نقاب پوش

نظر عرفان

 رات کتنی خوبصورت ہے

اور میں کتنا  بدنصیب

مجھے نیند نہیں آتی!

میں اپنے بستر پہ ہوتا  ہوں

کھڑکیاں کھلی ہوتی  ہیں

اور یہ  رقص کائنات  باد باراں و طوفاں

اور یہ چاندنی  راتیں

اور آسماں میں مسکراتے ستارے

یہ ستارے شاید  مجھے پہچانتے  ہوں

جو کبھی کبھی ہمیں نصیحت کرتے ہیں

اب سو جا  رات  دیر ہوئی

رات کتنی خوبصورت ہے

 پر میں سو نہیں  پاتا

اور کبھی چنچل ہوائیں

 میرے کمرے میں آتی  ہیں

مجھے میٹھی نیند سلانا  چاہتی  ہیں

میں اپنا  وہ  بیتے دن بھولنا چاہتا  ہوں

پر کھڑیوں سے باہر

کچھ ہی فاصلے  پہ، اک چھوٹا سا  درخت ہے

جومجھے اندھیری  راتوں   میں

کھڑا کوئی نقاب پوش دکھائی  دیتا ہے

 جو مرے  بیتے دن یاد  دلاتا ہے

اور میں ان دنوں میں کھو جاتا ہوں

یہ سلسلہ ہے  اک زمانے سے

اور یوں صبح  ہو جاتی ہے

تبصرے بند ہیں۔