نسلِ آدم کا خون ہے آخر!

 شیخ فاطمہ بشیر

تاریخ کے ان گزرے مظالم پر تفصیلی نگاہ دوڑائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ طاقت کا نشہ، اقتدار کی ہوس، زیادہ پانے کا جنون اور بدلے کی آگ میں انسان نے ہمیشہ اپنے ہم جنسوں پر ظلم اور جبر کا سہارا لیا۔ نتیجتاً زمین شر اور بگاڑ کی آماجگاہ بن گئی۔ بےقصوروں کا قتلِ عام ہوا۔ خون کی ندیاں جاری کردی گئیں۔ مظالم کی داستانیں رقم ہوئیں۔ بعض اوقات طاقت اور برتری کی طلب میں ملک کے ملک تباہ کردیئے گئے۔ دستورِ خداوندی کے مطابق جب اُمتِ مسلمہ نے اللہ کی کتاب سے اپنا رشتہ توڑا، شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور احکامِ الٰہی کو اپنی زندگی سے ترک کیا، ظلم کے خاتمے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے سے قدم پیچھے ہٹائے، مجبوروں اور بےکسوں کے لئے آوازیں بلند نہ کیں، حالاتِ حاضرہ سے نظریں چرائیں، خواہشات کی تکمیل میں مگن رہے، اخلاقی گراوٹ بدتریج بڑھتی چلی گئی، قرآن کی محفلوں کے بدلے رنگ و نشاط کی مجلسیں آباد ہوئیں ، تو اللہ وحدہٗ لاشریک نے ہم پر غیر اقوام اور باطل طاقتوں کو مسلّط کردیا، جنہوں نے ہر محاذ پر ہمیں پسپا کیا۔ ملک و جائداد پر قبضہ کرنے کی انتھک کوششیں کیں۔ نسل کشی اور اسلام کے پیروکاروں کو مٹانے کی خاطر یکے بعد دیگرے کئی ممالک تباہ و برباد کردیے۔ عراق، برما، فلسطین، افغانستان، تیونش، چیچنیا، مصر، شمالی کوریا، لیبیا کے بعد عصرِ حاضر میں شام و غوطہ کے تباہ کن حالات ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

 افسوں خیز صورتحال اور دشمن کی دن بدن بڑھتی ہمت سرزمین شام کو مکمل برباد کرنے پر تلی ہے۔ بندوق کی گولیوں کی گڑگڑاہٹ، آسمان سے آگ برساتے گولوں کی گرج، بارود کا ڈھیر، عمارات کا ملبہ، جلی کٹی مسخ لاشوں کا انبوہ، ہرسو بکھرا لہو، چیخ و پکار، سسکیاں، آہ و فغاں، آہ وزاریاں اور حرمین کے نگہبانوں، دجلہ و فرات کے حکمرانوں، امن کے دعوے داروں اور حقوقِ اطفال کے نعرے لگانے والوں کی خاموشی و سردمہری نے ملکِ شام کو زمین پر جہنّم کی مثال بناکر رکھ دیا۔ ایسا تباہ حال ملک، جہاں کئی جانیں جگہ پر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئیں۔ کئی بستیاں کھنڈرات اور مٹی پتھر کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیں۔ کئی بچے یتیم، بہنیں بیوہ، نوجوان شہید و معذور اور گودیں اُجڑ گئیں۔ جہاں سرِعام انسانیت کا قتلِ عام ہوا اور ابھی بھی جاری ہے۔ ننھے پھول جیسے معصوم بےقصور بچے انا کی آگ میں جل کر راکھ ہوگئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان راکھ کے ڈھیروں سے کہانیاں تب وجود میں آتی ہیں جب انسانی ضمیر مرجاتا ہے۔

 ابھی تو راکھ اڑنے دو، تماشا اور بھی ہوگا

عالمی قوتوں کے ذریعے ۳۰ روزہ جنگ بندی کی قرارداد، شامی فوج کی ظالمانہ کاروائی اور روس کے قدموں تلے پامال ہورہی ہے۔ تباہ کن فضائی بمباری اور زمینی گولہ باری کے ذریعے مشرقی غوطہ پر مکمل دسترس حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اسے شامی حکومت کی سخت دلی کہے یا مردہ دلی کہ محاصرہ مضبوط کرنے اور شہر پر قبضے کی خاطر مزید فوجی طاقتیں جمع کرلی گئیں اور حملوں کی تعداد بڑھا دی گئی۔ مشرقی غوطہ پر گزشتہ ۲ ہفتوں سے جاری حکومتی بمباری میں گیارہ سو سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے، اور شہید ہونے والوں کی تعداد بتدریج بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے حقوقِ اطفال ادارے کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۸ کے ابتدائی ۲ مہینوں میں ۱۰۰۰ معصوم اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ 4لاکھ مقیم محصورین، زخمی بچے، فاقہ کشی کے شکار افراد خوراک، ادویہ اور دوسری اشیائے ضروریہ غرض پانی کے لئے ترس رہے ہیں۔ 46 ٹرکوں کے ذریعے پہنچائی گئی طبّی امداد کا بڑا حصہ شامی افواج نے چھین لیا۔ 70 فیصد سامان ٹرکوں سے اتارنے نہ دیا گیا۔ ٹراما کٹس، سرجیکل کٹس، انسولین اور دیگر ضروری سامان متاثرین تک پہنچانے نہ دیا گیا۔ اسپتال بچوں کی چیخ و پکار سے گونج رہے ہیں۔ خصوصاً رہائشی علاقوں کو نشانہ بناتے ہوئے ظالمانہ بمباری، گولہ باری اور کلورین گیس کے استعمال نے ایک ہی دن میں 77 افراد ہلاک کرتے ہوئے پورے شمالی غوطہ کے علاقے کو قبرستان میں تبدیل کردیا۔ تشدد میں شدّت کے نتیجے میں امدادی کاروائیاں غیر معینہ مدت تک معطل کردی گئی۔ غوطہ قیامتِ صغریٰ کا نظارہ پیش کررہا ہے۔ ستم بالائے ستم کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کے باعث شہر میں وبائیں پھوٹ پڑی۔ چہار جانب تشدد کی تازہ مثالیں، خون، لاشیں، موت اور زخموں سے چور دل دھڑکتے زندہ انسانوں کے بےسود جسم پڑے ہیں۔

سسکیاں کس زبان میں لکھوں 

آج الفاظ بھی آبدیدہ ہیں

 مسلم ممالک کی حالت یوں ہے گویا خونخوار بھیڑیا مسلسل بکریوں کے ریوڑ پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور باری باری غول سے نکلنے والی کمزور بکری کو اپنا نوالہ بناتا جارہا ہے۔ ایک ملک پٹ رہا ہے باقی قطار در قطار کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ قرآن سورۃ النساء میں کہتا ہے:”آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایا ہمیں اس بستی سے نکال جسکے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر” (سورۃ النساء:75)۔ کیا ہم اس شامی بچی کے الفاظ بھول گئے جس نے کہا تھا کہ ‘ظلم اور جبر و تشدد کی پوری داستان میں اللہ کے حضور بیان کروں گی۔’ لیکن افسوس ان دل دہلا دینے والے اور سینہ چھلنی کردینے والے الفاظ نے بھی ہمیں ہماری نیندوں سے جھنجھوڑ کر نہیں اٹھایا۔ اکیلے ریگستان سے گزر کر اردن کی جانب ہجرت کرتے چار سالہ معصوم فرشتہ صفت مروان کے حالات خون کے آنسو رُلانے کے لیے کافی ہے۔ جو اپنی جان بچانے کے لیے بنا کسی زادراہ اور توشے کے صرف ایک تھیلی کے ہمراہ دوڑا چلا جا رہا تھا، جو عقیدت، محبت اور آخری نشانی کے طور پر اس کے سینے سے لگی ہوئی تھی۔ جس میں اس کے شہید ماں باپ بہن کے خون میں لت پت کپڑے موجود تھے۔ اُن کی جگہ ہم اپنے پیاروں اور چہیتوں کا تصّور کرے تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ ان دگرگوں حالات میں جہاں مسلمان حکمرانوں اور اُمّت کی ذمےداری تھی کہ اپنے اُن دینی بھائیوں بہنوں کے لئے امداد اور سہولیات کا انتظام کرتے۔ اُن بےیار و مددگار، بےآب و گیاہ آبادی کی تکالیف اور پُر پیچ راستوں سے گزر کر آنے والے لاکھوں مہاجرین کی رہائش کا بندوبست کرتے۔ اُنھیں پناہ فراہم کرتے۔ اُن کے غم بانٹتے۔ ظالموں کے خلاف صدائے انصاف بلند کرتے۔ مظلوموں کے حق کے لئے ڈٹ جاتے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے دلوں میں وہن کا مرض سرایت کرگیا ہے۔ ہم مصلحت کی چادر تانے سورہے ہیں۔ مستقبل میں تاریخ رقم ہوگی کہ جب ملکِ شام اس سرزمین پر سب سے بڑی مقتل گاہ بنا تھا، اُس وقت دنیا میں 8۔1 بلین مسلمان بستے تھے۔ جب وہاں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی تو امن کے داعی اور مسلمان حکمراں بےحس اور خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ جب اُن پر بارود کی بارش کے ذریعے انسانیت کچلی جارہی تھی تب ہم صرف سوشل میڈیا پر اُن کی تصاویر شیئر کرنے میں مصروف تھے۔

 آج ہم شام کے اُن بےبس مسلمانوں کے لیے کیا کرسکتے ہیں جو ہماری مدد کے محتاج ہے ہیں؟ تصاویر میں بچوں کی سہمی آنکھیں ہم سے فریاد کررہی ہیں کہ گزرے درد کو بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں۔ فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق "جب اہلِ شام تباہی و بربادی کا شکار ہوجائیں تو پھر تم میں خیر باقی نہ رہے گی” (ترمذی). گویا شام و اہلِ شام سے اُمتِ مسلمہ کا مستقبل وابستہ ہے۔ اسرائیل، روس و امریکہ کا اصل ہدف ‘جزیرۃ العرب’ اور قدرتی وسائل سے مالامال وہ مسلمان علاقے ہیں جہاں یہود و نصاریٰ مکمل قبضہ چاہتے ہیں۔ تباہی کے بعد ملکِ شام نزع کی دہلیز پر ہے گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ظاہر ہورہی ہے۔ ہر آنے والا دن، گزرے دن سے زیادہ کٹھن اور پرفتن نظر آرہا ہے۔ مفہومِ حدیث ہے، "میری امت پر ایک ایسا دور ظہور پذیر ہوگا جس میں فتنے اس قدر تیزی سے آئے گے جیسے تسبیح ٹوٹ جانے سے اُس کے دانے زمین کی طرف تیزی سے آتے ہیں۔”

حدیث کا مفہوم ہے کہ برائی کو برا جانو اور اُسے روکنے کے تین مراحل بتائے گئے۔ ۱۔ہاتھ سے روکو ۲.زبان سے روکو ۳.دل میں برا جانو۔ ہاتھ سے برائیوں کو روکنا اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانا آج ممکن نہیں۔ لیکن زبان سے روکنے کے لیے ہمارے پاس قلم ہے۔ قلم آج ہمارے لئے بہترین اور موثر ہتھیار ہے۔ جانی امداد ہم نہیں کرسکتے لیکن قلمی اور لسانی صلاحیت کے زور پر امداد بہم پہنچائی جاسکتی ہے۔ بازؤں میں دھڑکتا دل جو اُمتِ مسلمہ کا درد محسوس کرے، دو آنکھیں جو ان بےگھر، بےبس، بےكس مظلومین کے لئے بہہ سکے۔ قلم کے زور پر اُمّت کی زبوں حالی، بےچینی، غم و غصّہ بیان کرے۔ وقت کی نزاکت ہے، ہتھیار سے نہ سہی قلم ہی سے جہاد کرے۔ بےضمیر انسانوں کی بیداری، مسلم حکمرانوں کی بےحسی اور ایک دردمند دل کے لئے اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگیں۔ کیونکہ اپنے بھائی کے لئے کی گئی غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے۔ اور اس وقت بھی ہم خالی ہاتھ نہ رہ جائے جب قیامت کے دن ہم سے پوچھا جائے گا کہ مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف کتنی کوششیں انجام دیں؟

 آج ہمیں ہماری نوجوان نسل کی تربیت اور ایمان و یقین کی فکر کرنی ہے۔ دینی، دنیاوی، معاشی، معاشرتی، سماجی، اخلاقی نیز ہر محاذ پر اسلاف کا رویہ اپنانا ہے۔ اِرشادِ ربّانی ہے: "یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے، تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کررہے ہوں؟” (سورۃ الصافات:25). اس آیت کی روشنی میں حالات میں تبدیلی کے لئے قدرتِ الہٰی ہماری کوششوں کی ہرگز محتاج نہیں اور ربِّ کائنات کے لئے یہ بات بھی مشکل نہیں کہ ہماری جگہ دوسری قوم لے آئے جو ہم سے بہتر ہو۔ یہ ہم پر اللہ کا رحم و کرم ہے کہ ہمیں موقع ملا کہ اُن مظلومین کی امداد کے ذریعے سے اپنی نیکیوں کی فہرست میں اضافہ کرلے۔ اے پروردگار! عالمِ شام کے مظلوم مسلمانوں کی غیبی مدد فرما۔ اُن کے تحفظ کے اسباب پیدا فرما۔ دینِ اسلام کے خلاف ہورہے منصوبوں اور سازشوں کو ناکام فرما۔ ماؤں،بہنوں، بیٹیوں کی عزت و ناموس کی حفاظت فرما۔ کیونکہ تو ہمارا مددگار ہے اور تو بہترین کارساز ہے۔تیری لاٹھی بےآواز ہے۔ ایک دن ضرور تکلیف کے یہ سائے چھٹ جائیں گے اور نئی صبح کا آغاز ہوگا۔ کیونکہ

 لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔