نفرتوں کے تمام اسباب مہیا کر کے

ذکی طارق

(سعادت گنج، بارہ بنکی)

نفرتوں کے تمام اسباب مہیا کر کے

رکھدیا کس نے مرے شہر کو صحرا کرکے

صرف تسکینِ انا کے لٸے ایسا کرکے

فاٸدہ کیا ملا تم کو مجھے رسوا کرکے

بھاٸی کو بھاٸی سے ہی معرکہ آرا کرکے

برف کو رکھ دیا یہ کس نے شرارہ کرکے

سچ کے سورج کو عطا کردی حیاتِ ابدی

دشمنوں نے مرے سر کو سرِ نیزہ کرکے

عمر بھر خود وہ اندھیروں کے شبستاں میں رہا

جو گیا دہر سے ہر گھر میں اجالا کرکے

شکر ہے پیاس مری بن گٸی کوثر کا وقار

تم نے کیا پایا بھلا قبضے میں دریا کرکے

عطر بیزی پہ ہیں ماٸل تری دلکش یادیں

لمحہ لمحہ مرے احساس کو زندہ کرکے

جو فقط میری اداسی پہ تڑپ اٹھتا تھا

آج وہ خوش ہے مرے غم میں اضافہ کرکے

میں وہ لمحہ ہوں ”ذکی “ جو کہیں رکتا ہی نہیں

کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا مرا پیچھا کرکے

تبصرے بند ہیں۔