مودی حکومت اور یکساں سول کوڈ

عبدالعلیم

ہندوستان میں این ڈی اے حکومت آنے کے بعدتبدیلی حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کے نظریات میں بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔پچھلے دو ڈھائی سالوں میںایسی خاموش آوازوں نے سر اٹھایا ہے جس کو آج کے سیکولر عوام انتہائی شدتی پسندی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ آرایس ایس +بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں کے لیڈران آئے دن اشتعال انگیزی کرتے ہوئے دیکھے جارہے ہیں۔مختلف سیاسی جماعتوں نے ہندوستان میں حکومتیں کیں، لیکن ایساوقت کسی حکومت میںدیکھنے کونہیں ملا جہاں مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہواور زمینوں پر ترقیات کا نام ونشان نہ ہو، انسان کا بسیرا جملوں کی دنیا میں ہورہا ہو۔ سریش پربھوجب سے وزیر ریل بنائے گئے ہیں تب سے آج کی تاریخ تک تقریباچار سے پانچ مرتبہ نہ صرف ریل کرائے میں اضافہ کیا گیا بلکہ مختلف قسم کے ٹیکس بشمول’’ سوچھ بھارت ابھیان ٹیکس‘‘میں اضافہ کیا گیا ۔پریمیر ٹرینیں چلائی گئیں ،سلیپر کلاس کا کرایہ ہوائی سفر کے برابر رکھا، تھری ٹائر اے سی،سیکنڈ اے سی، فرسٹ اے سی میں وی وی آئی پی ٹیکس کا دخول۔ اس کے باوجود محکمہ ریل 4000؍کروڑ روپئے نقصان میں رہا۔کرائے کے اضافہ کے باوجود اتنا بڑا ریلوے کو نقصان ! سوچنے کا پہلو ہے۔
موجودہ حکومت نے ہندوستانی عوام کو انہیں مسئلوں میں الجھائے رکھا ہے جو ان کے جذبات سے وابستہ رہے ہیں۔ رام مندر، تبدیلی مذہب ، گھر واپسی، گائے ماتا، بھارت ماتا، پاکستان جائو، جے این یو، کشمیر، سرجیکل اسٹرائیک اور اب طلاق ۔ وزیر اعظم نریندر مودی بندیل کھنڈ کے مہوبا جلسہ میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے خطاب کر رہے تھے ،اس دوران انہوں نے تین طلاق کی صریح مخالفت کی اور ساتھ ہی ساتھ فون پر 3طلاق دئے جانے، پیدائش سے پہلے ہی بچوںکو مارنے ، فرقہ کی بنیاد پر خواتین سے امتیاز برتنے جیسے موضوع پراپنے نظریات بھی پیش کئے ۔
مودی جی جب عوام سے مخاطب تھے توعوام یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ ہم سے اس ملک کا وزیر اعظم مخاطب ہے یہ پھر آر ایس ایس کا نمائندہ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس گوئل، پرکاش اورپھولاوتی معاملہ کی سماعتکی ، جسٹس گوئل نے پھولاوتی کے ساتھ تو انصاف نہیں کیا ، لیکن ان کو مسلم خواتین کی فکر ستائی اور انہوں نے حکومت سے مسلم خواتین کے لئے تین طلاق، حلالہ، وراثت ، کثرت ازدواج پر رائے طلب کی ۔ حکومت نے ایک16نکاتی سوالنامہ سپریم کورٹ کے ذریعہ عوام میں پیش کیا ۔
16؍نکاتی سوالنامہ ہاں اور نہیں کے جواب پر مشتمل تھا۔سوالات کا انداز اور انتخاب یکساں سول کوڈ کی طرف واضح طو رپر اشارہ کررہاہے۔ جس کامسلم پر سنل لاء بورڈکی جانب سے بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا سید ولی رحمانی نے پریس کانفرنسکے ذریعہ بائیکاٹ کردیا ۔  مودی حکومت یا یوں کہہ لینازیادہ بہتر ہوگا آر ایس ایس +مودی حکومت وہی کام کر رہی ہے جس کی بنیاد27؍ ستمبر1925ء کو ناگپور میں ڈاکٹر ہیڈ گوارکے گھر پر خاکی نیکر،خاکی قمیص، خاکی ٹوپی کے ساتھ رکھی گئی تھی ، جن کے Brotherhood in saffron(جو آر ایس ایس پر تحریر کردہ کتاب ہے ) کے مطابق1980ء میں پچیس لاکھ ممبران آج سے34سال پہلے ہوچکے تھے موجودا تعداد 5-6ملین بتائی جاتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نعرے لگاتے رہے ہیں کہ مسلمان کے دومقام پاکستان یا قبرستان ۔یہی وہ لوگ ہیں جن پر ہندوستان میں24؍جنوری1947ء اور4 ؍فروری 1948ء میںگاندھی جی کے قتل کرنے کے جرم میںدوبار پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آزادی موؤمنٹ سے اپنے آپ کو دور رکھا اور برٹش حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے گاندھی جی کی مسلم معاونت کی مخالفت کی 18؍جولائی 1947ء میں قومی ترنگے جھنڈے کے بجائے بھگوا جھنڈے کو قومی جھنڈا بنانے کا مطالبہ کیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آئینی طور پر آئین کو نا صرف کالعدم قراردیا بلکہ اس کو سخت تنقید کانشانا بناتے ہوئے سنگھ آرگنائزرس نے 30؍نومبر1949؍ کو ’’منوسمرتی کاقانون‘‘ کے عنوان سے مضمون شائع کرایا، بات یہیں ختم نہیں ہوئی آر ایس ایس نے ڈاکٹر امبیڈکر کی بھی مخالفت کی ایک اور مضمون ’’قانون ِمنوسمرتی ہمارا دل ہے‘‘ کو ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج شنکر سبھا ایرکے ذریعہ شائع کیا گیا ، جس میں صاف طور پر واضح کردیا گیا تھا کہ ہندوستان کاقانون منوسمرتی کا قانون ہی بنے گا اور یہ قانون ہمارے نزدیک ہندوستانی آئین سے بڑھ کر ہے ۔ جس کا ذکر ایم ایس گوالکر نے اپنی کتاب ‘Bunch of thougts’میں کیاہے۔ بی جے پی اسی آر ایس ایس کی پولیٹیکل ونگ ہے ۔
کیا آج ہندوستان کا کوئی شہری اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ مودی آر ایس ایس کے نمائندہ نہیں ہیں یا مودی جی نے کبھی خاکی وردی نہیں پہنی؟ اگر ان موضوعات (رام مندر، تبدیلی مذہب ، گھر واپسی، گائے ماتا، بھارت ماتا، پاکستان جائو، جے این یو، کشمیر370 اور اب طلاق)پر غور کریں، جن سے ہندوستانی عوام کے ذہنوں کو الجھائے رکھا جاتا ہے کیا یہ سب ہندتوا سے تعلق نہیں رکھتے ؟
مودی جی کوچند انگلی پر گنی جانے والی عورتوں کا درد محسوس ہوتا ہے جو طلاق کے مسئلہ کو لیکر کورٹ گئیں،لیکن اس وقت وہ گجرات کی ان تمام مسلم بہنوںکو بھول جاتے ہیں جن کی عزتوں کو لوٹا گیا، جن کے مادر رحم میں چاکوئوں سے بچوںکا قتل کیاگیا، نوزائدہ بچوںاوربچیوں کو آگ کے حوالہ کردیا گیا،بلقیس بانوں، ذکیہ جعفری کو آج تک انصاف نہیںدلا پائے۔
آج کروڑوں کی تعداد میں برقہ پوش با عزت خواتین سڑکوں پر مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعلان کررہی ہیں کہ ہمیں شریعت اور مسلم پرسنل لاء بورڈ میں کسی قسم کی مداخلت نہیں چاہئے اس کے باوجود مودی جی کو صرف انہیں چند خواتین کا درد درد لگتا ہے ۔
مودی جی کے بیان سے ایسا محسوس ہوتاہے گویہ کہ ہرہندوستانی خاتون مظلوم ہے اور اس کے اوپرجابرانہ، وحشیانہ سلوک کیا جاتاہے ، ہر مسلم خاتون کو طلاق دی جاتی ہے ، ہر مسلم عورت مادر رحم میں بچے کو قتل کرتی ہے۔ہر مسلم مرد چار شادیاں کرتاہے ۔
طلاق کا اسلام میں مکمل نظام ہے، طلاق کا ریشو مسلمانوں میں ، ہندو، عیسائی، سیکھ کے بعد چوتھے نمبر پر سب سے کم درجہ میں آتاہے ۔ مادر رحم میں قتل کا ریشو مسلم خواتین میں %9.00 ہے۔ چار شادیاں ہندوستان میں مسلم مرد کرہی نہیں سکتا یہاں کی صورت حال ناممکن بنادیتی ہے۔ چار شادیوںکی اجازت ویسے بھی بہت سے شرائط کے ساتھ ہے جس میں ہندوستانی مرد کبھی بھی پورا اترنا تو دور سوچ بھی نہیں سکتایہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں %9.00مسلم عوام ایک ہی شادی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اگر انصاف کے آئینہ سے دیکھا جائے تومودی جی کا خطاب عوام کوورغلانے، دھوکہ دینے والا ہے۔
اچھے دن کا انتظار ہر ہندوستانی کرتا رہا، 15؍ لاکھ کے خواب کو بی جے پی صدر امت شاہ نے چکنا چور کردیا، کسانوں کی خودکشی کی شرح میں مستقل اضافہ ہورہاہے ، کارپوریٹ سیکٹر ترقی پر ہے میڈل کلاس اور لور کلاس لگاتار تنزلی کا شکار ہوتا جارہاہے ۔ چھوٹے تاجر مزدور طبقہ کے لوگ آنسو بہارہے ہیں، بلڈرز، اسکریپ بزنس، عام عوام سب کی حالت خستہ ہوچکی ہے۔ پیٹرول اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ نے عوام کی کمر توڑ دی ہے ۔ آخر ترقی اورچھے دن کہاں ہیں؟اچھے دن کا خواب مودی حکومت انہیں مسئلوں میں الجھاکر عوام کوپچھلے دو تین سال سے دکھا رہے ہیں۔
مودی جی اور ان کے آر ایس ایس کے نمائندے ہندوستان میں امن نہیں چاہتے کشمیر میں برہان وانی کا مسئلہ اپنی جگہ لیکن اس سے پہلے آئے دن کشمیر کا راگ دفعہ 370کی صورت میں الاپا جارہا تھا جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ آج تک کشمیر کرفیو کی آگکی زد میں ہے، امن کی راہ ہموار ہونے کے نام نہیں لے رہی ہے۔ ایسے حالات میں مودی جی نے تین طلاق کا راگ ایک بڑے اسٹیج سے عوام کو مخاطب کرکے الاپا ہے ۔ مسلم پرسنل لاء تمام ملی ، سماجی، مذہبی، مسلکی تنظیموں کے اتحاد کے ساتھ پہلے ہی اس کی مخالفت کرچکا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ اس ٹکرائو کی صورت میں بات کہا ںتک پہنچتی ہے او راسکے کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ بہر حال میں یہ صرف یہ کہوں گا مودی جی کو ٹیپو سلطان کا انصاف اور اسکے سیکولرزم کو ضرور دیکھنا چاہئے۔
KERLA UNDER TIPUکے مطابق کیرلہ کے ساٹھ مندروں کو ٹیپوسلطان نے سالانہ وظائف جاری کئے تھے، بے شمار مندروں کو زمینیں مہیاکرائیں، میسور کے سرنگنا پٹنم کی مندروں کے لئے کی گئی خدمات آج بھی مرقوم ہیں ۔ ذات پات ، اونچ نیچ کو ختم کرکے برابری کادرس اسی ٹیپو نے دیا تھا۔ان سب کے باوجود آج سیاست نظریاتی سیاست بن چکی ہے، ایک طبقہ جو خالص ہندوازم کی ترویج و تدوین کررہاہے، ہندوستان کو اکھنڈ بھارت کے روپ میں دیکھنا چاہتاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔