نتائج پر مبنی تعلیم سے بدلے گی تصویر

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

شاید ہی کوئی ہوگا جو تعلیم کی اہمیت سے واقف نہ ہو۔ گاؤں، دیہات اور قصبات میں بھی بچے، بچیاں اسکول، مدرسہ جا رہے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے اداروں میں بچوں کا اندراج سو فیصد ہو رہا ہے۔ لیکن ان میں سے ایک تہائی بچے ہی ہائی اسکول تک پہنچ پاتے ہیں۔ مسلمانوں کی حالت اور زیادہ خراب ہے۔ اس کی بڑی وجہ ارلی چائلڈ ایجوکیشن پر دھیان نہ دینا ہے۔ جبکہ اس عمر میں بچوں کو اسکول جانے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ ان میں سیکھنے کی طلب پیدا کی جاتی ہے۔ اور ان کی لائف اسکل ایجوکیشن پر دھیان دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ انہی ابتدائی ایام میں بچوں کے دماغ کی نشونما ہوتی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جن بچوں کی ارلی چائلڈ ایجوکیشنل اچھی ہوتی ہے، وہ آگے چل کر دوسرے بچوں کے مقابلہ 25 فیصد زیادہ آمدنی کرنے والے ہوتے ہیں۔

تعلیم تین اجزاء پر مشتمل ہے، آرٹ آف ایکسلریشن – یعنی بات کہنے کا ہنر، آرٹ آف ارننگ – روزی کمانے کا طریقہ، آرٹ آف لیونگ – زندگی گزارنے کا سلیقہ۔ اس لحاظ سے تعلیم آئندہ زندگی سے سیدھا تعلق رکھتی ہے۔ جو تعلیم حاصل نہیں کرتے، انہیں زندگی گزارنے کیلئے چھوٹے موٹے کام جیسے رکشہ چلاتا، پنچر لگانا، گاڑیاں سدھارنا، ٹھیلہ کھینچنا، پھیری کرنا، سبزی فروخت کرنا، پھل فروٹ کا ٹھیلہ لگانا وغیرہ کرنے پڑتے ہیں۔ تعلیم میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے مسلمان بڑی تعداد میں ان کاموں سے منسلک نظر آتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں غربت، بیماری اور عدم غذائیت سماج کا مقدر بن گئی ہے۔ سچر کمیٹی کی مانیں تو مسلمان دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں۔

 سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد مسلمان تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ خواندگی میں اضافہ ہوا، نئے تعلیمی ادارے بھی قائم ہوئے لیکن معیاری تعلیم اب بھی چیلنج ہے۔ اس لئے معیاری تعلیم کی بات کرنے اور اس طرف دھیان دلانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ تعلیمی اداروں میں وہ تعلیم نہیں مل پا رہی جو بچوں کو چاہئے۔ پرتھم کی رپورٹ کے مطابق آٹھویں جماعت کے بچے تیسری کلاس کی اپنی ہی زبان کی کتاب نہیں پڑھ سکتے۔ سبق سے متعلق سوالات کا جواب دینا تو دور انہیں معمولی جمع، نفی، ضرب اور تقسیم کے آسان سوالوں کو حل کرنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ حق تعلیم قانون سے جہاں ایک طرف اسکول تک رسائی میں آسانی ہوئی ہے، وہیں آٹھویں جماعت تک کسی کو فیل نہ کرنے سے تعلیم کے معیار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بچے نویں اور دسویں جماعت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ اس کی وجہ سے بیچ میں پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سطح پر ڈراپ آؤٹ کو روکنے کیلئے ایجوکیشنل آئی سی یو بنانے کی ضرورت ہے۔ جہاں کمزور بچوں کو دو تین ماہ رکھ کر پڑھائی کے دوران آنے والی ان کی پریشانیوں کو دور کیا جائے۔ اس سے تعلیم کے معیار میں بہتری آ سکتی ہے۔

یہ مقابلہ کا دور ہے۔ سرٹیفکٹ اور نمبرات کی اہمیت بس مقابلہ میں شریک ہونے تک ہے۔ کامیابی کیلئے صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں آپس میں بھی مقابلہ ہے۔ معیار، رینک اور پلیس منٹ کو لے کر۔ مقابلہ کے بغیر کسی کورس میں داخلہ تک نہیں ملتا۔ سب کی نظر ادارے کی پرفارمنس پر ہوتی ہے کیونکہ اس سے بچوں کا مستقبل جڑا ہوتا ہے۔ لوگ انہیں اداروں کا رخ کرتے ہیں جن کی پرفارمنس اچھی ہوتی ہے۔ مسلم اسکول کالجوں کو اس طرف خاص توجہ دینی ہوگی۔ عام طور پر مسلمانوں کے درمیان ان کے ساتھ تعصب برتے جانے کی باتیں سنائی دیتی ہیں۔ موجودہ حالات میں اسے سرے سے خارج نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر آپ نمبر ایک ہوں گے تو کوئی آپ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ سچائی یہ ہے کہ سائنس ہو یا ٹیکنالوجی، فلم ہو یا موسیقی، کھیل ہو یا سماجی خدمت، قانون ہو یا سیاست، فوج ہو یا سول سروس جس میدان میں بھی کسی مسلمان کو اپنا جوہر دکھانے کا موقع ملا اس نے وہاں ریکارڈ قائم کیا ہے۔ جب حالات سخت ہوتے ہیں تو اور زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ قوم کو ایکسی لینس پر فوکس کرنا ہوگا، دنیا لینے والے کے مقابلہ دینے والے کی قدر کرتی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو کنٹری بیوٹر بننا ہوگا۔ جب تک وہ سماج کیلئے مفید تھے، دنیا نے انہیں اپنا امام بنا کر رکھا۔

 یہ تاثرات 7 سے 14 اکتوبر کے درمیان یوپی اور اتراکھنڈ کے مختلف اضلاع میں نکالے گئے تعلیمی کارواں کے دوران سامنے آئے۔ کارواں یوپی رابطہ کمیٹی بہ اشتراک سید حامد فاؤنڈیشن نکالا گیا تھا۔ اس میں ماہر تعلیم، تعلیمی و سماجی کارکن، علماء و دانشور، ڈاکٹر، بیوروکریٹ، وکیل اور صحافی شریک تھے۔ کارواں جہاں گیا، وہاں کے حضرات نے معیاری تعلیم کے حصول اور مقامی مسائل پر بات کی۔ اسکولوں کے ذمہ داران نے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے بارے میں مشورے کئے۔ گفتگو کے دوران کارواں کے ممبران نے تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ والدین کو جوڑنے، علاقہ میں اسٹڈی سرکل یا لائبریری قائم کرنے پر زور دیا۔ تعلیم کا ماحول اور کتابوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے صلاحیت ہونے کے باوجود بچے پڑھائی میں اچھا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ کارواں کے ممبران کہنا تھا کہ تعلیم اسکول کی چاردیواری تک محدود نہیں، اسے سماجی مراسم کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ یہ سیکولر ہو اور اقدار کو فروغ دینے والی ہو۔ اس کام میں اساتذہ کا رول بہت اہم ہے۔ انہیں اسکول کے بعد ان طبقات تک جانا چاہئے جن کے بچے اسکول نہیں آرہے۔ اس طرح گزری ہوئی نسلوں کا قرض ہم اتار سکتے ہیں۔ ان کے ذریعہ مہیا کی گئی سہولیات کی وجہ سے ہم تعلیم حاصل کر سکے۔ اب ہمیں آنے والی نسلوں کے لئے بہتر سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔ اساتذہ سماج کیلئے نوڈل افسر کے طور پر کام کریں گے تو سماج میں اچھی سوچ پیدا ہوگی۔ اس کے ذریعہ نفرت، تعصب، فرقہ واریت میں کمی آئے گی اور نا انصافی دور ہوگی۔

مسلمان دینی و دنیاوی تعلیم کو لے کر کنفیوژ ہیں۔ جبکہ علم کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ علم اور عمل کے ملنے سے ہی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ شاید اسی لئے علم نافع کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسلمانوں میں سول سوسائٹی، تعلیم نسواں اور تعلیم بالغان کی بھی کمی ہے۔ اس کو دور کرنے کیلئے پانچ گنا محنت درکار ہے۔ ایک بچہ کے پڑھنے سے ایک گھر بدلتا ہے جبکہ بچی کے تعلیم یافتہ ہونے سے ایک خاندان سدھر جاتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بچوں کو ریاضی اور سائنس پڑھانے پر بہت زور دیا جاتا ہے، بغیر یہ جانے کہ بچہ کیا پڑھنا چاہتا ہے۔ اگر بچہ ادیب، شاعر، صحافی، قانون داں، سول سروس، پولیس فورس، موسیقی کار، اداکار، آرٹسٹ، فنکار یا کھلاڑی وغیرہ بننا چاہتا ہے تو اسے سائنس یا ریاضی کی کیا ضرورت ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو نتائج پر مبنی تعلیم دی جائے تبھی سماج کی تصویر بدلے گی اور سول سوسائٹی وجود میں آئے گی۔ آج ملک کو اس کی بہت ضرورت ہے، وشو گرو بننا ہے تو نتائج پر مبنی معیاری تعلیم کو فروغ دینا ہی ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔