نظریۂ آبادی میں مالتھس کے افکار کا جائزہ 

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں 

عرفان شاہد فلاحی
آج لوگوں کے ذہنوں میں آبادی کے متعلق بے بنیاد اور خوف ناک تصورات پیوست ہیں۔اس طرح کی ذہن سازی میں مغربی میڈیاکا کلیدی رول ہے ۔ آج جگہ جگہ ایڈس کی روک تھام کے لیے کنڈوم کے اشتہار ملیں گے ۔ حالاں کہ یہ ایڈس کا علاج نہیں، اصلاً آبادی کو کم کرنے کا حربہ ہے ۔
تخفیفِ آبادی (Population Control)کی پہلی تحریک انگلستان میں شروع ہوئی ۔ اس کے سربراہ ایک عیسائی انگریز تھامس روبرٹ مالتھس (Thomes Robert Malthus) تھے ۔ مالتھس نے 1798ء میں انگلستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کا جائزہ لیتے ہوئے ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے :

"On principal of population as it effects the future improvement for society:

اس کتاب نے انیسویں صدی میں ایک تحریک سی پیداکردی۔ اس کے زیرِ اثر بہت سے ادارے اور انجمنیں قائم ہوئیں، تاکہ لوگوں کوضبط ولادت (تقصیرآبادی) اور اس کی افادیت سے روشناس کرایاجائے۔ ہماری سابقہ وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی تو اس نظریہ سے اس قدر متاثر تھیں کہ انہوں نے اس کا نفاذ جبراً ہندوستان میں کرڈالا ۔ بعد میں یہی چیز کانگریس حکومت کے زوال کا سبب بنی ۔

مالتھس کے نظریۂ آبادی کے اصول 
مالتھس کے نظریۂ آبادی کے اصول درج ذیل ہیں:
1۔ غذائی اجناس انسانی بقا کے لیے بہت ضروری ہیں ۔
2۔ مرد اور عورت کے درمیان فطری طور پرجنسی کشش پائی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں آبادی میں اضافہ یقینی ہے ۔
3۔ انسانی آبادی میں اضافہ جیو میٹریکل (Geometrical)انداز میں ہوتاہے جیسے 2۔4۔8۔16۔
4۔ اس کے بالمقابل غذائی اجناس کی پیداوار ارتھمیٹکل (Arithmetical) انداز میں ہوتی ہے جیسے 1۔2۔3۔4۔5۔
5۔ ہر ملک کی آبادی خود بخود 25 سال میں دوگنی ہوجاتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کسی ملک کی آبادی 1975ء میں پچاس لاکھ تھی تو 2000ء میں ایک کروڑ ہوجائے گی ۔
یہ ہے مالتھس کا نظریۂ آبادی جسے ایک حقیقت تسلیم کرلیاگیااور کافی عرصے تک وہ یورپ ، امریکہ اور دیگر ایشیائی اور افریقی ممالک میں زیر عمل رہا۔ اس نظریہ کی وجہ سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوئیں اور یورپ اور امریکہ میں اس کی مخالفت بھی ہوتی رہی ہے۔ بعض ماہرین معاشیات نے مالتھس کے اس نظریہ پر سخت تنقید کی ہے، جسے معاشیات کی تاریخ (History of Economic Thought) سے متعلق کتابوں میں دیکھا جاسکتاہے ۔
مالتھس کے اس نظریہ سے متاثر ہوکر بہت سے افراد عزل ، فیملی پلاننگ اور مانع حمل ادویہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج کل کچھ نام نہاد مسلم دانش ور بھی اس نظریہ کی ترویج اور تصدیق کررہے ہیں ۔ یہ حضرات غور نہیں کرتے کہ یہ تمام تدبیریں درحقیقت قتل نفس کے مترادف ہیں۔ آخر لوگ معصوم جانوں کو مارنے سے پہلے اپنے حیوانی نفس ہی کو کیوں نہیں ماردیتے، جس سے یہ مسئلہ ہی ختم ہوجائے۔ بہت سی NGOs (غیر سرکاری تنظیمیں) انسانی حقوق (Human Rights) کی باتیں تو کرتی ہیں، لیکن جب رحم مادر میں پرورش پانے والے بچے کے حقوق کی بات آتی ہے تو بالکل خاموش ہوجاتی ہیں،حالاں کہ اس نامولود معصوم بچے کا قتل کرنا بھی ایک عظیم گناہ ہے ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ (نامولود) جنین میں جان نہیں ہوتی، چنانچہ اسے مارا جاسکتاہے ۔ حالاں کہ معاملہ اس کے برخلاف ہے ۔ جنین میں جان ہوتی ہے، لیکن اس کے پاس قوت مدافعت نہیں ہوتی۔ اگر قوت مدافعت ہوتی تو وہ اپنی بقا کے لیے ضرور دفاع کرتا۔ پروفیسر کیتھ مور جو علم الجنین کے بہت بڑے ماہر ہیں، انہوں نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ جنین میں جان ہوتی ہے ۔

آبادی اور خوراک 
مالتھس اور جدید ماہرین معاشیات کا یہ دعویٰ ہے کہ آبادی میں اضافہ جیومیٹریکل طریقہ سے اور غذائی اجناس میں پیداوار کا اضافہ ارتھمیٹیکل انداز میں ہوتاہے، جب آبادی کے تناسب سے غذائی اجناس فراہم نہ ہوں گی تو معاشی بحران پیدا ہوجائے گا۔ لیکن یہ ایک بے بنیاد مفروضہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اس طرح بنائی ہے کہ جو چیزیں انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہیں، جیسے ہوا، پانی اور رات اور دن کا ایک حساب سے آنا جانا، یہ چیزیں انسان کو ایک محدود وقت کے لیے بھی نہ ملیں تو انسان ختم ہوجائیں گے ۔ ہوا اگر انسان کو تھوڑی دیر کے لیے بھی نہ ملے تو وہ موت کے دہانے پر پہونچ جائے گا۔ بغیر رکاوٹ وہ اسے مل رہی ہے۔ پانی بھی اس کے لیے اشد ضروری ہے۔ یہ بھی فراوانی سے دست یاب ہے۔ ہمارا یہ کرۂ ارض جس پر ہم زندگی گذار رہے ہیں اس کا تین حصہ پانی پر مشتمل ہے ۔ پانی کے بغیر انسان دو تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگر انسان کیمیائی اجزاء (Chemical reaction)سے پانی بنانا بھی چاہے تو وہ اتنا مہنگا ہوگا کہ اس کو بہت ہی امیر طبقہ ہی خریدکر پی سکے گا۔ اللہ تعالی نے پانی کو بہت ہی وافر مقدار میں پیدا کیا، تاکہ کسی انسان کی اس پر اجارہ داری قائم نہ ہوسکے ۔
اب غذائی اجناس (Food grains)کو لیجئے۔ اس کا تعلق زراعت(کھیتی باڑی) سے ہے ۔ جہاں تک زراعت کا تعلق ہے تو اس پیشے میں ہمارے ملک کے تقریباً پچاس فی صد لوگ مصروف ہیں اور صرف چالیس فی صد زمین پر زراعت کی جارہی ہے ۔ اس کے باوجود سالانہ پیداوار 212 ملین ٹن ہے۔ جب کہ ہندوستان کی زرعی پیداوار دوسرے ممالک کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ امریکہ ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جہاں زراعت پیشہ لوگوں کی تعداد تین سے سات فی صد کے قریب ہے ، زرعی پیداوار حیرت انگیز ہے۔ اگر ہندوستان بھی اسی طرح سے پیداوار کرے اور اپنی تمام قابل کاشت زمین استعمال کرے تو انشاء اللہ اتنا غلہ پیداہوگا کہ یہاں کی مجموعی آبادی بغیر کام کیے تین سال تک بآسانی استعمال کرسکتی ہے ۔
یہ بات کہ آبادی کی کثرت لوگوں کو افلاس اور فقرو فاقہ پر مجبور کرتی ہے ، حقائق سے دور ہے۔ چین اس کی زندہ مثال ہے ۔ چین ایک کثیر آبادی والا ملک ہے ۔ اس کی آبادی ہندوستان کی آبادی سے بھی زیادہ ہے، پھر بھی اس کا شمار دنیا کے خوش حال ممالک میں ہوتاہے ۔ چین میں جو صنعتی انقلاب آیا وہ حیرت انگیز ہے ۔ آج دنیا کے ہر بازار میں چین کی مصنوعات دست یاب ہیں۔ یہ صنعتی انقلاب افرادی قوت(Manpower)،فنی و صنعتی صلاحیت اور علمی ترقی کا نتیجہ ہے ۔
غریبی اور فقرو فاقہ کی وجہ کچھ اور بھی ہوسکتی ہے ۔ آبادی ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے ۔ اس سے اہم مسئلہ تقسیم آمدنی کا ہے ۔ دنیا کے اکثر و بیش تر ممالک اس مسئلے سے اپنی نظریں چرارہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں صحت ، پانی اور دوا پر صرف نو بلین ڈالرخرچ ہورہے ہیں، اس کے بر خلاف دفاع کے نام سے جنگی سازو سامان پر نو سو بلین ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں ۔ اتنے بڑے تفاوت کو بہت آسانی سے نظر انداز کیاجارہاہے جو افلاس اور فقرو فاقہ کی ایک بنیادی اوربہت بڑی وجہ ہے ۔
فقرو فاقہ اور بے روز گاری کا تعلق کثرت آبادی سے نہیں، رشوت خوری اور کرپشن سے ہے۔ جب کسی ملک کی عدلیہ انصاف کے قوانین کو بھول جاتی ہے اور جرائم کی روک تھام کرنے والے افراد خود کو کرپشن میں مبتلا کرلیتے ہیں تو ایسی صورت میں ملک کے معاشی حالات دن بدن خراب ہونے لگتے ہیں ۔
جن لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے انہیں چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی پالیسیوں کو تبدیل کریں، مذہبی تعصبات کو دور کریں اور ملک کی افرادی قوت کو مثبت کاموں میں لگائیں۔ گذشتہ سال بالی ووڈ فلم فیسٹول پر جو رقم خرچ کی گئی ہے اگر وہ رقم کسی فلاحی اور سماجی کام پر خرچ ہوتی تو اس سے ملک کی بہت بڑی رفاہی خدمت انجام پاسکتی تھی۔ ملک کے حکم رانوں کو چاہئے کہ وہ چین کی طرح افرادی قوت(Manpower) پر اپنی نظر مرکوز رکھیں اور افرادی صلاحیت کو پروان چڑھائیں، تاکہ لوگوں کے اندر فنی اور تکنیکی صلاحیت پیداہوسکے۔ دوسری طرف مقننہ اور عدلیہ کو بہتر بنانے کی کوشش ہونی چاہیے، تاکہ کرپشن پر قابو پایاجاسکے۔ اس سے ہندوستان مستقبل قریب میں سپر پاور (Supper power)طاقت بن کر ابھر سکتاہے۔
فقر وفاقہ اور افلاس کے ڈر سے کثرتِ اولاد کی مخالفت کی جاتی ہے، حالاں کہ اس کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ کثرت اولاد سے آمدنی بڑھتی ہے اور والدین کو بڑھاپے میں سہارا مل جاتاہے ۔ مغرب اس سے محروم ہے۔ وہاں معمر والدین کو الگ تھلگ اولڈ ہاؤس (Old House)میں رہنا پڑتاہے۔ مغرب میں والدین زیادہ بچوں اور شور شرابے کو پسند نہیں کرتے ۔ یہ بات بچوں کے ذہن میں پیوست ہوجاتی ہے اور جب والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں اور گھر میں شور مچاتے ہیں تو یہی بچے انہیں اولڈہاؤس (Old House)میں چھوڑ آتے ہیں اور والدین وہیں پرسسک سسک کر مرجاتے ہیں ۔
دنیا کی بہت سی مشہور شخصیتیں اپنے والدین کے تیسرے اور چوتھے نمبر کے بچے رہے ہیں۔ اگر ان کے والدین دو ایک کے بعد اولاد کا سلسلہ ختم کردیتے تو ہمیں ان گراں قدر عظیم شخصیتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔ چارلس بیبسچ موجدکمپیوٹر ، ایڈیسن موجد روشنی اور جیم سواڈ موجد ٹرین وغیرہ اپنے والدین کے تیسرے اور چوتھے نمبر کے بچے رہے ہیں ۔
آبادی سے پیداوار میں اضافہ ہوتاہے۔ جتنے ہاتھ اتنے کام ۔ چین اس کی زندہ مثال ہے ۔
اسلام انسان کو بے کاری اور لہو ولعب سے رو کتا ہے، نیز محنت (Labour)اور تجارت (Trade)پرزور دیتاہے ۔ اس کے برخلاف موجودہ زمانے کے مفکرین زر کی ہیراپھیری پر زیادہ زور دیتے ہیں اور سود کو پروان چڑھاتے ہیں ۔ اس سے پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے اور بالآخر معیشت تباہ ہوجاتی ہے ۔
گاٹ GATT (General Agreement on Tariff and Trade) کی آخری کانفرنس میں پروفیسر ڈنکل نے ایشیائی ممالک میں زراعت کی صنعت کو مفلوج کرنے کے لیے بے انتہاکوشش کی، تاکہ ایشیائی ممالک جلد از جلد امریکی اور یورپی ممالک سے بھیک مانگنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ہائی برڈ اور ڈنکل پرستاؤ اسی منصوبے کا ایک نمونہ ہے ۔
فقروفاقہ غذائی اجناس (Food Grains) کی صحیح تقسیم نہ ہو نے کی وجہ سے ہے ۔ دوسری وجہ حقوق کی پامالی (Destruction of Entitlement)ہے جس کا اشارہ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتیہ سین نے اپنی شاہ کار کتاب "Poverty and Famine” میں کیاہے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانی حقوق کی بحالی کی جگہ جگہ تلقین کی ہے، تاکہ لوگ ایک دوسرے کے حقوق کو سمجھیں ۔

مآخذ 
1۔ اسلام اور ضبط ولادت ۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی
2۔ احیاء علوم الدین ۔ امام غزالی ؒ

3. Economic Thought by Erecroll Published by Macmillon.
4.Principal of Population. by Thomas Robert Malthus
Published by Oxford.
5. Human Rights : At a glance,-Report.
6.Spread of Islam by professor Arnold, published by Good word.
7. Muslim Attitudes towards Family Planning By Akhter
Hameed Khan, published by Olivia schieffelin, New York.
8. Illustration and proofs of the principle of population,
including an examination of the proposed Remedies of Malthus By Francis Place, published by Boston, Houghton Mifflin co.
9. Family Planning and Abortion – an Islamic Viewpoint By
Qazi Mujahidul Islam, published by Islamic Medical association, Durban, South Africa.
10. An objective Look at the call for family planning by
Dr.Abdul Rahman Al-Najjar, published by Darul Fikr Al-Arabi, Cairo
11. Abortion and the Status of the foetus by W.B. Bondeson
published by D.Reidel publishing company: Holand 1983.
12. Report on Production by Govt. of India.
13. Indian Economy by Mishrapuri, published by S.Chand
publishing Company.2001
14. Growth in China’s Economy, China Govt. Report.
15. Economic Development by Jhon, Mellor published by
Macmillon.
16. Hunger and public Action by Jean Dreze and Amartiya
Sen published by Oxford University Press.
17. Poverty and Famines By Amartiya Sen, publisherd by
Oxford University Press.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔