نظم – "ابزرڈِٹی”

ادریس آزاد

یہ بے معنویت
کسی معنی ِ منتظر کی مشیت
جو الفاظ کے
تہہ بہ تہہ پیرھن میں
غلافِ سخن میں
لپٹ کر بصیرت کے رنگیں کفن میں
سماعت کو پھر قصہ۶ الفِ لیلیٰ
سناتی رہی ہے

یہ تحریر و تقریر ِ مہمل
یہ کیا ہے؟
کسی صفحہ۶ ہستی ِ غیر موجود پر
روشنائی سے لکھا
کوئی کارنامہ
کسی کارنامے کے خالق
کے ہونے کی تصدیق کا بے اثر سا بہانہ

کتابوں میں کیسے
ورق میں ورق دھنس کے رہتا ہے،
اے باشعورو!
حضورو!
وہیں پر کہیں، درمیاں لفظ پھنس کر
سسکتے رہے تو
معانی کہاں سر اُٹھانے قابل رہیں گے؟

مگر ایک حل ہے
کوئی ماں کسی لعل کو مت سکھائے
زباں، چال، طرز ِ تکلّم

سکھائے
تو دل کو سکھائے
سکھائے کہ ہرلفظ اِک اور پردہ ہے
اِک اور دھوکا

وہ افیون جس کے سہارے
دلوں تک پہنچنے کے سو راستوں میں سے
کوئی بھی لفظوں کا اپنا نہیں ہے۔
کوئی معنی ِ مستقل تک پہنچتا نہیں ہے۔
یہاں صرف بے معنویت ہی بے معنویت ہی بے معنویت
کی تاحد ِ فہم حقیقی
کراں تا کراں
سو سرابوں سے پُر
اک نرالی سے تفہیم ہربار
تخلیق ہوتی رہے گی

تبصرے بند ہیں۔