خواتین کا دین کی خاطرمشقتیں جھیلنا

مولانا محمد غیاث الدین حسامی

                حضرات انبیاء کرام پوری انسانیت کی ہدایت و رہنمائی اور فلاح و نجات کے لئے اللہ کا پیغام لے کر اپنے اپنے زمانے میں تشریف لے آئے ، اس پیغام کو اپنے سینے سے لگانے ، اسے اپنی زندگی کا دستورِ عمل بنانے ، اس کی خاطر تکالیف برداشت کرنے ، اور مصائب و ابتلاء کی صورت میں ثابت قدم رہنے میں جہاں مردوں نے جرأت و ہمت کے ساتھ حیران کُن مظاہر ہ کیا اور بے شمار مثالیں قائم کیں ، وہیں خواتین نے راہِ حق سے اپنا رشتہ جوڑنے ، اللہ اور اسکے رسولوں کے ساتھ و فاداری ، عقیدت و محبت ، اطاعت و فرمانبرداری کی ایسی حیرت انگیز نظیریں قائم کیں جن کی مثال آج کے مرد پیش کرنے سے قاصر ہیں ،  اور جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت میں اپنے گھر بار اوراپنا سب کچھ قربان کرکے اپنے ایمان کی حفاظت کی ہے ، زمانے کے ماحول اور باطل افکار سے اپنے کو بچاتے ہوئے اپنے مذہب کی تعلیمات کو بسروچشم قبول کیا ، اور اپنی ایمانی تازگی کے ذریعہ پورے ماحول کو معطر کردیا ، ذیل میں موجودہ حالات کے مناسبت سے ان بہادر اور باہمت خواتین کا ذکر کیاجارہاہے جن کے ایمانی جذبۂ سے آج بھی ملت اسلامیہ کا ہر فرد رہنمائی حاصل کرتا ہے ۔

                 خدائے واحد و برترکے لئے اپنے گھر بار اور اپنے رشتہ داروں کو چھوڑکراللہ کی محبت میں ایسی جگہ جاکرتن ِ تنہا رہنے والی بی بی ہاجر ہؑ کا واقعہ مفسرین نے بیان کیا ہے ، یہ وہ خاتون ہے جو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر چھوٹے سے بچہ اسماعیلؑ کے ساتھ مکہ کی ایسی وادی میں زندگی بسر کرنے لگی جس کو قرآن نے غیر ذی زرع کہا ہے ، اس بے آب و گیاہ وادی میں جب شوہر ابراہیم ؑ ان دوکمزور جانوں کو چھوڑ کر جارہے تھے تو بی بی ہاجرہ ؑ نے اپنے شوہر سے صرف اتنا ہی پوچھا کہ کیا یہ میرے ربّ کا حکم ہے ، ابراہیمؑ نے سر کے اشارے سے اثبات میں جواب دیا کہ ہاں! یہ اللہ کا حکم ہے ، بی بی ہاجرہ ؑ نے اس خدائی فیصلہ کو پور ے جذبۂ اطاعت کے ساتھ قبول کیا ،اور اس وادی میں اللہ اور اس کے رسول ابراہیم ؑ کے خاطر بی بی ہاجرہؑ اتنی تکالیف برداشت کی کہ پوری تاریخ نسوانی اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے (تفسیر مظہری باب سورۃ ابراہیم 5/276مکتبہ رشیدیہ پاکستان)

                اسی طرح فرعون کی بیوی اور ان کی ایک خادمہ کا واقعہ اما م مجاہد ؒ نے اپنی تفسیر ’’ تفسیر مجاہد ‘‘ میں بیان کیا ہے ،فرعون کی بیوی آسیہؒ اور ان کی خادمہ مشاطہ ؒ حضرت موسی پر ایمان لا ئے ،اس کی اطلا ع فرعون کی ملی اس نے پہلے مشاطہ کو بلاکر پوچھا ، انہوںنے بھرے دربارمیں حقیقت ِ حال بیان کردیا ، فرعون نے ان پر اتنے مظالم ڈھائے لیکن اللہ کی یہ نیک بندی دامنِ استقامت ہاتھ سے جانے نہیں دیا فرعون نے ان کے دو بیٹوں کو ان کے سامنے ذبح کیا گیا ، اور ان پر سانپ چھوڑے گئے ، اور ہاتھ پیر میں کیل ٹھونکے گئے ، ان سب کے باوجو د اس نیک دل خاتون کی زبان پر ایک جملہ تھا فاقض ما انت قاض ، اللہ ربی و ربک و رب کل شیء۔ تو جو چاہے کرے میرا اور تیرا اور ہر چیز کا ربّ اللہ ہے ، یہی ایک جملہ کہتے ہو ئے اپنی جان کی قربانی اللہ کے حضو ر میں پیش کردی لیکن ایمان جو جان سے زیادہ عزیز تھا اُسے نہ چھوڑا ،       اس کے بعد فرعون اپنی بیوی آسیہؓ کو بلایا ، انہوںنے بھی فرعون کی خدائی کا انکار کر کے ایک خداکا اقرار کیا، اس ایک اقرار نے بی بی آسیہؓ پر مظا لم کا دروازہ کھول دیا، فرعون نے تمام لوگو ں کے سامنے انہی برہنہ کیا اور ان کے ہاتھوں اور پیروں میں لوہے کے کیل ٹھونکے گئے اور پورے جسم سے کھال اتاری گئی اور اس پر مرچ ڈالی گئی اور اسی حالت میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئیں ، اور اس تکلیف دہ حالت میں وہ خدائے لاشریک سے دعا کرنے لگیں ، رب ابن لی عند ک بیتا فی الجنۃ ونجنی من فرعون و عملہ ونجنی من القوم الظالمین ۔ائے پروردگار ! مجھے جنت میں آپ کے پاس ایک گھر چاہئے ، اور مجھے فرعون او ر اس کے عمل سے اور ظالم قوم سے نجات عطا فرما دیجئے (تفسیر مجاہد باب سورۃ قصص 1/425مکتبہ دارالفکر اسلامی)

                جب مکہ میں نبی آخر الزماں کی بعثت ہوئی اور مکہ کے لوگ دامنِ اسلام میں جمع ہورہے تھے اس وقت کفار مکہ نے انہی اسلام سے پھیر نے کے لئے جان توڑ کوشش کی ،اورہر طرح کے تکالیف و مظالم ان پر ڈھائے ، کسی کو آگ کے انگاروں پر، کسی کو سخت تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر سینہ پر وزنی پتھر رکھا گیا کسی پر کوڑےبرسائے گئے؛ لیکن اس جان لیوا عذابات کے باوجود نبی کے بلند حوصلہ صحابہ کے قدم نہیں ڈگمگائے بلکہ اور مضبوط ہوگئے ،               آپﷺ کے مشن کی سربلندی اور اس کے فروع کی جدو جہد میں نوع انسانی کی اس صنف نازک نے اپنے حصے کا پوراپورا حق ادا کیا بلکہ بعض مواقع پر تو وہ اس شرف میں مردوں پر بھی سبقت لے گئیں ، یہ برکت تھی اس دین کی اور یہ جاذبیت تھی اس سراپا شفقت ہستی کی جس کی ذات کی صورت میں اس طبقے کو اپنا ایک مخلص ، ایک محسن ، ایک خیر خواہ اور ایک ہمدر مل گیا تھا ، جس کے پاس وہ اپنی مظلومی اور بے کسی کی شکایات لے کر جا سکتی تھیں اُسی کی بار گا ہ سے وہ اپنے دکھوں اور اپنی پریشانیوں کا مداوا اور اپنی تکلیفوں کا تریا ق حاصل کرسکتی تھیں اس امت کی خواتین اپنے پیارے رسول ﷺ کی محبت میں اور اپنے دین کی حفاظت کے خاطر ہر طرح کے تکالیف و مصائب کو برداشت کیا اور اس دین کی حفاظت میں پیش پیش رہی، اللہ کے آخری رسول ﷺ کی رسالت کی تصدیق کا اولین شرف ایک خاتون کے حصے میں آیا ، حضرت خدیجہؓ حضورﷺ کی بعثت کے بعد تقریباً۹سال زندہ رہیں اس مدت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہر طرح کے مصائب کو نہایت ہی ہمت سے برداشت کیا اور اپنے غیرمسلم رشتہ داروں کے طعن و تشنیع اور ملامت کی پرواہ کئے بغیر اپنے آپ کو تبلیغ دین میں لگایا ،کفار مکہ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو شعبِ ابی طالب میں محصور کیا تو حضرت خدیجہؓ بھی اس مصیبت میں آپﷺ کے ساتھ تھیں ، پورے تین سال یہ جان لیوا آلام و مصائب بڑے ہی صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیا، اور آپ ﷺ کی معیت کا حق ادا کیا ،ان کے اس شرف نے سیدہ خدیجہ ؓکی تمام روحانی بیٹیوں کا سرفخر سے بلند کردیا ، اس فخر پر وہ اپنے ربّ کی بارگاہ میں جذبہ شکر سے سرشار ہوکر اپنا سر جتنا بھی خم کریں کم ہے ۔

                اسی طرح آپ ﷺ کی ایک اور زوجہ محترمہ حضرت امّ سلمہؓ نے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے خاطر جب اپنے پہلے شوہر حضـرت ابو سلمہؓ اورننھے بیٹے سلمہ کے ساتھ مدینہ ہجرت کررہی تھی ان کے قبیلہ بنو مغیرہ کو معلوم ہوا انہو ں نے ان کا راستہ روک لیا ، اور ابو سلمہؓ سے کہا تم اکیلے جاسکتے ہو ، ہماری لڑکی تمہارے ساتھ نہیں جائے گی ، یہ کہہ کر انہوں نے امّ سلمہؓ کو زبردستی اپنے ساتھ لے چلے ، اتنے میں ابو سلمہؓ کے قبیلہ بنو عبد الاسد وہا ں آپہنچے ، انہوںنے امّ سلمہؓ کے بچے سلمہ پر قبضہ کرلیا ، اور بنو مغیرہ سے کہااگر تم اپنی لڑ کی کو ابو سلمہؓ کے ساتھ جانے نہیں دیتے تو ہم اپنے قبیلہ کے بچے کو تمہارے پاس نہیں چھوڑیں گے ، مکمل ایک سال امّ سلمہؓ اپنے بیٹے اور شوہر کے بغیر گذرا، وہ روزانہ صبح کے وقت گھر سے نکلتیں اور ایک ٹیلے پر بیٹھ کر رویا کرتی تھی، گویا دین کی خاطر حضرت امّ سلمہؓ نے یہ تکالیف برداشت کی ہے ۔

                حضرت عروۃ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کی صاحبزادی حضرت زینتؓ کو کنا نہ یا ابن کنانہ مکہ سے لے کر چلے قریش مکہ ان کی تلاش میں نکلے راستہ میں انہیں روک لیا ، ایک شخص نے اپنا نیزہ ان کے اونٹ کو مارتا رہا ،حضرت زینبؓ اونٹ سے نیچے گر پڑی ، جس کے وجہ سے ان کا حمل ساقط ہوچکا اور خون بہنے لگا ، لوگ انہیں ابو سفیانؓ کے پاس لے گئے ،ابو سفیانؓ ان کو عورتوں کے حوالے کردئے ، پھر کچھ عرصہ بعد حضرت زینتؓ ہجرت کرکے مدینہ آئیں اور مسلسل بیمار رہنے لگیں ، اس بیماری میں ان کا انتقال ہوگیا، سب مسلمان انہیں شہید سمجھتے تھے ، حضور انور ﷺ ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ میری بیٹیوں میں سے یہ سب سے اچھی بیٹی ہے جسے میری وجہ سے بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی  ۔

                ایک دن آپ ﷺ بنی مخزوم کے محلے سے گزرے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ کفار قریش نے ایک بوڑھی عورت کولوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں زمین پر لٹا رکھا ہے ، اور پاس کھڑے ہو کر قہقہے لگارہے ہیں ، ساتھ ہی اس مظلوم خاتون سے کہہ رہے ہیں کہ محمدؐ کا دین قبول کرنے کا مزہ چکھو، اس مظلوم خاتو ن کی بے بسی دیکھ کر خصور ﷺ آبدیدہ ہوگئے اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’ صبر کرو تمہارا ٹھکانہ جنت ہے ’’ یہ خاتون جنہیں جنت کی بشارت دی گئی حضرت سمیہؓ بنت خباط ہے ، جس کے تمام گھرانے پر قریش کا عتاب نازل ہوا ان کے شوہر یاسرؓ اور بیٹے عبداللہؓ کفار کے اذیتوں کی تاب نہ لا کر واصل جنت ہوئے ادھر بوڑھی سمیہؓ اور ان کے بیٹے عمارؓ ہر طرح کی مصیبتوں سے آزمایا گیا ، ایک مرتبہ ابوجہل عضبناک ہوکر حضرت سمیہؓ پر نیزہ سے وار کیا جو جسم کے آر پار ہوگیا وہ اسی وقت اسلام کی پہلی شہید خاتون کے بلند مرتبہ پر فائز ہوکر جان جانِ آفریں کے سپرد کیا۔

                نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد حضور انور ﷺ نے دین حق کی دعوت کا کام شروع کیا ، حالات اور مصلحت کے تقاضوں کے پیش نظر ابتداء میں یہ کام نہایت راز داری سے کیا گیا ، خفیہ دعوت و تبلیغ کا یہ سلسلہ پورے تین سال تک جاری رہا ، اس عرصہ میں اس تحریک کو ۱۳۳ جانباز اور وفاشعار کارکن اور مدد گار ملے ، ان میں 26خواتین بھی تھیں جو ہر قسم کے خطرات سے بے پرواہ ہو کر حق و صداقت کا ساتھ دینے کے لئے تیا ر ہوگئی تھیں ۔

                جو ں جوں دین اسلام کا غلبہ ہونے لگا، لوگ اسلام کی طرف مائل ہونے لگے تو کفّار و مشرکین کی طرف سے مخالفت و مزاحمت ، عناد و دشمنی کا ایک طوفان پوری شدت سے مکہ کے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، ایمان و اسلام کی دولت حاصل کرنے والوں کے لئے ظلم و ستم کے نئے نئے طریقے ایجاد ہونے لگے ، غلاموں اور باندیوں کی داستان تو الگ ہے ، بڑے بڑے شریف گھرانوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ظلم و ستم کے عذاب کی اس چکی میں پیسے جانے لگے ؛مگر یہ حق کا نشہ تھا کہ ہر تکلیف و اذیت ہر سختی او ر تنگی اس نشے کو اور تیز کرتی گئی ،ابتلاو آزمائش کے اس دور میں جہاں مردوں نے بے پایاں ثابت قدمی کا ثبوت دیا وہیں خواتین بھی اس امتحان میں ان سے پیچھے نہ رہیں ۔

                تین سال کے بعد دعوت و تبلیغ کا کا م کھلم کھلا شروع ہوا ، اس کے ساتھ ہی باطل کے پرستاروں کی طرف سے مزاحمت بھی شدت سے ہونے لگی ، یہاں تک کہ اللہ کا نا م لینے والوں پر مکہ کی زمین تنگ ہوگئی ، آخر کار مجبور ہو کر اپنے رسول ؐکی اجازت سے کچھ بلند ہمت افراد اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے مکہ کو خیر آباد کہہ کر حبشہ کی طرف جانے کے لئے نکلے ، اس قافلے میں اگر مرد گیارہ تھے تو اس پُر صعوبت سفر کی سختیاں برداشت کرنے والوں میں چار خواتین بھی تھیں ، جنہوں نے خدا کی خاطر اپنے وطن کی تمام آسائشوں اور سہولتوں کو چھوڑدیا تھا ،نبوت کے چھٹے سال جب ہجرت کے ارادے سے اپنے شہر سے دوسرا قافلہ نکلا تو اس میں اگرمرد 80 تھے تو 19 خواتین بھی ان کی شریک ِ سفر تھیں ، ان ہجرت کرنیوالی خواتین کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں کوئی عمر رسیدہ یا باندی شامل نہ تھی ، بلکہ سب کی سب نو عمر اور معزز قبیلوں اور خاندانوں کی بہو بیٹیاں تھیں ، ان میں رسول اللہ ﷺ کی بیٹی سیدہ رقیہ ؓ ، قریش کے سردار ابو سفیانؓ کی بیٹی ام حبیبہ ؓ ، اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل کی چچازاد بہن ام سلمہؓ ، بنی ہاشم سے اسماء بنت عمیسؓ بنی امیّہ سے فاطمہ بنت صفوانؓ اور عمینہ بنت حلفؓ ، بنی خزاعہ سے ام حرملہ بنت عبدالاسود ؓ، بنی سہم سے رملہ بنت ابی عوف ؓ، بنی تیم سے ریطہ بنت الحارثؓ ، بنی عدی سے لیلٰی بنت ابی حمنہؓجیسی معزز ، شریف اور باحیثیت خواتین بھی مہاجرین کے ان قافلوں میں شامل تھیں ، اس ہجرت نے قریش کے تمام سرداروں اور مکہ کے پورے معاشرے کو ہلاکر رکھ دیا ، کسی کی بیٹی گئی تھی تو کسی کی بہن ،ہر ایک یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ آخر اس نئے دین میں ایسی کیا خوبی اور کشش ہے کہ ان کی اولاد اور ان کی بہو بیٹیاں اپنے گھر اپنے شہر اور اپنے قبیلے اور خاندان کی محبت کو قربان کرکے جلاوطنی کی ذلتیں ، مصیبتیں قبول کرنے پر تیار ہوگئے ہیں ، اسی سوچ نے اکثر کو ایسا متأثر کردیا کہ آخر کار وہ حلقۂ اسلام میں داخل ہوکر رہے ۔

                حضرت امّ شریکؓ دومیہ نے دعوتِ حق کے ابتدائی دور ہی میں اسلام قبول کرلیا ، ان کے اسلام لانے کے جرم میں ان کے مشرک رشتہ داروں نے انہیں دھوپ میں کھڑاکردیا ، اور اس حالت میں انہیں روٹی کے ساتھ شہد کھلاتے تھے جس کی تاثیر سخت گرم ہوتی ہے ، پانی پلانا بند کردیا ، جب اس طرح تین دن گزرگئے تو مشرکین نے کہا کہ جو دین تم نے اختیار کیا ہے اُسے چھوڑدو ، تین دن تین رات کی مصیبت سے بد حواس ہوگئی تھی ، لیکن مشرکین کی یہ بات سن کر پوری ہمت و جرأ ت کے ساتھ فوراً بولیں : خدا کی قسم! ’’میں تو خدا کی توحید کے عقیدے پرہی قائم ہوں ‘‘حضرت امّ شریک نے خود ہی اسلام قبول نہیں کیا بلکہ پوری سرگرمی سے قریش کی عورتوں میں اس کی تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کردیا جس پر قریش کے لوگوں نے انہیں مکہ سے نکال دیا لیکن وہ اپنے دین اور عقیدہ پر بڑی مضبوطی سے قائم رہیں۔

                ایک اور انصاری صحابیہ امّ عمارۃؓنے جنگ احد میں مردوں کی طرح ثابت قدمی اور بے باکی کا مظاہر کیا ، سعد ابن ربیع کی صاحبزادی امّ سعد نے امّ عمارۃؓ سے ان کے کارناموں کے بارے میں دریافت کیا ، انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ُاحد کے دن صبح ہی سے مجاہدین کی خدمت کے لئے میدان میں پہنچ گئی تھی ایک موقع ایسا بھی آیا کہ جب لوگ افراتفری میں بھاگنے لگے اس وقت میں رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچ کر آپﷺ کے دفاع میں تیر اور تلوار چلانے لگی یہا ں تک کہ دشمن کی تلوار کا ایک وار میرے کندھے پر لگا جس کی وجہ سے کندھا زخمی ہوگیا تھا ، امّ سعدکہتی ہیں کہ میں نے ان کے کندھے پر بہت سارے زخم کے نشان دیکھے ، امّ عمارۃؓکہتی ہیں کہ تلوار کا یہ وار ابن قمئیہ نے کیا اس نے مسلمانوں کی شکست کو دیکھ کر آپﷺ پر حملہ کرنے کے لئے قریب آیا اس وقت میں اور مصعب ابن عمیرؓ اور چند دوسرے اصحاب نے اس کا جم کر مقابلہ کیا ، میں نے بھی اس پر بہت وار کئے ؛ لیکن وہ دودو زرہیں پہنا ہواتھا ،اس نیک دل اور بہادر صحابیہ کے بارے میں خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دائیں بائیں جس طرف میںنے دیکھا امّ عمارۃؓ کو میری مدافعت میں لڑتے ہوئے پایا ، اس دن کی جرأ ت و ثابت قدمی کو دیکھ کر آپﷺ نے فرمایا کہ آج امّ عمارۃؓ کی ہمت و جرأت اور ثابت قدمی فلاں فلاں سے بہتر رہی ہے ( طبقات ابن سعد 8/311۔315)

                ان تمام واقعات سے اتنا تو پتہ چلتاہے کہ خواتین نے دین کے لیے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں، مصیبتیں سہی ہیں، اللہ کے دین کی سربلندی کےلئے تکالیف برداشت کرتے ہوئے محاذِجنگ پر بھی مختلف خدمات انجام دی ہیں، حق کی نصرت و حمایت میں بے خوف و خطر جدّوجہد کی ہیں۔

                آج پوری دنیا میں خصوصا ہندوستان میں اسلام دشمن طاقتیںدین کو مٹانے اور کمزور کرنے کے درپے ہیں،وہ یہ چاہتے ہیںکہ دین محمدی دنیا سے نیست و نابود ہوجائےگمراہی اور باطل کا وراج ہو ، اس کے لئے وہ اسلام اورمسلمانوں پر راست حملہ کئے ، کبھی قرآن پر تو کبھی رسول ﷺ اور کبھی اسلام پر تو کبھی احکام اسلام نکاح ، طلاق ، خلع ،حلالہ ،ہبہ، وراثت ،پر بے جا اعتراضات کئے ہیں اور انہیں ناقص اور نامناسب بتلایا گیاہے ،آج پورے ہندوستان میں حکومتی سطح پر اسلام دشمنی مظاہر کیا جارہا ہے ،اور احکام ِ اسلام میں تبدیلی کی باتیں کی جارہی ہے، اور اس کے لئے ایسی خواتین کو ذریعہ بنایا جارہا ہے جو اسلامی تعلیمات سے بالکل ناواقف ہیں اورجو دین کی روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں ، ایسے وقت میں ہم تمام خصوصا خواتین یہ عہد کریںاورباطل طاقتوں کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے یہ کہے ’’رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا‘‘میں اللہ کے رب ہونے پر اور محمدﷺ کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں ، حقیقت یہ ہےکہ آج مسلم خواتین کو امہات المومین ؓکی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے اور ان کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے،اور اللہ کے احکامات کو بجا لانے کو اپنے لیے فخر کا باعث سمجھنا چاہئے،کیونکہ ایسی ہی خواتین دنیا و آخرت کامیاب ہوتی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔