ترجیحات طے کریں مسلمان

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

مسلم پرسنل لاء بنام یونیفارم سول کوڈ پر اردواخباروں میں باڑھ سی آئی ہوئی ہے۔ پہلے صفحہ سے آخری صفحے تک اس پر کچھ نہ کچھ دیکھنے کو مل جائے گا۔ اس سیلاب میں منہاج انصاری کی پولس حراست میں موت، مہسانہ ضلع کے سردار پور گائوں میں 33مسلمانوں کو جن میں سے 22خواتین شامل تھیں جلا کر مارنے والے ملزمان کی گجرات ہائی کورٹ کے ذریعہ رہائی کی خبریں کہیں گم ہوگئیں۔ گجرات فسادات 2002کے جن نو سب سے بھیانک معاملات کی تحقیق سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ تفتیشی ٹیم یعنی ایس آئی ٹی نے کی تھی،ان میں سے یہ پہلا معاملہ تھا۔ اس معاملہ میں کل 76 ملزمین تھے، جن میں سے 73کے خلاف جون 2009میں چارج شیٹ دائر ہوئی تھی۔ ایک نابالغ کے خلاف الگ سے مقدمہ چل رہا ہے۔ مہسانہ کی خصوصی عدالت نے 31ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور 42کو بری کردیاتھا۔
بابری مسجد، اردو، مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار، مسلم ریزرویشن، پرسنل لاء، دینی مدارس اور فسادات مسلمانوں کی گفتگو کے خاص موضوعات ہیں۔ ان پر ملک گیر تحریکیں چلائی جاچکی ہیں۔ بابری مسجد کو لیں تو اس پر مسلمانوں کے رد عمل اور تحریک کی وجہ سے ہندو مسلمانوں کے درمیان فاصلہ بڑھا، فرقہ وارانہ نفرت میں اضافہ ہوا، عدم رواداری پیدا ہوئی اور ہندو پرائوڈ(فخر) کا راستہ ہموار ہوا۔ مسلمانوں نے عدالت کی لڑائی سڑکوں پر لڑنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجہ میں ہزاروں مسلمانوں کو جان گنوانی پڑی اور کروڑوں، اربوں روپیہ کا نقصان ہوا۔ مسجد پھر بھی نہیں بچ سکی، البتہ کئی لوگ اس تحریک کی وجہ سے لیڈر بن گئے اورکتنوں کو ودھان سبھا وپارلیمنٹ میں جگہ مل گئی اور کچھ ہزاری مل سے کروڑی مل بن گئے۔ ہر مسلمان مانتا ہے کہ مسجد خدا کا گھر ہے اور وہ اپنے گھر کی خود حفاظت کرسکتا ہے۔ پھر مسلمانوں نے یہ غلطی کیوں کی؟ کہیں ایسا تونہیں کہ وہ اسلام دشمن سیاست کا شکار بن گئے۔
زبان ترسیل یعنی گفتگو، تبادلہ خیال، کام کاج اور رابطہ کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اسی سے سماج میں پہچان اور جگہ ملتی ہے۔ غیر مسلموں نے رائج الوقت زبان کو نہ صرف سیکھا بلکہ اس میں مہارت حاصل کی تاکہ وہ مین اسٹریم کا حصہ بن سکیں۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنی زبان بھول گئے بلکہ انہوںنے دیوناگری رسم الخط ہندی کو اپنے گھروں میں محفوظ رکھا۔ اس کے برخلاف مسلمانوںنے اردوکو مذہب سمجھ کر اوڑھ لیا اور کچھ ان کے سر مڑھ دی گئی۔ جبکہ اردو کو فارسی کے مقابلے میں انگریزوںنے کام کاج کی زبان بنایاتھا۔ اردو یہیں پیدا ہوکر جوان ہوئی، مسلمان اس کی بقا کیلئے لڑے اور تحریکیں چلائیں۔ خاص طور پر شمالی ہند کے لوگ اس کے پیار میں ہندی وانگریزی میںپچھڑ گئے۔ ان کی نسلیں برباد ہوئیں اور وہ مین اسٹریم سے دور ہوگئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ تاریخی، سماجی، تہذیبی اور مذہبی سرمایہ کو محفوظ رکھنے کیلئے اردو کو گھروں میں زندہ رکھا جاتا اور سماج میں رائج زبان کے ساتھ کھڑے ہوتے۔اس پر طرہ یہ کہ اردو کے نام پر مسلمانوں کے مقابلہ غیر مسلموں کو ہی زیادہ فوائد حاصل ہوئے۔ ردعمل میں شمالی ہند کے مسلمان اردو سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ گھروںمیںبھی اردو کا چلن کم ہورہا ہے۔ اردو مدارس تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ مسلم سماج عدم منصوبہ سازی کی وجہ سے اتنا پچھڑ گیا ہے کہ مین اسٹریم میں آنے کیلئے اور محنت کے ساتھ جدوجہد کرنی ہوگی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بڑی چالاکی سے مسلمانوں کا مسئلہ بنا دیاگیا ہے۔ جبکہ یہ مرکزی یونیورسٹی اور سرکار کے بیچ کا معاملہ ہے۔ اقلیتی ادارے میں ادارہ قائم کرنے والی اقلیت کے 50فیصد طلبا وطالبات کو داخلہ مل سکتا ہے۔ مسلم یونیورسٹی میں تقریباً سات ہزار طالب علموں کو پڑھانے کی گنجائش ہے۔ اس لحاظ سے ساڑھے تین ہزارمسلم طالب علم وہاں داخلہ لے سکتے ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کی آبادی 20کروڑ ہی مان لیں اور سوفیصد مسلمانوں کو یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے تو کیا اتنے بھر سے مسلمانوں کی تعلیمی ضرورت پوری ہوجائے گی؟ یہ ملک کی 47مرکزی یونیورسٹیز میں سے ایک ہے۔ ملک میں 353ریاستی، 123ڈیمیڈ اور 246پرائیویٹ کل 769 یونیوسٹیز تعلیم کی ترقی کا کام کررہی ہیں۔ برادران وطن کی طرح مسلمان بھی ان سے مستفید ہورہے ہیں۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کو کیا مسلم یونیورسٹی کیلئے اپنے جذبات مشتعل کرنے چاہئیں؟ اس پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار محض ایک نعرہ ہے، جسے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کیاجاتا ہے اورکیا جاتا رہے گا۔ کیوںکہ اس کی بنیاد پر سیاست میں مقام حاصل کرنے والوں کی فہرست کافی لمبی ہے۔
غیرمسلموں کی طرح مسلمانوں میں بھی پسماندہ طبقات پائے جاتے ہیں۔ منڈل کمیشن نے ان کی پہچان کرکے اوبی سی میں شامل کیا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے جانے کی مانگ ہونے لگی۔ اس مطالبے کی مہم ان مسلم برہمنوںنے شروع کی جو ریزرویشن کے مخالف تھے۔ انہوںنے آر ایس ایس، بی جے پی کی طرح ریزرویشن کی مخالفت کیلئے مذہب کو ہتھیار کے طورپر استعمال کیا۔ منڈل کے خلاف بھاجپا نے کمنڈل کا ہی سہارا لیاتھا۔ اس تحریک کے پیچھے ان کا پوشیدہ ایجنڈہ پسماندہ مسلمانوں کو ملنے والے فائدے سے محروم کرنا تھا۔ کیوںکہ مسلم رہنما تمام مسلمانوں کیلئے ریزرویشن مانگ رہے تھے۔ آئین کے مطابق سماجی وتعلیمی طورپر پسماندہ طبقہ ہی ریزرویشن پانے کا حقدار ہے۔ اقتصادی طورپر پسماندہ کو ریزرویشن نہیںدیا جاسکتا، اور نہ ہی مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن مل سکتا ہے۔ آندھرا پردیش ومہاراشٹر کی کانگریس سرکاروں نے مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے 4.5 فیصد ریزرویشن دیاتھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس پر روک لگادی تھی کیوںکہ یہ آئین کے خلاف تھا۔ اس مسئلہ پر بھی مسلم عوام کو گمراہ کرکے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔
ایک بار پھر مسلم پرسنل لاء کے بہانے سیاست گرمانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کانگریس اس میں اپنی واپسی دیکھ رہی ہے۔ عام مسلمانوں کے ساتھ پہلے بھی دھوکہ ہوا تھا ۔اور اب بھی اس کی تیاری ہے شاہ بانو کو گزارہ بھتہ دیئے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کانگریس نے پارلیمنٹ کے ذریعہ بدل دیا تھا ۔ پارلیمنٹ نے جوقانون پاس کیا اس میں یہ بات شامل کردی گئی کہ اگر کوئی مسلم خاتون چاہے تو اپنے معاملے کو یکساں سول کوڈ کے ذریعہ طے کراسکتی ہے۔ لہٰذا آج 125سی آر پی سی کے تحت گزارا بھتا پانے کیلئے مسلم لڑکیوں کے کتنے ہی معاملے عدالتوں میںچل رہے ہیں۔ البتہ کانگریس نے شاہ بانو کا فیصلہ بدلنے کی وجہ سے ناراض غیر مسلموں کو خوش کرنے کیلئے بابری مسجد کا تالا کھلوادیاتھا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا ہوا یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔
پرسنل لاء بورڈ نے اس بار مسلم قوانین سے متعلق سپریم کورٹ میں اس پی آئی ایل کو جوائن کیا ہے جس میں وہ پارٹی نہیں تھا۔ اس پی آئی ایل کی کہانی بڑی عجیب ہے۔ ہندوقانون کے مطابق بیٹیاں آبائی پراپرٹی میں حقدا نہیں تھیں۔ 2005میں اس قانون میں ترمیم کرکے بیٹیوں کو اس میں حقدار بنایاگیا۔آندھرا پردیش ہائی کورٹ اور دوسری کئی ریاستوں کے ہائی کورٹوں نے کہا کہ یہ صنفی انصاف کا معاملہ ہے، اس لئے اسے Back datedمانیں گے۔ اس کے خلاف ایک ہندو عورت سپریم کورٹ پہنچ گئی اس کے ساتھ تو کورٹ نے انصاف کیا نہیں البتہ اپنے فیصلے کے دوسرے حصہ میں لکھا کہ کچھ وکیلوں نے کہا ہے کہ مسلم قانون بہت برا، ناانصافی پر مبنی ہے۔ اس میں تین طلاق، حلالہ، ایک سے زیادہ شادیاں وغیرہ ہیں۔ لہٰذا اس پر پی آئی ایل داخل کی جائے۔ پی آئی ایل داخل ہوئی جس میں بلاوجہ پرسنل لاء بورڈ کود گیا۔ اس کے بعد جمعیۃ علماء ہند اور دوسرے لوگ بھی آگئے۔ بورڈ کے ذریعہ داخل کئے گئے حلف نامہ میں کئی غلطیاں ہیں۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ جسے شریعت کا، اللہ کا قانون بتارہا ہے وہ صرف حنفی فقہا پر مبنی ہے۔ بورڈ کے ایک ممبر ڈاکٹر کلب صادق اس سے پلہ جھاڑ چکے
ہیں۔ انہوںنے کہاہے کہ بورڈ حنفی مسلک کی بات کررہا ہے، شیعہ حضرات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اہل حدیث، شافعی، مالکی اور حنبلی مسالک کے لوگ بھی اس سے اتفاق نہیں رکھتے۔ پرسنل لاء کی مہم جمعیۃ العلماء کے ذریعہ چلائے جانے سے بھی کئی شق شبہے پیدا کرتے ہیں۔ جمعیت کانگریس کے ماوتھ پیس کے طورپر کام کرتی رہی ہے جو کام کانگریس اپنے نام سے نہیں کرتی وہ جمعیت سے کرایا جاتا ہے۔ رہا سوال لاء کمیشن کے سوالنامے کی مخالفت کا تو یہ مخالفت فضول ہے کیوںکہ لاء کمیشن کے سوالنامے سے سرکار کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ، کناڈا یا دوسرے ممالک میںجہاں ایک قانون ہے کیا وہاں اسلام اور مسلمان ترقی نہیں کررہا؟ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اسلام اور مسلمان زیادہ پھل پھول رہے ہیں۔
مسلمانوں کو پرسنل لا بورڈ کی سیاست کو سمجھنا چاہئے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ کس کس کو پارلیمنٹ یاودھان سبھا پہنچانے کا ارادہ ہے اور کس کو وزیر بنوانے کا؟۔سمجھداری کا تقاضہ تو یہ تھا کہ بورڈ مطالبہ کرتا کہ سرکار سول کوڈ کا ڈرافٹ تیار کرکے دے۔ وہ کیا لاگو کرناچاہتی ہے، کیوںکہ خود ہندو یکساں سول کوڈ کو نہیں ماننے والے۔ وہ اپنی شادیاں ہندوقانون کے تحت ہی کرتے ہیں۔ بورڈ کے اس مطالبے سے ملک میںٹکرائو کی سیاست پر لگام لگتی۔ ٹکرائو اور رد عمل نے ہی فرقہ واریت کو جنم دیا ہے۔ اہل وطن میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ مسلمان اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔ بورڈ کا فیصلہ ملک کے عوام کی اس سوچ کو بدل سکتا تھا۔ اس سے بورڈ کے لوگوں کو تو کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوتا لیکن شدت پسندوں کے منصوبے ضرور ناکام ہوجاتے۔
دینی مدارس کو شک کی نگاہ سے دیکھاجانا ہو یا پھر فسادات۔ یہ مسلمانوں کی خود پسند سوچ کا نتیجہ ہے۔ وقت آگیاہے جب مسلمانوں کو اپنی ترجیحات طے کرنی چاہئے کہ انہیں تعلیم، صحت، روزگار اور عزت کی زندگی چاہئے یا پھر فضول کے مسئلوں میں الجھ کر وہ اپنی صلاحیتوں کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ جن لوگوں کو سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا رہنما بنایا ہے۔ ان سے مسلمانوں کے مفاد کیلئے کام کرنے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ ان کی پہلی کوشش اپنی جماعت کو فائدہ پہنچانا ہی ہوگا۔ مسلمانوں کو گھڑے ہوئے مسائل سے پیچھا چھڑا کر اصل مسائل کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ ورنہ ان کا یوں ہی استحصال ہوتا رہے گا اور وہ دوسرے کو آگے بڑھتا دیکھ کر افسوس کے سوا کچھ نہ کرسکیںگے۔ زمانہ اسی کی قدر کرتا ہے جو اس کیلئے ضروری ہے۔(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔