’ نمازکے اختلافات اوران کا حل‘ پر غلام نبی کشافی کا استدراک

محمدغطریف شہبازندوی
’ نمازکے اختلافات اوران کا حل‘ پرجناب غلام نبی کشافی کا استدراک غورسے دیکھا۔ استدراک نگارنے بے وجہ ہی اپنے استدراک کواتناطول دیاہے جبکہ جوبات وہ کہنی چاہتے تھے وہ ۵، ۶سطرمیں آسکتی تھی۔ پورے مضمون میں موضوع سے متعلق کوئی کام کی بات نہیں ہے سات صفحے غیرمتعلقہ بحثوں کی نذرکردیے۔ کشافی موصوف نے تواترعملی کونہ جانے کیوں احادیث کے خلاف سمجھ لیا، حالانکہ قول، عمل اورتقریر (یعنی رسول اللہ نے کسی کام پر صادکیاہو) سنتِ عملی یاتواترعملی میں خودہی شامل ہے۔ ایک تووہ اس کے مفہوم کوسمجھ نہیں پائے۔ دوسرے، طرفہ یہ کہ کتاب اورمصنف کتاب جناب ڈاکٹرمحی الدین غازی کو’’نئی نسل کواحادیث نبوی سے بدظن‘‘ کرنے کا مجرم بھی قراردے ڈالا۔ پورامضمون اس طرح کے رکیک الزاما ت سے بھراہواہے۔ حالانکہ بات مختصرتھی اس کا بتنگڑبنادیاگیا۔ ہرمسلمان بچہ دین کے مبادیات اورنمازوغیرہ اپنے گھرمیں والدین، بھائی بہنوں سے اوراسکول میں اپنے استادوں سے سیکھتاہے۔ سن شعورکوپہنچنے کے بعدہی اسے حدیث وفقہ کی اصل کتابیں پڑھنے کی نوبت آتی ہے۔ علما اورطالبانِ علومِ نبوت بھی 14-15 کی عمرکے بعدہی حدیث وفقہ کی کتابیں پڑھتے پڑھاتے ہیں ۔ کشافی موصوف نے بھی اس طریقہ سے نمازسیکھی ہوگی۔ یہی عملی تواترہے جوامت کونسلاًبعدنسل منتقل ہوتاآیاہے۔ نبی ﷺ صحابہ کواپنے قول وعمل سے نمازسکھاتے تھے، صحابہ نے اپنے بچوں (تابعین) کوبھی اسی طرح سکھائی۔ حدیث وفقہ کی متداول کتابیں موجودنہ تھیں کیونکہ عہدنبوی اورخلافت راشدہ میں حدیث کی تدوین ہی نہ ہوئی تھی۔ علم دین سینہ بہ سینہ منتقل ہورہاتھا، صحابہ وتابعین کے حلقے تھے جواپنے طلبہ اورشاگردوں کوزبانی علم دین سکھاتے تھے۔ اسی کوسنت کہتے ہیں اورتواترعملی میں یہ چیزخودبخودآجاتی ہے۔ نبی ﷺ کے زمانہ میں انفرادی طورپر کچھ صحابہ نے ضرورحدیث کے کچھ صحیفے مرتب کیے تھے جن کے نا م تاریخ نے نوٹ کیے ہیں ، مگروہ زیادہ ترمختصراورذاتی نوٹس کی شکل میں تھے کتابی صورت نہ تھی۔ حدیث کی باقاعدہ تدوین توحضرت عمربن عبدالعزیزؒ کے زمانہ میں شروع ہوئی ہے۔ حدیث کی موجودہ متداول کتابیں نہایت اہم ہیں اورامت ان سے استفادہ کرتی ہے لیکن ایک عملی مشکل رہ جاتی ہے وہ یہ کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی یہ دعوی نہیں کیاکہ اس نے سارے ذخیرہ حدیث کا استقصاء کرلیاہے۔ دوسرے یہ کتابیں فطری طورپر اپنے مؤلفین کی علمی وسعت، فقہی اسلو ب، ذاتی اجتہاداورشخصی ذوق ورجحا ن کی آئینہ دارہیں ۔ ان کتابوں سے استفادہ کرناناگزیرہے اورکیاہی جاتاہے۔ تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ کا مسئلہ کیاہے ؟حنفی طریقہ کے مطابق یامثلاً مالکی طریقہ کے مطابق جولوگ نماز پڑھتے ہیں کچھ لوگ بخاری ومسلم وغیر ہ میں کئی مسئلوں کا ذکراس طریقہ پر نہ پاکرچیں بہ جبیں ہوتے ہیں اورفتوے دینے لگتے ہیں کہ حنفیوں کی نماز مطابقِ سنت نہیں ، لہذاہوئی ہی نہیں یااگرہوئی توافضل طریقہ پر نہیں ہوئی وغیرہ۔ اسی طرح نمازکے بے شمارمسائل ہیں جن میں لوگ جھگڑاکرتے ہیں ۔ اوران سے مسلکی اختلافات بڑھتے ہیں ۔ مصنف کتاب کا کہناہے کہ ان طریقوں میں جھگڑنادرست نہیں ۔ یہ سارے طریقے درست اورصحیح ہیں کیونکہ تواترعملی سے ثابت ہیں ۔ استدراک نگارنے اس مقصدکونہیں سمجھااورالزام یہ لگادیاکہ مصنف’’منکرین سنت ‘‘سے دوقدم آگے ہیں ۔ دلیل یہ دی ہے کہ پوری کتاب میں صرف دوحدیثوں سے استدلال کیاہے اورکتاب کوفقہاء کے اقوال سے بھردیاہے۔ یہ اعتراض بھی بے جااوربوداہے کیونکہ عملی تواترکی بات ایک جزوی نہیں اصولی مسئلہ ہے۔ اس بارے میں اگرکوئی با ت کہنی ہے توان فقہا ومحدثین اوراصولیین کے اقوال وآرا ء ہی تونقل کی جائیں گی جوتواترعملی کی اہمیت کے قائل ہیں ۔ کتاب میں نماز کے جزوی مسائل سے بحث نہیں کی گئی ہے جوکثرت سے احادیث نقل کی جاتیں ۔ کشافی موصوف نے مسئلہ کی نوعیت کوسمجھے بغیراعتراض جڑدیاہے۔ ویسے یہاں یہ بھی عرض ہے کہ غالباًمصنف نے اختصارکے پیش نظرحدیث کی کتابوں سے حوالے نہیں دیے ہیں ورنہ تومؤطاکوہی اٹھاکردیکھ لیجئے، امام مالک عملِ اہل مدینہ اورتعامل امت (متواترعملی) کی جابجامثالیں دیتے ہیں ۔ اورشاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے نزدیک مؤطاذخیرۂ حدیث کی اصل ہے، بخاری اسی پر مستخر ج اوراضافہ ہے۔ استدراک نگارنے مزیدلکھاہے :’’عملی تواترکے مفروضہ کی وکالت کرنامحض ایک فریب ہے اوراس کے پیچھے اصل مقصداحادیث کی اہمیت کوگھٹاناہے۔ حالانکہ سنت نبوی کا عملی تواترصرف نسل یعنی صحابہ وخلفاء راشدین تک محدودومعروف رہاہے۔ ‘‘ موصوف کا یہ تبصرہ ا س درجہ جہالت ونادانی سے پُرہے کہ اس پر ’’ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ‘‘ہی کہاجاسکتاہے۔ انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ سنتِ نبوی کے عملی تواترکا انکارتوخودذخیرۂ حدیث کے انکارکومستلزم ہے !!موصوف غورفرمائیں !ہمارے نزدیک استدراک نگارکے سارے اعتراضات لچر، پوچ اوربے وزن ہیں انہوں نے اصل مسئلہ کوسمجھاہی نہیں بس اعتراضات ٹھونکتے چلے گئے!

تبصرے بند ہیں۔