ناگ ۔۔ ناگ، ناگ آیا۔۔۔۔

مشرف عالم ذوقی

ابھی ابھی خبر ملی کہ میم ناگ بھی رخصت ہوئے –کیا لکھوں ، بے رحم حالات میں کون ہے جو جینا چاہے گا .ناگ کو غصّے پر قابو کہاں تھا .یہ غصّہ جم کر اسکی کہانیوں میں نکلا کرتا ..وہ با لکل پرواہ نہیں کرتا تھا کہ عام نقاد اسکی کہانیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں …ناگ پر ناگ  دیوتا سوار تھا .نہ ترقی  پسند تھا ..نہ جدیدیت کا پیروکار –وہ اپنے ڈھب کی کہانیاں لکھتا .اختصار پسند تھا …اور اپنی مختصر کہانیوں میں اپنے اندر دہبے  لاوے کو نکال دیتا ..وہ کسی سے متاثر نہیں تھا لیکن ہر کویی اس سے متاثر تھا …زمانے کی چال بےڈھنگی کو کیوں سمجھتا …دولت و ثروت کے پیچھے کیوں بھاگتا ..اسے تو نمائش بھی پسند نہیں تھی .اپنی کہانیوں کا ذکر تک منظور نہ تھا …وہ ایک ایسے عام آدمی کا ترجمان تھا جسے آپ کہیں بھی کبھی بھی دیکھ سکتے ہیں ….کسی بھی صورت  میں ..کسی دھابے میں .سڑک  پر چاہے پیتے ہوئے ..بس میں دھکّا کھاتے ہوئے …کرتے کی جیب سے سکّے نکلتے ہوئے …بنداس —کویی اکڑ نہیں کہ کہانی لکھتا ہے –اور ناگ کہانیاں لکھتا بھی کہاں تھا …کہانی خود چل کر اسکے غصّے اور تیور میں شامل ہو جاتی تھی …وہ لکھ لیتا تو چھپنے بھیج دیتا ..اس کے لئے یہ جاننا بھی ضروری نہیں تھا کہ کون سا رسالہ معیاری  ہے کون سا غیر معیاری -لیکن جہاں بھی ..جس رسالہ میں بھی اسکی کہانیاں شایع ہوتیں ،وہ رسالہ ایکدم عام  سے خاص بن جاتا …کبھی کبھی تو اسکے بنداس اسلوب پر حیرت ہوتی ..یار ..کیا کہانیاں ایسے بھی لکھی جاتی ہیں ؟ اس طرح بھی لکھی جا سکتی ہیں —یہ کام صرف ناگ کر سکتا تھا ..
کالج کا زمانہ تھا ..اس زمانے میں شمع میگزین کی دھوم چاروں  طرف  میں تھی .ایک کہانی شایع ہوئی -عنوان تھا ..ڈاکو …گھر میں ڈاکو آئے..بڑی بہن کو اٹھا کر لے جانے لگے ..تب تک باتھ روم سے ٹاول لپیٹے چھوٹی بہن آ گئی ..ڈاکو چھوٹی بہن کو لے گئے -کچھ دن بعد چھوٹی بہن واپس آ گئی ..لیکن بڑی بہن غصّے میں تھی …چھوٹی بہن اگر ٹاول لپیٹے نہیں آتی تو ڈاکو اسکو اپنے ساتھ لے جاتے —ناگ کا نام نیا تھا .یہ کہانی بہت دنوں تک بلکہ ابھی تک ذہن و دماغ پر دستک دے جاتی ہے …نفسیات کی باریکیوں سے کہانی کو جینا ناگ کو آتا تھا .اسلئے اسکی بیشتر کہانیاں ایسی ہیں جنہیں بھولنا نا ممکن —اس وقت دو نام ایسے تھے جنکے سحر سے نکلنا مشکل تھا ..ایک ہندی ادیب مدرا راکشس دوسرا میم ناگ ..مدرا راکشس بھی سورگ سدھار گئے ..ناگ بھی چلے گئے .. راکشسوں اور قاتلوں کی دنیا میں یہ دونوں  برے نام کے باوجود ایسے فرشتہ صفت انسان تھے ..جنکی موجودگی یہ احساس دلاتی تھی  کہ …ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں …ناگ سے میری کبھی کبھی فون پی بات ہو جایا  کرتی تھی …لٹھ مار مگر پیارا  لہجہ …یہ لہجہ کسی ادیب کا لہجہ نہیں تھا ..انسان کا لہجہ تھا …
ایسے انسان کا جو خود کو خوفناک سونامی میں بھی زندہ رکھنے کا جتن کرتا ہے ..زندگی سے، ہیمنگوے کے بوڑھے آدمی کی طرح لڑتا ہے …بار بار زندگی سے شکست کھاتا ہے ..اسکے پاس کسی کو دینے کے لئے کچھ نہیں ..ایسا مزدور جو روز کنواں کھودتا ہے …صحافی تھا …پریشان رہتا تھا .مگر کبھی کسی کے آگے جھکا نہیں ..اسکے اندر انا کی سلطنت آباد تھی …ادیب ایسے ہی ہوتے ہیں …ناگ ..ناگ …دنیا کی پرواہ نہیں کرتے ..سیاست نہیں کرتے ..ادب کو فروخت نہیں کرتے …بڑوں کے جھانسے میں نہیں آتے ..ناگ کے لئے یہ دنیا نہیں تھی ..ناگ پتا نہیں کیسے اس بے رحم دنیا میں اتنے دن جی گیا ….یاد آیا ….تین برس پہلے لے سانس بھی آھستہ پر ناگ نے ایک مضمون  لکھا ..مضمون میں بھی ناگ کا اپنا اسٹائل اور رنگ غالب تھا …کچھ دن پہلے کسی رسالہ میں اسکا انٹرویو پڑھا ..ناگ نے اپنے برے دنوں کی کویی بات نہیں چھپایی .سارے راز اگل دئے -ناگ کے پاس تو چھپانے کے لئے بھی کچھ نہیں تھا …ابھی کچھ دن پہلے ناگ کی تازہ تصویر دیکھی …پہچان نہیں سکا ..دیر تک تصویر کو دیکھتا رہا ….ناگ کی تصویر تھی ..لیکن ناگ کہاں تھا ..؟  اس تصویر میں ناگ نہیں تھا ..جیسے اندر کا سارا ڈنک ..سارا غصّہ..سارا زہر  وقت اور خوفناک سیاست نے اسکے اندر سے چوس لیا ہو …میں اس لمحے ڈر گیا تھا ..مگر آج خوف زدہ نہیں ہوں …
میرے اندر بھی ڈنک نہیں ..زہر نہیں ..غصّہ نہیں ….
بے رحم وقت نے صرف اچھے انسانوں کا سودا نہیں کیا …اندر سے خون کا قطرہ قطرہ چوس کر ہمیں کھوکھلا کر دیا ہے …..
ناگ ..جہاں گئے ہو ..شاید وہاں زہر کی ضرورت نہ پڑے ..تم بہت یاد آؤ گے ناگ …..

تبصرے بند ہیں۔