نظام سرمایہ داری کو درپیش چیلنج (پہلی قسط)

 اسلام دشمنی کے متعدد محرکات میں سے ایک اہم محرک یہ ہے کہ وہ نظام زرگری اور زرداری، دونوں پر کاری ضرب لگاتا ہے۔ وہ کمزوروں ، مفلسوں اور پسماندہ طبقات کی دستگیری کو دین و ایمان کا جزو قرار دیتا ہے اور ایک ایسی ثقافت کو جنم دیتا ہے جو کسب مال اور اس کے ذرائع کو اخلاق اور انسانیت کے تابع قرار دیتی ہے۔ وہ سماجی اور معاشی انصاف کا داعی ہے، اغنیاء کی دولت کو امانت تصور کرتا ہے۔

 اگر یہ دین قائم ہوگیا تو خطرہ ہے کہ سرمایہ داری پر قائم ثقافت سرنگوں ہوجائے گی۔ دولت اور معیار زندگی کی مجنونانہ دوڑ (Rat Race) کا سد باب ہوجائے گا۔

 تہذیبوں کے تصادم کی پیش گوئی کرنے والے ہوں یا اسلام پر بنیاد پرستی اور ماضی پرستی کا الزام لگانے والے یا عورتوں کے حقوق کیلئے آہ و فغاں کرنے والے، ان سب کی حکمت عملی کے پس پشت در اصل یہی خوف ہے جو کبھی بین السطور جھلکتا ہے اور کبھی واشگاف بھی ہوجاتا ہے۔

 اشتراکیت اور سوشلزم سے اہل مغرب کی دشمنی کی اصل وجہ بھی یہی خوف تھا کہ وہ ببانگ دہل مزدوروں کے حقوق کا داعی تھا، ورنہ تہذیب جدید کے عمومی مقاصد، مادہ پرستی جدوجہد میں دین و اخلاق سے بے نیازی کے لحاظ سے دونوں میں ذرہ برابر فرق نہ تھا۔ اس کے انہدام کے بعد اب صرف اسلام رہ جاتا ہے جو غریبوں ، مفلسوں اور پسماندگان کے حقوق کا داعی ہے، اس لئے اہل مغرب کا ہدف اب اسلام ہے، ورنہ اہل مغرب یہ جانتے ہیں کہ عسکری اور مادی قوت کے لحاظ سے ملت اسلامیہ کا ان سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔

اشتراکیت کا ظہور: اشتراکیت کا ظہور کے وقت سے دنیا کے سیاسی رجحانات کو دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے۔ بائیں بازو والی جماعت Leftist مزدوروں کے حقوق کی علمبردار اور کلیت پسندانہ نظام معیشت کی داعی تھی، مگر رفتہ رفتہ یہ اصطلاح عمومیت اختیار کرتی گئی، یہاں تک کہ ہر وہ جماعت جو منصفانہ تقسیم دولت کا نعرہ بلند کرتی، وسائل پیداوار کو قومیانے کی وکالت کرتی اور سرمایہ دارانہ رجحانات کی نفی کرتی بائیں بازو کی صف میں شامل کی جانے لگی۔ ایسی تمام جماعتیں ، گروہ یا افراد چوں کہ بنیادی طور پر مارکس کے مادی نظریہ سے متاثر تھے، لہٰذا نھیں مذہب کا بھی مخالف گردانا جانے لگا۔

مارکس اور اس کے متبعین کی نظریاتی لغزش یہ تھی کہ اس نے نفس مذہب کو اس ظلم و ستم کا حقیقی سبب قرار دیا جس کا شکار اس کے زمانہ کے مزدور اور کسان تھے۔ اس کی نظر سرمایہ اور دولت کی کنہ کو نہ پاسکی، جس نے مذہب اور اخلاقی اقدار دونوں کا استحصال کیا تھا اور آج بھی کر رہے ہیں ۔ اشتراکیت کی اس لغزش کا فائدہ سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں نے خوب اٹھایا اور اس کو اخلاق کا مخالف اور الحاد کا داعی قرار دیا۔

 دائیں بازو والی جماعتوں Rightist کا اعلان یہ تھا کہ وہ اخلاق و مذہب میں یقین رکھتی ہیں اور آزاد مسابقت کی علمبردار ہیں ۔ آزادی مسابقت سماج کے ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں اور مواقع کے استعمال کی فرصت عطا کرتی ہے اور کلیت پسندی کی تنگی اور قید سے ہر فرد کو نجات دلاتی ہے۔ وہ آزاد معیشت کو ہر طرح کے معاشی مسائل کا واحد موثر اور قابل عمل ذریعہ قرار دیتی ہے اور یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی برکتوں سے عوام اور خواص دونوں ہی حسب استطاعت مستفید ہوتے ہیں ۔ اس دعویٰ کی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے وہ سرمایہ دارانہ ممالک کی غیر معمولی خوش حالی کو بطور دلیل پیش کرتی ہے۔

 سوشلزم صرف معاشی تحریک نہیں تھی: آزاد معیشت کے حامیوں اور اشتراکیت کے درمیان بحث و مباحثہ میں اشتراکیت کو عموماً ایک متبادل معاشی نظام اور ایک کلیت پسندانہ سیاسی نظام کے طور پر پیش کیا جاتا رہا اور اسی حیثیت سے اس کے نتائج اور عواقب زیر بحث آتے رہے ہیں ، لیکن سوشلزم یا اشتراکیت اپنی حقیقت کے اعتبار سے سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں کے خلاف ایک احتجاج تھی۔ اس کا مقصد ظلم اور ناانصافی کا ازالہ، مزدوروں اور مظلوم طبقات کو ان کا حق دلانا تھا۔ اس کا ثبوت ان سوشلسٹ تحریکوں اور انفرادی تحریروں سے ملتا ہے جو مارکس سے قبل اور اس کے بعد انگلستان میں معرض وجود میں آئی تھیں ۔چارلس فوریر (1772-1837) اور رابرٹ اوون (1771-1858) نے خٰالی سوشلزم (Utopian Socialism) نظریہ کو جنم دیا۔ ان دونوں کی نظر میں کسی سیاسی عمل کی اہمیت نہ تھی، بلکہ وہ ترغیب، تفہیم اور تعاون کے ذریعہ ایک ایسے نظام کو جنم دینا چاہتے تھے جو سرمایہ دار کے ظلم اور چیرہ دستی سے پاک ہو۔ اس سلسلہ میں ایک نام سینٹ سائمن (1760-1825) کا بھی لیا جاتا ہے، جو منصوبہ بندی اور بڑے پیمانہ پر صنعت کاری کو ظلم و استحصال کا ازالہ سمجھتے تھے۔ یہ تحریریں درحقیقت انفرادیت پسندی اور آزاد معیشت کے خلاف پرزور احتجاج تھیں ۔ مارکس کے بعد سوشلزم کے نظریات میں مختلف تبدیلیاں آئیں جن میں تدریجیت (Fabian Society) بھی بطور ایک تحریک ابھری، جس کے سرخیل برنارڈ شا کا نام بھی ہے۔

 اس مقالہ میں سوشلزم کا تاریخی تجزیہ مقصود نہیں ہے بلکہ صرف اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سوشلزم کی پوری تحریک اپنی اصل کے اعتبار سے مزدوروں ، غریبوں ، اور مظلوم طبقات کی داد رسی کیلئے برپا کی گئی تھی۔ اگر چہ مارکس اور اینجل کے ہاتھوں اس میں نام نہاد سائنسی نظریہ کا وجود ہوا اور جوش و جذبات کے تحت اس نے بعض ابدی صداقتوں اور بنیادی اخلاقی صفات کو نظر انداز کر دیا۔ نتیجتاً وہ ایک ایسی تحریک بن گئی جو صرف معاشی اور سیاسی تغیرات کے ذریعہ اپنے انسانیت پسند مقاصد کو حاصل کرنا چاہتی تھی مگر سوویت یونین کی ناکامی نے اس پوری تحریک پر کاری ضرب لگائی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اس تحریک کو ختم کرنے پر اپنا زور صرف اس لئے کیا تھا کہ وہ ان کے مفادات کے برعکس مزدوروں کے حقوق کا نام لیتی تھی۔

 آزاد معیشت کا سیلاب: آج کی دنیا میں آزاد معیشت اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ اس سیلاب میں انصاف اور انسانیت دوستی کی اقدار جس طرح غرق ہورہی ہیں ان کا اندازہ کرنے کیلئے یہاں صرف چند اہم نتائج کا ذکر کافی ہوگا۔ ہندستان میں معاشی پالیسی میں جو تبدیلی آئی ہے، اس کے نتیجہ کے طور پر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں ہر چہار طرف اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کی پالیسی کے تحت غریبوں کے بجٹ میں جو اشیاء آتی تھیں ان کی قیمتوں پر جو سرکاری سبسیڈی (Subsidy) دی جاتی تھی وہ اب ماہرین معاشیات اور دانش وروں کے نزدیک ایک غیر معمولی بوجھ تصور ہونے لگی ہے، چنانچہ موجودہ فینانس منسٹر کا وعدہ ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ان کو پچیس فیصد تک محدود کر دیا جائے گا۔ نئے بجٹ میں وہ صنعت کاروں کے ٹیکس میں جو کمی کی گئی ہے اور درآمدات پر ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے وہ دوسری سہولتوں کے ساتھ واقعتا حالیہ بجٹ کو خوابوں کی تعبیر (Dream Budget) کہا جارہا ہے۔

تعلیم جیسے شعبہ میں حکومتی امداد میں غیر معمولی کمی کی وجہ سے یونیورسٹی اور کالجز کی فیس میں دو سے لے کر چار گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ پرائیوٹ اسپتالوں کی ہمت افزائی کے نتیجہ میں اب علاج معالجہ غریبوں کی دسترس سے باہر ہوگیا ہے اور سرکاری اسپتال کی حالت خستہ سے خستہ تر ہوگئی ہے۔ نجی کاری کی پالیسی کے تحت روز مرہ کی زندگی کتنی اذیت ناک ہوسکتی ہے اور اس کا اندازہ لگانے کیلئے اعداد و شمار پیش کرنے کے متحمل یہ صفحات نہیں ہوسکتے۔ بس اتنا اشارہ کافی ہے کہ اس ملک میں غریب اور امیر کا تفاوت غیر معمولی سرعت سے بڑھتا جارہا ہے۔ ایک چھوٹا سا طبقہ ہے جو آمدنیوں اور دولت کے انبار پر داد عیش دے رہا ہے؛ جبکہ سرکاری اندازے کے مطابق ’’ہندستان کی 35 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔ سرمایہ داروں کا تسلط اتنا شدید ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے فاضل زمینوں (تقریباً 125000 ایکڑ) کو گجرات میں دلتوں کو الاٹ کیا ہے مگر نہ دلتوں میں ہمت ہے اور نہ ہی حکام میں کہ وہ ان زمینوں کو ان کے سابق مالکان کے قبضہ تصرف سے نکال سکیں ‘‘۔ (انڈیا ٹوڈے، مئی 1997ء)۔

 اس ضمن کی ایک رپورٹ پی سائی ناتھ کی ہے ، جس کا عنوان ’’ہر شخص اچھی خشک سالی کا متمنی ہے‘‘ اس المناک حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ کس طرح ملک کے غریب ترین علاقوں کے قبائل اور طبقات جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے تسلط کا شکار ہیں ۔

 مغربی ممالک میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت غربت اور امارت کا فرق غیر معمولی طور پر بڑھا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ جدید نظام تدبیر کے تحت پچھلی دہائیوں میں ایسی اسکیموں کا رواج غیر معمولی رفتار سے بڑھا ہے جو آمدنی بڑھاتی ہیں لیکن روزگار نہیں بڑھاتیں (1996. H.D.R)۔ غریب اور امیر ملکوں کے درمیان ذرائع و وسائل کی تقسیم کا یہ حال ہے کہ دنیا کے 80فیصد ذرائع و وسائل صرف پچیس فیصد ممالک اور طبقات کی دسترس میں ہیں ۔

 دنیا کے وسائل و ذرائع پر غیر منصفانہ تصرف کا اندازہ آپ شمال و جنوب کے تجارتی مذاکرات، ڈلکل تجاویز گیٹ کے تحت ہونے والے متعدد مذاکرات اور حال ہی میں ہونے والے مختلف تجارتی معاہدوں سے لگا سکتے ہیں ۔ جن میں سب کا مقصد ترقی یافتہ اور سرمایہ دارانہ ممالک کی بالا دستی اور معاشی تفوق کا برقرار رکھنا ہے۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ داخلی تفریق دولت یا بین الاقوامی، دونوں میدانوں میں یہ نظام زرداری ہے جو سرمایہ دار کا خادم بنا ہوا ہے۔ سوشلزم کے اختتام کے بعد اب کوئی طاقت ایسی نہیں رہ گئی ہے جو اس نا انصافی اور ظلم و زیادتی کے خلاف جدوجہد کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو اور نہ ہی کوئی ایسا طاقت ور نظریہ ہے جو غریبوں اور کمزوروں کے حق کی علمبرداری کی سکت رکھتا ہو اور سرمایہ داری کے کابوس سے مبارزت کے عزم و ارادہ کا مظہر ہو۔ اس سیلاب میں ماہرین معاشیات تو بہہ گئے ہیں ، سماجی مصلحین بھی آزاد معیشت کے آزادانہ کھیل کو حسرت سے دیکھتے ہیں ۔

تحریر: ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی … ترتیب: عبدالعزیز

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔