ارشاد فرماتے ہیں’’الحمدللہ الذی فضلنی علی جمیع النبین حتی فی اسمی وصفتی ‘‘یعنی تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے مجھے جملہ انبیاء پر فضیلت بخشی ،حتی کہ میرے نام اور صفت میں ‘‘۔اس کے متعلق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ :حضور ﷺکے خصائص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کے اسمِ مبارک پر نام رکھنا مبارک ونافع اور دنیا وآخرت میں حفاظت ونجات کا باعث ہے۔(مدارج النبوۃ:1/180)
امام ابونعیم ؒ نے ’’حلیہ الاولیاء‘‘ میں حضرت نبیظ بن شریط سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’قال اللہ تعالی وعزتی وجلالی لااعذب احدا تسمی باسمک فی النار‘‘یعنی اللہ تعالی نے فرمایا کہ مجھے اپنے عزت وجلال کی قسم !جس کا نام تمہارے نام پر ہوگا اسے دوزخ کا عذاب نہ دوں گا۔حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ : ایک روز حضورﷺ نے ارشاد فرمایاکہ قیامت کے دن دو آدمی بارگاہِ خداوندی مین پیش ہوں گے،حکم ہوگا کہ انہیں جنت میں لے جاؤ،یہ حکم سن کر انہیں تعجب ہوگا اور حق تعالی سے عرض کریں گے :یا الہ العالمین !ہم نے تو کوئی نیک عمل نہیں کیا ،پھر بھی جنت میں کیوں بھیجے جارہے ہیں؟اللہ تعالی کا ارشاد ہوگا :تم جنت میں جاؤ،میں نے قسم کھارکھی ہے کہ جس شخص کا نام بھی محمد یا احمد ہوگا اس کو جہنم میں داخل نہیں کروں گا۔(مدارج النبوۃ:1/181)اس حدیث کو امام قسطلانی ؒ نے بھی ’’مواہب اللدنیہ ‘‘ میں حضرت انس بن مالکؓ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ایک حدیث میں ہے :’’ استحی ان عذب بالنار من اسمہ اسم حبیبی‘‘یعنی اللہ شرم فرماتا ہے اس بات سے کہ اسے عذاب دے جس کا نام میرے حبیب ﷺ کے نام پر ہو۔حضرت امام ابویوسف بن اسماعیل نبھائی ؒ نے لکھا ہے کہ : سرکارِ دوعالم نے فرمایاجس شخص کانام محمد ہے قیامت کے روز اسے لایا جائے گا ،اللہ اس سے فرمائے گا کہ تجھے گناہ کرتے ہوئے شرم نہ آئی؟حالاں کہ تو نے میرے حبیب کانام رکھا ہے ،لیکن مجھے شرم آتی ہے کہ میں تجھے عذاب دوں،جب کہ تونے میرے حبیب کا نام اختیار کیا ہے ،جاؤجنت میں داخل ہوجاؤ۔قاضی عیاض’’کتاب الشفاء‘‘میں فرماتے ہیں:’’ان اللہ تعالی وملائکتہ یستغفرون لمن اسمہ محمد واحمد‘‘یعنی اللہ تعالی اور اس کے فرشتے بخشش ورحمت کرتے ہیں اس پر جس کانام محمدیااحمد ہو۔( خصوصیاتِ مصطفی:1/455)
نامِ محمد ﷺ کی برکتیں:
اس کے علاوہ حضور ﷺ کے نام اقدس پر اگر کسی نے اپنا رکھا تو یہ اس کے لئے صرف یومِ آخرت ہی نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی باعثِ خیر وبرکت ہوگااور وہ شخص جس گھر میں بھی یا کسی محفل میں ہو یاکسی جگہ ہو ان تمام صورتوں میں رب کریم محض اپنے فضل وکرم سے اس جگہ بیش بہا نعمتوں ،برکتوں اور رحمتوں کی بارش فرمائے گا۔چناں چہ ابن سعد ؒ نے ایک حدیث مرفوعاً روایت کی ہے کہ :حضور اکرم ﷺ نے اگرتم میں سے کسی کے گھر میں ایک یا دو یا تین ’’محمد‘‘ نام والے ہوں تو کیا حرج ہے ،تمہارا گھر میں تو بہت برکت ہوگی۔امام مالک ؒ سے روایت ہے کہ میں نے مکہ والوں سے سنا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ جس گھر میں ’’محمد ‘‘ نامی کوئی آدمی رہتا ہو ،وہ گھر برکت والا ہے اور اس کے ہمسایوں کو بغیر کسی خاص مشقت کے رزق ملتا رہتا ہے۔امام جلال الدین سیوطی ؒ نے عبد اللہ بن عباسؓ سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:جس کے تین بیٹے پیدا ہوں اور وہ ان میں سے کسی کا نام ’’محمد ‘‘ نہ رکھے تو بلاشبہ وہ ضرور جاہل ہے۔صاحبِ نزہۃ المجالس عبد الرحمن صفوری فرماتے ہیں کہ میں نے ’’کتاب البرکۃ ‘‘میں نبی کریم کی ایک روایت دیکھی کہ حضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ: جس گھر میں میرا نام ہو اس میں تنگدستی نہ آئے گی۔حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو قوم کسی مشورے کے لئے جمع ہوئی اور ان میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کا نام ’’محمد ‘‘ ہے تو یقیناًاللہ تعالی ان کے نام کی برکت عطا فرمائے گا۔(مدارج النبوۃ :1/181)
اسمِ محمد ﷺ کی برکت کے پیشِ نظر حضرت ابن ملیکہؓ نے بروایت اب جریح حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے جس کے یہاں حمل ہو،اور وہ پختہ ارادہ کرلے کہ میں اس کا نام ’’محمد‘‘ رکھوں گا ، تو اللہ تعالی اسے لڑکا عطافرمائے گا۔ایک مرتبہ حضرت جلیلہ بنت عبد الجلیلؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ! میں ایسی عورت ہوں کہ میرے بچے زندہ نہیں رہتے ،آپ ﷺ نے فرمایا: خداتعالی سے نذرکرکہ جو لڑکا اللہ تعالی تجھے عطافرمائے گا اس کانام ’’محمد‘‘ رکھوں گی ،چناں چہ اس عورت نے ایسا ہی کیا،اور اس کے نتیجہ میں بہ فضل خدا اس کا وہ بچہ زندہ رہا ۔(خصوصیاتِ مصطفی:1/459)
نامِ محمدﷺ کا اکرام کرو:
نبی کریمﷺ کے محمد کانام کااکرام کرنا اور جس کانام محمد ہو اس کی تعظیم کرنا بھی یہ ضروری ہے اور باضابطہ اس سلسلہ مین تعلیمات بھی موجود ہیں کہ جس کا بھی محمد نام ہواس کااکرام کرنا چاہیے ،اس پر لعن طعن اور اس کو گالی گلوج نہیں کرنا چاہیے ۔چناں چہ آپ ﷺ کاارشاد ہے:حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اپنے بچوں کا نام محمد رکھتے ہو اور اس کے بعد ان پر لعنت کرتے ہو؟۔حضرت ابورافع ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے آپﷺ نے فرمایا: جب تم بچے کانام محمد رکھو تواسے نہ مارواور محروم نہ رکھو۔حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے جس کے تین بچے پیدا ہوئے اور اس نے کسی کا نام بھی محمد نہیں رکھا بلاشبہ وہ جاہل ہے۔( الخصائص الکبری للسیوطیؒ :2/408)آپ ﷺ نے فرمایا:جب تم بچے کا نام محمد رکھو تو اس کا اکرام کرو ،اس کے لئے مجلس میں وسعت پیدا کرو اور اس کے چہرے کی تقبیح نہ کرو۔( فیض القدیر:3/246)
نامِ محمد ﷺ کے احترام کا واقعہ:
نبی کریمﷺ کا نام مبارک محمد یقیناًبڑی عظمتوں والا ہے ،اور امت میں ایسے علماء ومحدثین بھی گزرے ہیں جن کے نام سلسلہ درسلسلہ اور نسل درنسل محمد رہے ہیں ۔اللہ تعالی نے اس نامِ مبارک کی برکتوں کو ظاہر بھی فرمایا اور اس نام رکھنے والے کے مقام و مرتبہ کو بلند بھی کیا۔اس امت میں نامِ محمد ﷺ کا بے پناہ پاس ولحاظ رکھنے والے اور حددرجہ اس کی تعظیم وتکریم کرنے والے میں گزرے ہیں جنہوں نے اپنے عمل کے ذریعہ ان نام کی تقدیس اور پاکیزگی کا اظہار کیا۔چناں چہ لکھا ہے :سلطان محمودپر اپنے تقوی اور کسرِ نفسی کی وجہ سے حبِ رسول ﷺ کا بڑاغلبہ رہا۔وہ اپنی زبان پر رسول اللہ ﷺ کا اسمِ مبارک لانے میں حددرجہ احترام کرتا۔ان کے ایک مصاحب کا نام ’’محمد‘‘ تھا،وہ اس کو ہمیشہ اسی نام سے پکاراکرتے تھے۔ایک روز انہوں نے اس کو تاج الدین کہہ کر پکارا،وہ آیا اور شاہی حکم کی تعمیل کرکے گھر چلا گیا،تو تین دن تک سلطان کی خدمت میں حاضر نہ ہوا،سلطان نے جب اس کو بلابھیجااور اس سے غیر حاضری کا سبب دریافت کیا۔تواس نے عرض کیاکہ : آپ مجھے ہمیشہ محمد نام سے پکاراکرتے تھے ،اس روز خلافِ عادت مجھے تاج الدین کہہ کر پکاراگیا تو میں سمجھا کہ مجھ سے کوئی بدگمانی پیدا ہوگئی ہے ،اس لئے اپنی صورت نہیں دکھائی اور تین روز میں نے بڑی بے چینی اور بے قراری سے گزارے ،سلطان نے اس کو یہ کہہ کر اطمینا ن دلا یا کہ میں تم سے بد گمان نہیں ہوں ،لیکن جب میں نے تم کو تاج الدین کہہ کر پکارا تھا س وقت میں باوضو نہیں تھا ،مجھے شرم آئی کہ محمد کا نام بے وضو لوں۔( تاریخ فرشتہ:1/74بحوالہ خزینہ:170)

تبصرے بند ہیں۔