نجیب کی گمشدگی، سسٹم پر سوالیہ نشان

جمہوریت سے ختم ہوتا اعتماد

مہدی حسن عینی  قاسمی

اپنے سیکولر نظام کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک الگ ہی مقام رکھتا ہے. دراصل یہ یونیورسٹی اپنے پہلے ہی دن سے منفرد  نظریات  کی وجہ سے عوام و خواص سببھی  میں مقبول ہے. اس یونیورسٹی کے قیام کا مقصد صرف تعلیم سے لیس کرنا ہی نہیں تھا بلکہ معاشرے کو ظلم اور ناانصافی سے نجات دلانا بھی ہے. سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر ہمیشہ اس دانش گاہ کے طلبا نے اپنی سماجی یکجہتی اور کثرت میں وحدت والی سوچ کو پروان چڑھایا ہے. اس اتحاد و اتفاق، بھائی چارے اور محبت اور باہمی اخوت کو وہ تمام لوگ  محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے جے، این، یو کے سیکولر فضا میں اپنی زندگی کے چند لمحے بھی بتائیے ہوں، اس یونیورسٹی نے نہ جانے کتنے ایسے مسیحا پیدا کئے ہیں جنہوں نے  ملکی  عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے  ساتھ ساتھ عالمی سطح پر مظلوموں اور بے بس لوگوں کی مدد کی ہے،

لیکن ان دنوں جے.این.یو  مرکزی حکومت کی تنگ نظری اور سوتیلے رویہ  کا شکار ہے، حکومت جے.این.یو کو ہر سطح پر بیک فٹ پر دھکیلنا چاہ رہی ہے، کنہیا، اور عمر خالد والے  معاملے کو چند منٹ میں پاکستان سے جوڑنے والے وزیر داخلہ کے اپنے  ہولڈ والے اسٹیٹ  اور ملک کے دارالحکومت دہلی کےمیں واقع اس عظیم ادارے سے غائب ہونے والے طالب علم نجیب کو لے کر نہ تو مرکزی حکومت اب تک سنجیدہ ہے اور نہ ہی وزارت داخلہ کو اس کی کوئی فکر ہے،13 دن سے غائب نجیب جس کو ABVP  کے غنڈوں نے مار مار کر نیم مردہ کر دیا تھا وہ نجیب آج تک نہیں ملا، نجیب کی ماں گزشتہ 13 دنوں سے اپنے بچے   بچے کی بھیک مانگ رہی ہے،  یہاں وہاں کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔

اس پورے معاملے کو لے کر نہ جے، این، یو کی ایڈمنیسٹریشن سنجیدہ ہے اور نہ ہی حکومت سنجیدہ ہے. اب نجیب کا کیا ہوگا؟ جو غنڈے ہیں وہ جے، این، یو میں سرعام گھوم رہے ہیں اور اپنے آقا یعنی جے، این، یو انتظامیہ کی چاپلوسی کر رہے ہیں. نہ ان غنڈوں اور ان کے آقائوں کی گرفتاری ہوئی ہے اور نہ ہی پولیس کوئی کارروائی کر رہی ہے. اس مصیبت کے وقت میں آخر نجیب کا خاندان کہاں جائے؟  کس سے فریاد کرے؟ کس کے سامنے اپنے بیٹے کی دہائی دے ،؟

نجیب کا تعلق یوپی کے ایک ضلع بدایوں سے ہے. وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے. اس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا داخلہ  امتحان پاس کیا لیکن جے این یو میں نام آنے کے بعد اس نے  یہیں سے "ایم ایس سی بائیو ٹکنالوجی” کرنے کا فیصلہ کر لیا: وہ جے این یو کے ہاسٹل ‘ماہی مانڈو” میں رہتا تھا- وہ کبھی کسی جرم میں شامل نہیں رہا، ایم.ایس.سي بائیو ٹکنالوجی کوئی معمولی کورس نہیں ہے بلکہ وہاں تک پہنچنے کے لئے غیر معمولی محنت کرنی پڑتی ہے جو نجیب نے کی-J.N.U میں بايوٹیكنالوجی کی صرف 20 نشستیں ہیں، نجیب کسی کے کوٹے سے یا سفارش سے نہیں اپنی محنت اور لگن سے یہاں تک پہنچا تھا، اس نے اتنے اہم کورس کی تکمیل کے لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو خیر آباد  کہہ کر جے این یو میں داخلہ لیا تو اس کے سامنے کوئی اہم مقصد ضرور رہا ہوگا وہ مستقبل میں ملک اور قوم کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو سکتا تھا، شاید ہندوتو وادی شدت پسند تنظیم ABVP کے غنڈوں کو نجیب کا کامیاب مستقبل چبھنے لگا تھا،

ان کی متشدد تربیت نے انہیں اس بات پر مجبور کردیا تھا کہ مسلم قوم کے اس ابھرتے ہوئے ستارے کو افق عالم پر نمودار ہونے سے پہلے ہی بھجادینا ہی ہندوتو کی تعلیم ہے. نجیب احمد کا معاملہ معمولی نہیں ہے، ایک بین الاقوامی  یونیورسٹی سے ایک طالب علم کا 13 دنوں سے غائب رہنا بہت  سارے سوال اٹھاتا ہے، اسکول انتظامیہ کو پتہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ مارپیٹ کرنے والے کون لوگ ہیں لیکن انتظامیہ اور حکومت ان غنڈوں کے سامنے بے بس ہے- اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ انتظامیہ اور حکومت میں قانون اور انصاف نام کی کوئی بات نہیں ہے- اس جمہوری ملک میں مسلمانوں کے مسائل سے کسی کو فائدہ نہیں ہے- اس سے پہلے اسی یونیورسٹی میں کنہیا کمار کا معاملہ ہوا تھا جسے عالمی سطح کی خبر بنانے کے لئے میڈیا، دانشور، غیر سرکاری تنظیموں، مسلم علماء اور مسلم تنظیموں نے بھی بینر لگا کر پروگرام کر کنہیا کی حمایت کی تھی لیکن آج سب لوگ خاموش ہیں، کوئی بولنے کے لئے تیار نہیں ہے… نیتاؤوں کے کھانے سے لے کر سونے تک کو بریکنگ نیوز بنانے والی میڈیا کو بھی ابھی تک نجیب کی ماں کی فریاد نہیں سنائی دی ہے. نجیب احمد کے معاملے میں حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور یہاں کی اینٹلی جینس ایجنسیاں جو کچھ ہی منٹوں میں ایک دھماکے کے بعد دہشت گردوں کا پتہ لگا لیتی ہے اور جے این یو کی تقریر میں غیر ملکی شخص کی سوچ کا بھی پتہ لگا لیتی ہیں وہ بھی بے بس ہیں. دہلی پولیس کی حالت یہ ہے کہ اسے یہ پتہ رہتا ہے کہ کس گلی میں کس عمارت میں نیا منزل بننے والا ہے اور وہاں پہنچ کر مکان مالک سے پیسے لے کر رشوت لے کر اپنا حرام کا پیٹ پالتی ہے لیکن جب ملک کے ایک بڑے یونیورسٹی سے  اعلی تعلیم حاصل کرنے والا ایک طالب علم غائب ہو جاتا ہے. تو یہی تیز طرار دہلی پولیس بلیٹ  پروف جیکٹ پہن کر نجیب کے لیے آواز اٹھانے والے لڑکوں اور لڑکیوں پر لاٹھی چارج کرکے اپنی بہادری کا لوہا منوانا چاہتی ہے، اب تو نجیب کی ماں بھی نا امید ہو چکی ہے، ان کے آنسو خشک ہو چکے ہیں.بات بات پر ٹویٹ کرنے والے، مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں لیپ ٹاپ، دوسرے میں قرآن دیکھنے کی خواہش رکھنے والے وزیر اعظم سمیت ان کا مکمل سسٹم  اپاہج ہو چکا ہے،وزیر داخلہ نے ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ مذمت تک کرنا گوارا نہیں کیا ہے.

اب تو نجیب ملے یا نہ ملے، اگر نجیب کی ماں کی آہیں، لگ گئیں تو  ABVP کی آقا بی جے کی چولیں ہل جائینگی،کیونکہ مظلوم و مضطر  اور اس کے رب کے بیچ کوئی حجاب نہیں ہوتا. اس لیے اب بھی وقت ہے، نجیب کو جنگی پیمانہ  پر تلاش کرنے اور اس کی ماں کو تحفظ دینے کی،ساتھ ہی ABVP جیسی دہشت گرد تنظیم کو پورے ملک میں بین کرنے کی۔ آر.ایس.ایس کی اس فرقہ پرست متشدد ونگ نے عصری دانش گاہوں کو  گنگاجمنی تہذیب و ہم آہنگی کے کلچر سے محروم  کرکے انہیں نفرت کی آگ میں جھونکنے کی مہم چھیڑ رکھی ہے.

اور اس کے لئے مسلم تنظیموں،جماعتوں اور نمائندہ قیادت کو کھل کر میدان میں آنا ہوگا. کانفرنس  و اجلاس نا کرکے ملکی سطح پر دباؤ بنانا ہوگا.کیونکہ اگر یونہی قوم کے باصلاحیت و TALENTED  بچوں کو تباہ و برباد کرنے کی سازش چلتی رہی تو یاد رکھئے وہ دن آئے گا کہ مسلمانان ھند کو صرف اس لئے دوسرے درجہ کا شہری بنادیا جائے گا کیونکہ ہم پر غیر تعلیم یافتہ،غیر مہذب قوم کا ٹھپہ لگا ہوگا.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔