اللہ نے’’نکاح‘‘ کو آسان بنایا ہے اور طلاق کو مشکل

ابوفہد

اللہ نے’’نکاح‘‘ کو آسان بنایا ہے اور طلاق کو مشکل ۔ لیکن لوگوں نے اس کو الٹ دیا۔ انہوں نے نکاح کو نہ صرف مشکل بلکہ مشکل ترین بنا دیا اور طلاق کو نہ صرف آسان بلکہ آسان سے آسان تربھی۔

نکاح کی اساس محض ایجاب و قبول رکھی گئی تھی لیکن لوگوں نے اس کو رسم ورواج کے بندھنوں سے باندھ دیا ، تلک، جہیز اور جوڑے گھوڑے جیسی قبیح رسومات کو اپنے اوپر لازم کرلیا ۔ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ : ویضع عنہم اصرھم و الاغلال التی کانت علیہم (الاعراف: ۱۵۷)’’اور رسولﷺ ان کے سروں کے بوجھ اور گردنوں کے طوق اتارتے ہیں‘‘ کا اعادہ ہے۔ یعنی نظام جاہلیت کی رسومات کا قلادہ جو ان کی گردنوں سے اتارا گیا تھا اس کو ایک بار پھر سے پہن لیناہے۔
اور’’طلاق‘‘ جس کے ساتھ بہت ساری قیود لگائی گئیں تھیں جیسے ایک طہر میں ایک طلاق دینا اور دوسرے میں دوسری اور پھر یہ کہ جس طہر میں طلاق دینا ہے اس میں جنسی تعلق قائم نہ کیا گیا ہو، مہر ادا کرنا، اور ایام عدت میں نفقہ کی ذمہ داری اٹھانا، نیز یہ اخلاقی ضرورت بھی کہ کچھ نہ کچھ دے دلا کر رخصت کرناوغیرہ۔ لیکن لوگوں نے اپنے آپ کو ان قیود وشرائط سے آزاد کر لیا ۔آج ان کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی لفظ میں سارا قصہ پاک کر دینا چاہتے ہیں۔جبکہ طلاق کی حیثیت ازدواجی زندگی میں ایسے ہی ہے جیسے بسوں اور ریل گاڑیوں میں Emergency Window کی ہوتی ہے۔کہ ان کو انتہائی اقدام کے تحت ہی استعمال کیا جاتاہے۔
یقینا ایسا کرنا نظام قدرت کو الٹ دینے کے مترادف ہے اور بالکل’’ رہبانیت‘‘ جیسا عمل ہے کہ اللہ نے ان پر لازم نہیں کیا تھا لیکن راہبوں نے اپنی شیخوخت دکھانے اور للہیت کا چرچا کرنے کے لیے اس کو اپنے اوپر لازم کرلیا تھا۔
آج مسلمان جس طرح کے خانگی مسائل میں الجھے ہوئے ہیںاور ان سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتے۔یہ ان کے اِسی پاداش عمل کا شاخسانہ ہےکہ انہوں نے نظام قدرت کو بالکل الٹ دیا۔
نکاح کے ذریعہ قائم ہونے والے تعلق کا فلسفہ یہ ہے کہ میاں بیوی تا حیات رشتۂ ازدوج کو احسن طریقے پر نبھائیں ،اور اس حد تک رنگ آمیزی کے ساتھ نبھائیں کہ اس میں نمایا طور پر تقدس کا رنگ پیدا ہوجائے۔
طلاق کے بعد بھی رجوع کا اختیاردینااور اگراختیار کا یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے تو تجدید نکاح کی سہولت رکھنااور اگر کسی وجہ سے اس سہولت سے بھی فائدہ نہ اٹھایاگیا تب بھی ایک راستہ ان کے دوبارہ ملنے کا کھلا رکھنا(وہ یہ کہ مطلقہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کرلے پھر اس کا انتقال ہوجائے یا وہ بھی کسی وجہ سے اسے طلاق دیدے تو یہ دونوں ایک بار پھر ایک دوسرے سے نکاح کرسکتے ہیں)بتاتا ہے کہ طلاق کا نظام انتہائی منظم بنایاگیا ہے۔ اور اس منظم نظام کا سارا فلسفہ یہ ہے کہ اگر اس مقدس رشتہ میں کبھی کوئی دراڑ پیدا ہو بھی جائے تو اس کو کسی طرح دور کردیا جائے ۔
طلاق بظاہرتو نکاح کے بندھن کو کھول دینے کا نام ہے لیکن اگر طلاق کے اس گہرے فلسفہ پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ طلاق کا لفظ رشتے کے ٹوٹنے پردلالت کرتا ہے اور طلاق کانظام و فلسفہ رشتے کے نہ ٹوٹنے پر۔
در اصل مرد وعورت ایک دوسرے کا تتمہ وتکملہ ہیں۔ جس حدیث میں نکاح کو آدھا ایمان کہا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرد ایک عورت کے ذریعہ مکمل ہوتا ہے جس طرح ایک عورت ایک مرد کے ذریعہ مکمل ہوتی ہے۔اور نکاح مردو عورت کی اسی ضرورت کو پورا کرتاہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔