نماز اور قربانی میں مناسبت (دوسری قسط)

تحریر: علامہ حمید الدین فراہیؒ… ترتیب: عبدالعزیز

اب قربانی کی حقیقت پر غور کیجئے؛ اس کا اصلی مفہوم جیسا کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی سرگزشت سے ظاہر ہے کہ نفس کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا ہے۔ یہ تسلیم و اطاعت کے ایک عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے اور اس میں اس زبردست امتحان کی سرگزشت پنہاں ہے جس میں خدا نے ابراہیم خلیل کو ڈالا تھا۔ اہل ایمان، راہِ الٰہی میں اپنی جانیں قربان کرکے، اسی اطاعت و عبدیت کی یادگاریں قائم کرتے ہیں ۔ پس جس طرح نماز اللہ کے ساتھ ہماری زندگی ہے، اسی طرح قربانی اس کی راہ میں ہماری موت ہے، اور یہی حقیقی اسلام ہے۔ چنانچہ فرمایا:

’’کہہ دو؛ میرے رب نے مجھ کو صراط مستقیم کی ہدایت بخشی۔ سیدھے دین، دین ابراہیم کی جو صرف اللہ کا پرستار تھا اور مشرکین میں سے نہ تھا۔ کہہ دو؛ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العٰلمین کیلئے ہے‘‘ (سورہ انعام، آیات:161-162)۔

 باتفاق تمام مفسرین اس آیت میں ’’نسک‘‘ سے مراد حج اور عمرہ میں قربانی کرنا ہے، لغت عرب سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ یہاں ’’صلوٰۃ‘‘ اور ’’نسک‘‘ کو ایک ساتھ رکھا ہے اور اس کے بعد علی الترتیب ’’محیا‘‘ اور ’’ممات‘‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ نظم کلام، توافق کے اصول پر، ان دونوں کی حقیقت اور ان کے باہمی تعلق کو بے نقاب کر رہا ہے؛ یعنی نماز مسلم کی زندگی ہے اور اس کی قربانی راہِ الٰہی میں اس کی موت ہے۔ پھر غور کریں تو یہ دونوں بالکل ایک ہیں ، کیونکہ یہ موت ہی حقیقی زندگی کا دروازہ ہے۔

  ’’جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے‘‘ (سورہ بقرہ، آیت:154)۔

(3  نماز اور قربانی کے دو بازو ہیں ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو صاحب عقل و ارادہ اور خیر و شر میں تمیز کرنے والا بنایا تو ایک طرف تو اس کو عظمت و رفعت کا وہ مقام بلند بخش دیا جس سے برتر اور بلند کوئی اور مقام نہ تھا، دوسری طرف اس کو ذلت و پستی کے اس کنارہ پر کھڑا کر دیا، جس سے بڑھ کر کوئی ذلت و پستی نہ تھی، چنانچہ فرمایا ہے:

’’بے شک ہم نے آدمی کی ساخت اچھی سے اچھی بنائی۔ پھر ہم نے اسے ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ میں ڈال دیا مگر جو کہ ایمان لائے اور بھلائیاں کیں ، سو انھیں ہمیشہ کیلئے انعام ملے گا‘‘ (سورہ تین، آیات:4,5,6)۔

 نیز فرمایا:

 ’’اور شاہد ہے نفس اور اس کی تشکیل، چنانچہ اس کو اس کی بدی اور نیکی الہام کی، جس نے اس کو خاک میں ملایا وہ نامراد ہوا‘‘ (سورہ شمس، آیات:7,8,9,10)۔

  اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ جب اس منعم حقیقی سے بے پروا ہوجاتا ہے تو جمال الٰہی کی روشنی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے، اور وہ باطل کے دام فریب میں پھنس کر اپنے آپ کو ہوائے نفس کے حوالہ کر دیتا ہے اور یہی خواہشات نفس اس کا معبود بن جاتی ہیں ، جیسا کہ فرمایا:

 ’’کیا وہ جس نے اپنی خواہش کو معبود بنالیا ہے اور خدا نے اس کو علم دینے کے باوجود گمراہ کردیا ہے‘‘ (سورہ جاثیہ، آیت:23)۔

 یعنی اس نے عقل اور آنکھ، کان سب کچھ پاکر گمراہی کی راہ اختیار کرلی ہے، جیسا کہ سورہ دہر میں ہے:

 ’’انسان کو ہم نے ملے جلے پانی سے پیدا کیا آزمائش کیلئے، تو اسے سنتا دیکھتا بنایا۔ ہم نے اسے راہ بتادی۔ کوئی قدر کرتا ہے اور کوئی نہیں ‘‘ (سورہ دہر، آیت2-3)۔

یعنی اگر وہ خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کو کام میں نہ لائے گا تو ناشکری کی راہ اختیار کرے گا۔

 ’’اور اس کے کان اور دل پر مہر کر دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے۔ پس اللہ کے بعد اس کو کون ہدایت کی راہ دکھائے گا۔ تم لوگ سوچتے نہیں ‘‘ (سورہ جاثیہ، آیت:23)۔

 یعنی جب اس نے خدا سے منہ پھیر لیا اور نفس کا غلام بن گیا تو خدا نے اس کو اس کی خواہشوں کے حوالے کر دیا، جو اس کے قلب کیلئے حجاب بن گئی ہیں ۔

 ’’ہر گز نہیں ؛ بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی سیاہی جم گئی ہے۔ ہر گز نہیں ! وہ اس دن اپنے پروردگار کے دیدار جمال سے محروم ہوں گے‘‘ (سورہ مطففین، آیت14-15)۔

 یعنی جس طرح وہ اس حیات دنیوی میں خدا کے نورِ ایمان سے محروم تھے، اسی طرح حیاتِ اخروی میں اس کے دیدار جمال سے محروم ہوں گے۔ آدمی جو کچھ چاہتا ہے خدا کی طرف سے وہی اس کو ملتا ہے۔ جنھوں نے نفس اور شہواتِ نفس کی غلامی پسند کی، وہ نفس کے غلام بن گئے اور قیامت کے دن اپنے نفس کی حقیقت سے دوچار ہوں گے جس کا بیان یوں کیا گیا ہے: ’’پھر وہ جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔

 اس حالت کی وجہ سے انسان کیلئے ضروری ہوا کہ وہ نفس کے صنم اکبر کو توڑے اور نفس کی حقیقت پر جن لوگوں نے غور کیا ہے، ان کو معلوم ہے کہ نفس کے دو بازو ہیں ۔ سبعیت اور بہیمیت۔ اس وجہ سے ضروری ہوا کہ انسان کو ان دونوں بازوؤں کے توڑنے کی تدبیر بتائی جائے۔ اب ان دونوں کی تفصیلات پر غور کیجئے:

(1  اوّل یعنی سبعیت کے توڑنے کی تدبیر یہ ہے کہ اللہ کے حضور خشیت و تذلل کے ساتھ نماز کی پابندی کی جائے۔ نفس کے کبر و نخوت کا سر صرف نماز ہی سے کچلا جاسکتا ہے، کیونکہ خشوع نماز کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو ہے؛ چنانچہ اسی وجہ سے فرمایا گیا ہے:

 ’’بے شک ان ایمان والوں نے فلاح پائی، جو اپنی نمازوں میں خدا کے سامنے سرفگندہ ہیں ‘‘ (سورہ مومنون، آیت:1-2)۔

نیز فرمایا ہے: ’’اپنے رب کو دل میں یاد کرو، گڑگڑاتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اور پست آواز میں صبح اور شام اور بے خبروں میں سے مت بنو، جو لوگ تمہارے رب کے پاس ہیں وہ اس کی بندگی سے اباء نہیں کرتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں ‘‘ (سورہ اعراف، آیت205-206)۔

 دوسرے مقام پر ہے: ’’اور خدائے رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر خاکساری کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے الجھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام! اور جو اپنی راتیں خدا کے حضور سجدہ و قیام میں بسر کرتے ہیں ‘‘ (سورہ فرقان، آیت:63-64)۔

 اس آیت پر غور کریں ۔ اس میں نماز سے پہلے ان کی خاکساری کا تذکرہ کیا ہے کیونکہ نماز کی حقیقت نفس کو نخوت سے پاک کرنا ہے۔ جو لوگ برابر ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں اور خدا کے جلال و جبروت اور اس کی نعمت و رحمت کی یاد تازہ رکھتے ہیں، ان کے چہروں سے تواضع اور محبت کا جمال ٹپکتا رہتا ہے۔

(2 دوسرے بازو یعنی بہیمیت کے توڑنے کی تدبیر یہ ہے کہ نفس اس دنیا کی جن مرغوبات میں لذت پاتا ہے ان سے اس کو علاحدہ کیا جائے۔ اس کے تین درجے ہیں :

پہلا درجہ یہ ہے کہ خدا کی راہ میں جان قربان کی جائے۔ اس کا بلند ترین مقام لخت جگر کی قربانی ہے۔ اس وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے اکلوتے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ کی قربانی کے حکم سے جانچا گیا، جو ان کی محبوب ترین اولاد تھے۔ ان کے محبوب ترین ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب فرشتہ نے حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کی خوش خبری دی تو انھوں نے کہاکہ ’’اسمٰعیل زندہ رہے‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو حضرت اسمٰعیل کے ساتھ کس قدر والہانہ محبت تھی۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ اطاعت الٰہی کی راہ میں مصائب و آلام جھیلے جائیں اور لذات سے کنارہ کشی اختیار کی جائے؛ کیونکہ زندگی کے بعد نفس کو سب سے زیادہ محبوب لذات ہی ہیں ۔ روزہ اس منزل میں بہترین رہبر ہے۔ مقام قربانی کے مدارج میں سے ضعفاء طریق کی پہنچ اسی حد تک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ سب سے بلند درجہ کے حصول کی راہ کیا ہے تو انھوں نے فرمایا یہ روزہ اور نماز سے حاصل ہوتا ہے۔

  تیسرا درجہ یہ ہے کہ مال کو، جو تمام لذات کے حصول کا ذریعہ ہے، خدا کے راستہ میں خرچ کیا جائے۔ اس منزل میں رہبر زکوٰۃ ہے۔ متعینہ زکوٰۃ سے زیادہ خرچ کرنے میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو چیز غرور کا سبب ہوتی ہے آدمی کو خدا کی راہ میں لٹا دیتا ہے، پھر چونکہ مقصود ذبح بہیمیت سے نفس کو ان چیزوں کی غلامی سے چھڑانا ہے جن کی لذتیں اس پر گھیرے ڈال رہی ہیں اس وجہ سے ضروری ہوا کہ خدا کی راہ میں وہ چیز خرچ کی جائے جو نفس کو محبوب ہو؛ چنانچہ اسی سبب سے فرمایا ہے:

’تم اس وقت تک وفاداری کا درجہ نہیں حاصل کرسکتے جب تک ان چیزوں میں سے نہ خرچ کرو، جو تمھیں محبوب ہیں ‘‘ (سورہ آل عمران، آیت:92)۔

یہ جو قربانی کے جانوروں کو فربہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس میں بھی یہی حکمت ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محبوب ترین اولاد کے ذبح کر حکم دے کر تو یہ حقیقت بالکل ہی آشکارا کردی گئی ہے، نیز چونکہ قربانی کا حقیقی مرتبۂ کمال جان کی قربانی تھا، اس وجہ سے خون بہانا، اس کی اصل علامت قرار پایا۔ اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نماز اور قربانی اپنی حقیقت کے اعتبار سے ذبح نفس کے دو پہلو ہیں ، ایک حدیث میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے:

 ’’اس امت کی قربانی، بذل نفس اور نماز کے ذریعہ سے ہے‘‘۔

 (4 نماز اور قربانی دونوں ایک دوسرے پر مشتمل ہیں ؛ یعنی نماز ایک پہلو سے قربانی ہے، اور قربانی ایک دوسرے پہلو سے نماز ہے۔ نماز کا قربانی ہونا واضح ہے۔ اوپر گزر چکا ہے کہ نماز سبعیت کے ذبح کی ایک تدبیر ہے، نیز نفس کو مصائب کی برداشت اور لذتوں کے ترک کا خوگر بناتی ہے جو بہیمیت کا ذبح ہے۔ اس وجہ سے اس کی شرح و تفصیل کی ضرورت نہیں ، البتہ قربانی کا نماز ہونا محتاج تفصیل ہے اور یہاں ہم اس پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں ۔

 یہ بات گزر چکی ہے کہ قربانی کی حقیقت راہ الٰہی میں جان کی قربانی ہے، اس اعتبار سے ظاہر ہے کہ یہ ایک دوسری صورت میں بعینہٖ نماز ہے۔ نماز میں زبان اور اداؤں کے ذریعہ سے ایمان کا اقرار کیا جاتا ہے اور قربانی میں اسی ایمان کی تصدیق جان دے کر کی جاتی ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے خدا کی راہ میں جان دینے کا نام شہادت ہوا، نیز قربانی میں کمال درجہ خضوع اور اطاعت ہے۔ اس وجہ سے یہ نماز کی اصلی روح۔ اقرار توحید اور خضوع کی یہ سب سے زیادہ حامل ہے۔ علاوہ ازیں اس کے تمام آداب بھی اس کے حامل ہونے کی شہادت دیتے ہیں ۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔