اسلام کے عائلی قانون (مسلم پرسنل لاء) کی حفاظت ضروری ہے

مگر حفاظت کا بہترین طریقہ ہے کہ ہم قرآن و حدیث کے مطابق عمل کریں اور دنیا کو کرائیں

عبدالعزیز

مخالفت اور مزاحمت انسانی زندگی کا حصہ ہے جس طرح موافقت اور حمایت حصہ ہے لیکن دونوں صفتیں یا خصلتیں ایسی ہیں کہ اگر سوچ سمجھ کر نہ کی جائیں، ہوش اور حواس سے کام نہ لیا جائے بلکہ صرف جوش اور جذبہ سے کام لیا جائے تو بڑی سی بڑی حقیقت کو پس پشت ڈال دی جاتی ہے، جس سے نقصانات زیادہ فائدے کم ہوتے ہیں۔
شاہ بانو کو اس کے شوہر نے ضعیف العمری میں تین طلاق دے دی تھی، اس نے سپریم کورٹ میں نان و نفقہ کیلئے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ شاہ بانو کے حق میں دیا کہ ہندستان کے دستور کی دفعہ 125 کے مطابق نان و نفقہ (Maintenace) دینا ہوگا۔ چیف جسٹس چندرا چند نے اپنے فیصلہ نامہ کے خلاف کئی ایسے ریمارکس بغیر سوچے سمجھے دے دیا جو انتہائی قابل اعتراض اور غیر ضروری تھے۔ جیسے یہ لکھ دیا کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق مردوں کے برابر نہیں ہیں بلکہ اسلام عورتوں کے حق کے معاملہ میں بہت پیچھے ہے اور بعض علماء کے بیانات کے حوالہ سے اپنے ریمارک کو بطور دلیل پیش کیا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے فیصلہ کے خلاف مہم چلائی اور زبردست مہم چلائی۔ اس مہم میں مغربی بنگال کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جو ایکشن کمیٹی بنائی گئی تھی، اس کا راقم بھی ممبر تھا۔ میں نے بغیر کسی خوف و خطر کے اس میں حصہ لیا قول و عمل، تحریر و تقریر سے حمایت کی اس وقت جو مسلمان کانگریس سی پی ایم میں تھے وہ پرسنل لا بورڈ کی مخالفت کر رہے تھے کیونکہ کانگریس اور سی پی ایم دونوں بورڈ کی مہم کے خلاف تھیں روزنامہ ’اقرا‘ کے سوا اردو اخبارات بھی خلاف تھے۔مغربی بنگال میں سب ریاستوں سے زیادہ کامیاب ہوئی اور پورے ملک پر اس کا اثر پڑا۔ کانگریس کی قیادت وزیر اعظم راجیوگاندھی کر رہے تھے وہ بھی بدل گئے۔ بالآخر راجیو گاندھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم کرنے کیلئے آرڈیننس پاس کروایا اور پھر مسلم مطلقہ خواتین بل پارلیمنٹ میں پیش کرکے ایک ایسا قانون بنایا جس نے مسلم مطلقہ عورتوں کے نان و نفقہ کے قانون کو ختم کر دیا۔ ایسی مسلم مطلقہ عورتوں کو ان کے متعلقین کو نان و نفقہ دینے کی بات کہی گئی اور اگر متعلقین نہ دیں تو وقف بورڈ سے ان کو زندگی گزارنے کیلئے وظیفہ کی بات لکھی گئی۔ بل کے اندر جان بوجھ کر اس وقت کے وزیر قانون اشوک سین نے ایسی خامیاں شامل کردی تھیں کہ عدالتوں کے جج صاحبان ان خامیوں کا فائدہ اٹھا کر وہی فیصلہ پہلے کے قانون کے مطابق دیتے ہیں جو دیگر مذاہب کی مطلقہ خواتین کے حق میں دیتے ہیں۔ چند ہی خواتین ایسی ہوتی ہیں جو مطلقہ ہوجانے کے بعد اپنے شوہر سے نان و نفقہ کا مطالبہ نہیں کرتیں۔
شاہ بانو کے مقدمہ کے فیصلہ کے خلاف جو مہم چلائی گئی مسلم عورتوں اور مردوں نے برابر حصہ لیا مگر عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں خاص طور سے مطلقہ خواتین کے حقوق کے سلسلہ میں بورڈ نے کچھ غور و فکر کیا اور نہ ہی طلاق کے غلط استعمال پر کسی قم کی روک لگانے کیلئے تدبیریں کیں، اس کا نتیجہ کیا ہوا۔ قانون تو ضرور پاس ہوگیا مگر اس قانون کے مطابق شاذ و نادر ہی کوئی جج یا مجسٹریٹ فیصلہ دیتا ہے اور مسلم مطلقہ میں بھی دو چار فیصد سے زیادہ مشکل ہی سے مطلقہ خواتین ہوں گی جو نان و نفقہ کیلئے عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹاتی ہوں۔ مسلم معاشرہ کی حالت یہ ہے کہ جو شوہر یا گھر والے عورتوں پر ظلم ڈھاتے ہیں ،اس پر معاشرہ یا تو خاموش تماشائی بنا رہتا ہے یا زیادہ تر افراد ظالم کے ساتھ ہوتے ہیں اور مظلوم کیلئے بہت کم بلکہ اِکا دکا آواز ابھرتی۔ صورت حال کو کیسے اور کیونکر بدلا جاسکتا ہے اس پر بورڈ خاموش ہے، اس کی کوئی سرگرمیاں نہیں۔ بسا اوقات شوہر اور اس کے گھر والے بھی ظلم کے شکار ہوتے ہیں۔ ان کیلئے کم ہی لوگ سامنے آتے ہیں۔
معاشرہ کے بگاڑ کی وجہ سے لڑکی یا اس کے گھر والے شادی کے وقت بھی بھاری رقم یا سامان دینے پر مجبور ہوتے ہیں وہ سارا سامان لڑکے کے گھر میں ہوتا ہے۔ لڑکا یا اس کے سرپرست یا والدین جہیز کی بھاری رقم لے چکے ہوتے ہیں۔ جب شوہر اپنی بیوی سے ناراض ہوتا ہے تو وہ نہ شریعت کے قانون کا لحاظ کرتا ہے اور نہ ملکی قانون کا پاس کرتا ہے اس طرح کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی لڑکی والے بھی دولت یا اپنے اثر و رسوخ اور ذرائع سے لڑکے یا گھر والوں پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں ایسے واقعات کم ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ لڑکی والے آخری وقت تک حالات کو سدھارنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ پولس یا عدالت کا سہارا بدرجہ مجبوری لیتے ہیں کیونکہ لڑکی کی پہلی شادی ہی بڑی مشکلات کے بعد ہوتی ہے، دوسری شادی تو انتہائی مشکل ترین ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس لڑکے کی دوسری شادی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں بنتا۔
نہ اس پر علماء کرام غور و فکر سے کام لے رہے ہیں، نہ بورڈ کو اس کی فکر ہے۔ مسلم جماعتوں کے اندر بھی اس طرح کی چیزوں پر بحث نہیں کے برابر ہے، بس اکا دکا سماجی کارکن (Activist) مظلوموں کی داد رسی کیلئے آگے آتے ہیں۔ اس وقت بھی عورتوں کے ہی مسئلہ پر بحث چھڑی ہوئی ہے جو لوگ عورتوں کی ہمدردی کیلئے سامنے آئے ہیں وہ حقیقت میں مسلم عورتوں کے ہمدرد نہیں ہیں بلکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور مسلم دشمن حکومت ان کے ساتھ ہوگئی ہے۔ شاہ بانو کے وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی، وہ مسلم دشمن یا اسلام دشمن نہیں تھی جس کی وجہ سے بورڈ کی مہم کامیاب ہوئی۔ یہ دوسری بات ہے کہ بورڈ نے معاشرہ کی اصلاح یا عورتوں کے حقوق کیلئے کوئی بڑی کوشش نہیں کی اور نہ کر رہی ہے۔
اس وقت راجیو گاندھی کی جگہ مودی ہیں، کانگریس پارٹی کی جگہ بھاجپا اور آر ایس ایس ہے۔ عدالت کا رویہ بھی سب کو معلوم ہے۔ ذرائع ابلاغ کا پروپیگنڈہ عروج پر ہے۔ طاقتور میڈیا بھاجپا یا اس کی حکومت کے زیر اثر ہوگیا ہے۔ کہنا یہ چاہئے کہ ماحول اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے ،عدالت کی کرسیوں پر جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ پہلے سے طے کرچکے ہیں کہ مسلم عورتوں پر ظلم ہورہا ہے۔ لہٰذا ان کا فیصلہ بھی بورڈ یا مسلمانوں کے حسب خواہ یا حسب منشا نہیں ہوگا۔ حکومت تلی ہوئی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو نیچا دکھایا جائے۔
مہم کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا وہ ہر عاقل شخص کو معلوم ہے۔ حلف نامہ میں جو بورڈ کی طرف سے دلائل دیئے گئے ہیں۔ وہ بھی مضبوط دلائل نہیں ہیں۔ اس میں بھی مسلک کی تنگ نظری شامل ہے اہل حدیث یا شیعہ کے مکتب فکر کا ذکر بھی نہیں کیا گیا ہے جو ججوں کو غور کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقہ میں تین طلاق کی سوچ دوسری ہے، لہٰذا عدالت کو مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بورڈ کی مہم جب اختتام پزیر ہوجائے گی یا مقدمہ کا فیصلہ مہم کے خلاف ہوگا تو مسلمانوں کو بڑی مایوسی ہوگی۔
تقلید یا غیر تقلید: تقلید اور غیر تقلید کی بحث یا جھگڑا کی وجہ سے اجتہاد کا دروازہ قریب قریب بند ہوچکا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے سچ کہا ہے:
’’اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے مختلف فقہی گروہوں میں بے جا حمیت و تعصب پیدا ہوجانے سے بھی اس ذہنی وسعت اور آزادی کو بڑا نقصان پہنچا جو اجتہاد فکر کے نشو و نما کیلئے ضروری تھی۔ اس تعصب کے سبب سے ہر گروہ نے حق کو اپنے اپنے مسلک فقہی کے اندر محصور سمجھ لیا اور اپنے ائمہ و علماء کی اجتہادی رایوں پر ان کے دلائل کی روشنی میں غور کرنا اور ان کے صحیح و سقیم میں امتیاز کرنا بالکل چھوڑ دیا؛ حالانکہ اس طرح کی تحقیق و تنقید کی سب سے زیادہ تاکید ہمارے ان ائمہ ہی نے کی تھی۔ یہ چیز روح اجتہاد کو تازہ رکھنے کیلئے بھی ضروری تھی اور ملت کے اندر اتفاق و اتحاد قائم رکھنے کے نقطۂ نظر سے بھی اس کی بڑی اہمیت تھی لیکن یہ سوال قابل غور ہے کہ اسلامی شریعت کے مزاج کے تقاضوں اور ہمارے بزرگ ائمہ کی نہایت پر زور تاکیدات کے بالکل علی الرغم آخر مسلمانوں کے اندر تقلید کے اس رجحان نے کس طرح جگہ بنالی اور پھر اس طرح جڑ پکڑ لی کہ اب اس کو اس جگہ سے ہلانا محال ہورہا ہے‘‘۔ (اسلامی قانون کی تدوین)
علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ نے اسلامی قانون کی تدوین اور اجتہاد پر ستر اَسی سال پہلے بلکہ اس سے بھی پہلے زور دیا تھا اور ہر زمانے میں اس پر زور دیا جاتا ہے مگر اجتہاد کا دروازہ بند رہتا ہے، یقینا اس میں مسائل بھی ہیں مگر ان مسائل پر بھی قابو پانے کی ضرورت ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے 1935ء میں ’’تطلیقات ثلاثہ در مجلس واحد‘‘ کے مسئلہ کو حل کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی، جب حیدر آباد دکن، بھوپال اور برطانوی ہند میں یہ مسئلہ زور شور کے ساتھ اٹھا تھا کہ مسلمانوں میں ازدواجی معاملات میں جو خرابیاں رائج الوقت قانون کے نقائص کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں ان کو دور کرنے اور شرع اسلامی کے احکام کی صحیح طور پر نافذ کرنے کیلئے کوئی نتیجہ خیز سعی ہونی چاہئے۔
’’بیک وقت تین طلاق دے کر عورت کو جدا کر دینا نصوصِ صریحہ کی بنا پر معصیت ہے۔ علمائے امت کے درمیان اس مسئلے میں جو کچھ اختلاف ہے وہ صرف اس امر میں ہے کہ ایسی تین طلاقیں ایک طلاق رجعی کے حکم میں ہیں۔ یا تین طلاق مغلظ کے حکم میں لیکن اس کے بدعت اور معصیت ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔ سب تسلیم کرتے ہیں کہ یہ فعل اس طریقے کے خلاف ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے طلاق کیلئے مقرر فرمایا ہے اور اس سے شریعت کی مصلحتیں فوت ہوجاتی ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دیں تو حضورؐ غصے میں آخر کھڑے ہوگئے اور فرمایا: أیلعب بکتاب اللہ عز و جل و انابین اظہرکم کیا اللہ عز و جل کی کتاب سے کھیل کیا جاتا ہے، حالانکہ ابھی میں تمہارے درمیان موجود ہوں‘‘۔ بعض دوسری احادیث میں تصریح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو معصیت فرمایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق تو روایات میں یہاں تک آیا ہے کہ جو شخص ان کے پاس مجلس واحدمیں تین طلاق دینے والا آتا تو اس کو درّے لگاتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس فعل پر سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
ہمارے زمانے میں یہ طریقہ عام ہوگیا ہے کہ لوگ فوری جذبے کے تحت اپنی بیویوں کو جھٹ تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں، پھر نادم ہوتے ہیں اور شرعی حیلے تلاش کرتے ہیں۔ کوئی جھوٹی قسمیں کھاکر طلاق سے انکار کرتا ہے، کوئی حلالہ کرانے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی طلاق کو مخفی رکھ کر اپنی بیوی کے ساتھ بہ دستور سابق تعلقات باقی رکھتا ہے۔ اس طرح ایک گناہ کے خمیازے سے بچنے کیلئے متعدد دوسرے گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے، ان خرابیوں کا سد باب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے کر عورت کو جدا کرنے پر ایسی پابندیاں عائد کر دی جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس فعل کا ارتکاب نہ کرسکیں۔ مثال کے طور پر اس کی ایک صورت یہ ہے کہ مطلقہ عورت کو جسے بیک وقت تین طلاقیں دی گئی ہوں، عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا حق دیا جائے اور ہرجانہ کی مقدار کم از کم مہر کی نصف مقدار تک مقرر کی جائے۔ اس کے علاوہ اور صورتیں بھی روک تھام کی نکل سکتی ہیں جن کو ہمارے علماء اور ماہرین قانون غور و خوض کے بعد تجویز کرسکتے ہیں۔ علاوہ بریں اس مسئلے کو کثرت سے لوگوں میں شائع کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ فعل ناجائز ہے تاکہ جو لوگ ناواقفیت کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوتے ہیں وہ آگاہ ہوجائیں‘‘۔ (حقوق الزوجین ، صفحہ 17-116)۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔