اقبال کی سیاسی بصیرت (پہلی قسط)

ظفراقبال

شاعرمشرق علامہ اقبالؔ نے اپنی شاعری کے توسط سے ساری انسانیت اور بالخصوص امت مسلمہ کو جو آفاقی پیغام دیا ہے۔ وہ ساری انسانیت کے درد کا مداوا ہے ۔ انہو ںنے اپنی شاعری کے توسط سے نواستعماریت کے خلاف محکوم اقوام کو بیدار کرنے کی جو کوششیں کی ہیں،وہ صرف انہی کا خاصہ ہیں۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر جو آنسو بہائے ہیں انہیں کے طفیل اقبالؔ جیسی دیدور شخصیت پیدا ہوئی ہے یہ شخصیت جب ایک طائرانہ نظر خود اپنے ملک، ساری دنیا اور بالخصوص عالم اسلام پر ڈالتی ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ اس مرحلہ پر وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں وہ ان ظالموں کے خلاف اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قوموں کے اندر ان کی خودی کو بیدار کرنے کی کوششیں کریںگے۔ جب ان کی خودی بیدار ہوجائے گی تو یہ محکوم اور مظلوم قومیں اپنی خودی اور اپنی مخفی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ظلم، اور غلامی اور نواستعماریت کی زنجیروں کو توڑ دیں گی ۔ اس کے بعدساری انسانیت عدل و انصاف سے مستفید ہوسکے گی۔
ابتدا میں اقبالؔ کی شاعری زیادہ تر وطن کی محبت میں سرشار نظر آتی ہے۔ کیونکہ یہ زمانہ تھا جب ہندوستان غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے کروٹ بدل رہا تھا۔ ایک طرف اپنی غلامی، پسماندگی اور محکومی کے اسباب تلاش کئے جارہے تھے اور سماج اور معاشرہ کی اصلاح کے ساتھ عظمت رفتہ کی بازیافت کی کوششیں ہورہی تھی تو دوسری طرف ایک نئی دنیا اور نئے سماج کی تعمیر کا خواب دیکھا جارہا تھا۔ ہمالہ، تصویر درد، ترانہ ہندی، نیا شوالہ جیسی نظمیں اس عہد کی نمائندہ ہیں۔ اس کے بعد کچھ ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں اور کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن سے ان کی فکر میں ایک زبردست تبدیلی ہوتی ہے۔ وطن کی محبت میں سرشار اقبال کو اچانک محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسی سمت میں جارہے ہیںجو یقینا ان کا مطمع نظر نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کی شاعری ایک اور قالب میں ڈھلنے لگتی ہے مگریہ تبدیلی ان کے یورپ کے قیام اور وہاں کے سیاسی اور سماجی حالات کے براہ راست اور بغور مشاہدہ کا نتیجہ ہے کیونکہ یورپ میں ہی انہوں نے سرمایہ داری، مادہ پرستی، اخلاقی قدروں کی پامالی، امتیاز رنگ و خون اور نسلی تفاخر پر مبنی جارحانہ وطن پرستی کے مظاہر خود اپنی آنکھوں سے دیکھے اور محسوس کیا کہ وطنیت کا خمار دور سے بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب قریب سے اس کا مشاہدہ کیا جائے تواس کے اندرکی چنگیزیت نظرآتی ہے۔ اس کے بعد انہو ںنے اپنی شاعری کو وطنیت جیسی کسی چہاردیواری میں مقید کرنے کے بجائے ساری دنیا اور ساری انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے محکوم قوموں کو بیدارکرنے کا فیصلہ کیا جنہیںدنیا کی نواستعماری طاقتیں مختلف حیلوں اور بہانوں سے غلام بنانے کی کوشش کررہی تھیں۔
اقبالؔپر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ جب وہ اپنی وطنی شاعری سے ملی شاعری کی طرف پلٹے تو صرف ایک اسلامی شاعر بن کر رہ گئے۔ یہ الزام سراسرغلط اوران کی شاعری اور پیغام سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔یہ صحیح ہے کہ اقبال کے دوسرے دور کی شاعری کا محور اسلام ہے مگر ان کی فکر میں اسلام مخصوص رسوم، عبادات اور عقائد کا نام نہیں ہے بلکہ ایک فعال، سرگرم اور متحرک نظریہ حیات ہے۔ جس میں حریت، آزادی، بے نیازی، زور حیدری اور فقربوذر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور جو ہر ظلم و جبر، محکومی اور غلامی کے خلاف سینہ سپر ہوجاتا ہے۔
اقبال کی شاعری میں ملی تصور کا آغاز آپ کے سفر یورپ کے بعدیعنی1908ء سے باضابطہ شروع ہوتا ہے۔ جب آپ یورپ میں تھے تبھی آپ نے محسوس کرلیا تھا کہ یورپ کا جو ظاہری چہرہ ہے وہ کچھ اور ہے اور باطنی چہرہ کچھ اور ہے۔زمانہ قیام یورپ میںان کی شاعری میں ایک خو ش آئند مگر عظیم الشان انقلاب پیدا ہوگیا ۔ انہو ںنے مغربی تہذیب و سیاست کو بہت نزدیک سے دیکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان دونوں چیزوں کے مفاسد ان پر بخوبی آشکار ہوگئے اور ان پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ یہ قومیت و وطنیت بنی آدم کے حق میں کبھی مفیدنہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی بنیاد تعصب اور تنگ نظری پر ہے دوسری بات یہ ہے کہ مغربی تہذیب کانتیجہ انسانوں کے حق میں تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہے کیونکہ اس کی بنیاد مادیت اور انکار ِ خدا پرہے۔
اس عرصہ میں انہو ںنے اسلامی اصول اور اسلامی تاریخ کا بہت غور کے ساتھ مطالعہ کیا اس لئے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ دنیا کی نجات اسلامی اصول زندگی کی تبلیغ و اشاعت میں مضمر ہے۔
جب انہوںنے یہ فیصلہ کرلیا کہ آئندہ اپنی شاعری کو اسلامی مقاصد کے حصول کے لئے اور امت مسلمہ کی سربلندی کے لئے وقف کردیں گے تو قدرتی طور پران کی شاعر میں ’’پیغام‘‘کا رنگ پیدا ہوگیا۔ جو1908سے لے کر 1938ء تک ہر تصنیف اور ہر نظم میں نظر آتا ہے۔
سفر یورپ کے واپسی کے بعد ان کے اندر ایک طرح سے جو تذبذب اور جستجو تھی وہ پوری طرح زائل ہوگئی اور ان کو یقین محکم ہوگیا اور انہو ںنے اپنے لئے ایک سمت ڈھونڈ لی کہ اب اپنی خداداد صلاحیت شاعری کے ذریعہ وہ امت مسلمہ کی بھلائی اور امت کے اندر بیداری لانے کی کوشش کریں گے۔چنانچہ 1907ء میں انہو ںنے یورپ سے جو نظم علی گڑھ کالج کے طلبہ کے نام لکھ کر بھیجی تھی وہ دراصل ان کا پہلا پیغام ہے جو انہو ںنے اپنی قوم کی وساطت سے دنیا کو دیا اور غور سے دیکھا جائے تو انہوں نے اپنی زندگی کے باقی ماندہ تیس سال اسی پیغام کی وضاحت میں گذار دیئے۔
چنانچہ مارچ1907ء میں انہوں ایک نظم لکھی جس کے اشعار مندرجہ ذیل ہیں:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدار ہوگا
سکوت تھا وہ پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
گذر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہاں میخانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
کبھی جو آوارہ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگاکہ منھ پھٹ ہے خوار ہوگا
دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہوگا
اس کے بعد انہوں نے اپنی قوم کے اندر جوش و ولولہ پیدا کرنے والی نظمیں لکھیں اور مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی سے آگاہ کیا۔نظم صقلیہ اسی مقصد کے لئے لکھی گئی تھی۔ اس نظم کے چندا شعار ملاحظہ ہوں:
رولے اب دل کھول کر اے دیدہ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
تھا یہاں ہنگامہ ان صحرا نشینوں کا کبھی
بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی

زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے
بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے

آہ اے سسلی! سمندر کی ہے تجھ سے آبرو
رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو
تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا
حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا

نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر
داغ رویا خون کے آنسو جہان آباد پر
آسمان نے دولت غرناطہ جب برباد کی
ابن بدروں کے دلِ ناشاد نے فریاد کی
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا

میں ترا تحفہ سوئے ہندوستان لے جاؤں گا
خود یہاں روتا ہوں، اوروں کو وہاں رلاؤں گا
اسی طرح اقبال نے اپنی نظم ’’ترانہ ملی‘‘دراصل وطنیت (Nationalism)کے عقیدہ کی تردید ہے۔ اقبال وطن کی محبت میں بالکل دیوانے سے ہوگئے تھے اور اسی محبت کی وجہ سے انہو ںنے ’’ترانہ ہندی‘‘ نظم لکھی تھی جب انہوں نے یورپ کا سفر کیا اور وہاں سے واپسی ہوئی اور انہو ںنے یورپ میں وطنیت کے تعلق سے جو خرابیاں اور اس کی تباہ کاریاں دیکھیں تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وطن کے نام پر لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آرہے ہیں۔بشریت جیسی کوئی چیز ان قوموں میں نظر نہیں آتی ہے۔ اس طرح وہ اس نظریہ سے تائب ہوکر خالص اسلام کی طرف مائل ہوئے اور انہوں نے ’’ترانہ ملی‘‘ کے نام سے نظم لکھی اور ترانہ ہندی کا ایک طرح سے کفارہ ادا کیا۔
اس نظم کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اسی طرح اقبال نے اپنی نظم ’’وطنیت‘‘(یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے) اس نظم میں اقبال نے پوری طرح سے صراحت کی ہے کہ وطن کا تعلق اگر عام مفہوم سے ہے تو یہ بات بجا ہے کہ وطن سے ہر شخص کو قدرتی لگاؤ ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ وطنیت سیاسی معنی میں مستعمل ہے تو یہ وطنیت خالص اس امت کے لئے تباہی کا باعث ہوگی۔چنانچہ اسی اصول وطنیت کے دام میں گرفتارہوکر عربوں نے 1916ء میں انگریزوں کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا ۔ اس کی سزا وہ آج تک اسرائیل نام کی ایک سلطنت کو عالم اسلام کے قلب میں قائم دیکھ رہے ہیں۔جب جنوری1938ء میں مولانا حسین احمد مدنی نے دہلی کے جلسہ میں یہ کہا تھاکہ ’’موجودہ زمانہ میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ تو اقبال نے ان کے اس غیر اسلامی نظریے کے خلاف سخت سرزنش کی تھی ۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں ’’حسین احمد مدنی‘‘ کے عنوان سے ایک قطعہ ہ جو درج ذیل ہے۔
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمدؐ ایں چہ بوالعجبی است
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقامِ محمد عربیؐ است
بمصطفےؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
اسی طرح بانگِ درا میں اقبالؔ نے ’’وطنیت‘‘ کے تصور کو پاش پاش کرنے کے لئے ’’وطنیت‘‘ (یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے) کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے اس کا پہلا بند ملاحظہ ہو:
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
ان بصیرت قابل دید تھی کہ وہ قوموں کی تاریخ سے زبردست واقفیت رکھتے تھے۔ ان کا تجزیہ بہت ہی احسن ہوتا تھا اور ان کی نگاہیں اس چیز پر پڑتی تھی جو دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہوتی تھیں۔
’’دریوزہ خلافت‘‘ یعنی خلافت کی بھیک نظم کا تعلق ان واقعات سے ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کو عربوں کی غداری کی بدولت شکست فاش نصیب ہوئی چنانچہ3 نومبر 1918ء کو ترکوں نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن انگریزوں کی دلی تمنا پوری ہوگئی ۔چنانچہ برطانیہ کے وزیراعظم نے جب جنرل ایلینی فاتح فلسطین کے سینے پر تمغہ لگایا تو اس کی فتح کو ہلال پر صلیب کی فتح قرار دیا اور کہاکہ سلطان صلاح الدین کے ہاتھوں جو شکست ہمیں نصیب ہوئی تھی اس کا انتقام اب ہم نے لیا ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں انگریزوں نے ہندوستان کے مسلمان کے ساتھ جو جھوٹے وعدے کئے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھاکہ خواہ کچھ بھی ہو ترکی کی سالمیت برقرار رکھی جائے گی۔ لیکن برطانیہ نے ترکی کے خاتمے کے لئے کارروائی شروع کردی۔مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی قیادت میں دسمبر 1919ء میں امرتسر میں خلافت کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا اور اس میں یہ طے پایا کہ جنوری 1920ء میں برطانیہ ایک وفد روانہ کیا جائے جو حکومت برطانیہ سے درخواست کرے کہ خلاف کا خاتمہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ یہ وفد آٹھ مہینے برطانیہ میں رہ کر 65 ہزار روپے ضائع کرنے کے بعد بے نیل و مرام واپس آیا تھا۔  (جاری)

تبصرے بند ہیں۔