نماز صرف عربی زبان میں کیوں؟

ترتیب: عبدالعزیز

  تمام دنیا کے مسلمانوں کا یہ معمول ہے کہ وہ نماز عربی زبان میں پڑھتے ہیں ۔ قرآن مجید کے علاوہ بھی جو کلمات ادا کئے جاتے ہیں وہ عربی میں ہی ہوتے ہیں اور یہ معمول ان مسلمانوں کا بھی ہے جو عربی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے۔ یہ معمول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے دور مسعود سے چلا آرہا ہے کہ ملک کی اپنی زبان کوئی بھی ہو نماز پنجگانہ اور نوافل کی ادائیگی بزبان عربی ہی کی جاتی ہے۔

بظاہریہ بات معقول اور منطقی نظر آتی ہے کہ اللہ کے حضور دعائیں اور التجائیں جو شخص بھی پیش کر رہا ہے اسے یہ مکمل ادراک ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور بلا شبہ مادری زبان ہی وہ زبان ہے جس میں کوئی شخص اپنا مافی الضّمیر اچھی طرح ادا کرسکتا ہے اور اس طرح نماز ان تمام زبانوں میں ادا کی جائے جو مسلمان بولتے ہیں لیکن اگر اس معاملے کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو مضبوط دلائل کے ساتھ اس ’’سہولت‘‘ کو رد کیا جاسکتا ہے۔

سب سے پہلے ما بعد الطبیعاتی یا نفسیاتی پہلو۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے : ’’…اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں …‘‘۔ (6:33)

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ازواج مطہرات کی زبان عربی تھی، ا س لئے اس حوالے سے تمام مسلمانوں کی ’’مادری زبان‘‘ عربی ہے اور مادری زبان میں دعا مانگنے پر کس کو اعتراض ہوسکتا ہے۔

  ہوسکتا ہے یہ دلیل سب کو متاثر نہ کرسکے۔ اس لئے ان لوگوں کیلئے ایک اور نکتہ: یہ حقیقت تو تمام مسلمانوں کیلئے قابل قبول ہے کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے جس کی محض تلاوت بھی باعث ثواب اور خیر و برکت ہے۔ مسلمان خود اللہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھ کر اور اس کو ذریعہ بناکر اپنے مالک و خالق کی قربت حاصل کرتا ہے؛ یعنی جس طرح ایک بلب کو روشن کرنے کیلئے بجلی کا کرنٹ کے تار کے ذریعہ بلب تک پہنچایا جاتا ہے اور اپنے خالق تک پہنچنا گویا منزل مقصود تک پہنچنا ہے، جس کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں ہے اور جس کیلئے وہ تگ و دو کرتا ہے۔ یہ اللہ کا کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر عربی زبان میں نازل ہوا۔ تاہم اس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ انسانوں نے کیا مگر یہ ترجمہ اس روحانی سفر کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ روحانی سفر اصل عربی کو ذریعہ بناکر ہی ممکن ہے۔

 ان لوگوں کیلئے جو روحانی کے بجائے دنیاوی حوالے سے دلائل چاہتے ہیں ۔ آئیے؛ ہم نماز اور دعا کے مابین فرق کو واضح کر دیں ۔ جہاں تک دعا کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ سے راز و نیاز، ذاتی اور اجتماعی ضروریات کیلئے اپنے خالق کے سامنے جھولی پھیلا کر تنہائی میں جس زبان میں چاہے اپنے دل کی آواز اپنے رب تک پہنچائیں ، اس بارے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ۔ بندہ جس حال میں اور جس زبان میں اپنے خالق سے ہم کلام ہو یہ بندے اور رب کا معاملہ ہے۔

 مگر جہاں تک نماز کا تعلق ہے تو ایہ ایک اجتماعی اور ایسا معاملہ ہے جو سب کے سامنے ادا کی جاتی ہے جس میں نماز میں شریک دوسرے ساتھیوں کی ضروریات اور تقاضوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ نماز کی بہترین صورت یہ ہے کہ اسے با جماعت ادا کی جائے اور انفرادی یا تنہائی میں پڑھی جانے والی نماز صرف خاص حالات میں جائز ہے، اس کی عام اجازت نہیں اور ترجیح ہمیشہ باجماعت نماز کو ہی دی جانی چاہئے۔ آئیے؛ ہم اس اجتماعی اور کھلے طور پر ادا کئے جانے والے فعل کا زیادہ باریک بینی سے جائزہ لیں ۔

  اگر اسلام ایک علاقائی، نسلی یا قومی مذہب ہوتا تو کسی کیلئے اس خطہ، نسل یا قوم کی زبان میں مذہبی معاملات کو نمٹانے کا کوئی مسئلہ نہ تھا بلکہ وہاں رائج زبان آسانی سے اس کا ذریعہ بن جاتی؛ مگر ایک عالمگیر مذہب کے تقاضے قطعی مختلف ہیں جس کے پیروکار سینکڑوں علاقائی زبانیں بولتے ہیں جو دنیا کے مختلف علاقوں میں آباد مختلف گروپوں کیلئے بھی باہم ناقابل فہم ہیں ۔ آج ہماری زندگی وسیع المشربی اور کثیر القومیتی ہوتی جارہی ہے اور ہر شہر میں مختلف نسلوں ، قوموں اور رنگوں کے حامل مسلمان موجود ہیں جن میں سے بعض مستقلاً وہاں آباد ہیں جبکہ بعض عارضی طور پر قیام پذیر ہوجاتے ہیں اور اجنبیوں کیلئے خیر سگالی اور آداب میزبانی کا مظاہرہ کیا ہی جاتا ہے۔

 فرض کیجئے؛ ایک انگریز مسلمان چین جاتا ہے جبکہ وہ چینی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا، فرض کیجئے وہ گلی میں یہ الفاظ سنتا ہے ’’چن چو چی شان‘‘ فطری بات ہے کہ اس کے پلے کچھ نہیں پڑے گا۔ اگر اس کے کانوں میں اذان کے الفاظ اللہ اکبر کا چینی ترجمہ پڑے گا تو وہ کسی طرح جان سکے گا کہ یہ اذان کی آواز ہے اور شاید وہ نماز پنجگانہ میں سے کوئی یا پھر جمع کی نماز بھی ادا نہ کرسے۔ (امر واقعہ یہ ہے کہ چین کی مساجد انگلینڈ، فرانس یا مغرب میں دوسرے ممالک کی مساجد کی طرح نہیں ہیں اور عام طور پر ان میں مینار نہیں بنائے جاتے) اسی طرح اگر کوئی چینی مسلمان کسی دوسرے ملک کا سفر کرے اور اگر وہاں کے مسلمان اپنی مقامی زبان میں اذان دیں اور نماز ادا کریں تو اسے اپنے مذہبوں سے کوئی ہم آہنگی محسوس ہوگی نہ ہی کوئی چیز ان میں باہم مشترک ہوگی۔ اس لئے ایک عالمگیر مذہب کا یہ تقاضا ہے کہ اس کے پیروکاروں میں بعض بنیادی چیزیں مشترک ہوں ۔ اس میں اذان اور نماز میں پڑھی جانے والی دعائیں اور کلمات ایسی چیزیں ہیں جنھیں بنیادی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک ہی طرح کی آواز دینے والے الفاظ دو مختلف زبانوں میں مختلف اہمیت اور معانی کے حامل ہوتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک زبان کا بے ضرر لفظ کسی دوسری زبان میں مضحکہ خیز یا غیر شائستہ معانی دینے والا ہو۔ اور ایسا ان زبانوں میں قطعی ممکن ہے جن سے کوئی بالکل آشنا نہ ہو اور وہ سفر کے دوران کہیں کان میں پڑجائیں مگر یہ صورت حال نماز کے آداب کے قطعی منافی ہے۔ اگر بچپن سے ہی ان معاملات سے آشنائی ہوجائے تو ایسی مشکلات پیدا نہیں ہوتیں چاہے وہ غیر عرب ہی ہو مگر وہ عربی میں نماز پڑھنے کا عادی ہوجاتا ہے۔

  غیر زبان بولنے والوں کے خلاف تعصب کے نفسیاتی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے مواقع آئے روز پیدا ہوں گے جب سیاسی (قومی) بلکہ ذاتی اور انفرادی تنازعے رونما ہوں گے۔ مثلاً انگریزی بولنے والا برطانوی کسی ایسی نماز میں شامل نہ ہوگا جس کا امام فرانسیسی یا رومی یا کسی اور زبان میں امامت کروا رہا ہوگا۔ عربی چونکہ قرآن اور حدیث یعنی فرامین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی زبان ہے، اس لئے ہر مسلمان کے دل میں اس کے احترام، محبت اور تقدس کے جذبات ہیں اور وہ صرف عربوں کی زبان تصور کرکے اس کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ اس کی نظر میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اور امہات المومنینؓ کی زبان ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا نے اپنا آخری پیغام بندوں تک پہنچانے کیلئے اسی زبان کا انتخاب کیا۔

  ہم مذہبوں کے مابین اتحاد کے تقاضوں پر بہت زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت نہیں ۔ (کیونکہ ایسا ہونا عین فطری ہے) بھائی چارے کے فروغ کیلئے نئے روابط تخلیق کئے جانے چاہئیں نہ کہ جو پہلے سے موجود ہیں ان کو ہی تباہ کرلیا جائے۔

 بین الاقوامی کانفرنسوں اور اجلاسوں کی مثال بھی دیکھنی چاہئے۔ مثلاً جب اقوام متحدہ کا اجلاس ہوتا ہے تو اس میں شریک ملازمین اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جس زبان میں چاہیں بات نہیں کرسکتے بلکہ اظہار خیال کرنے والے کو ان زبانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا جو ادارہ نے سرکاری طور پر منظور کی گئی ہیں یعنی انگریزی، فرانسیسی یا دوسری زبانیں ۔ ان کے تراجم کا بھی انتظام ہے جو مخصوص زبانوں میں کیا جاتا ہے۔ کسی کو بھی اس نظام پر اعتراض نہیں اور اجتماعی مفاد کیلئے مخصوص مفاد قربان کر دیا جاتا ہے۔

 مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے جو کم اہم نہیں ۔ یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ترجمہ کبھی بھی اصل کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ اور اس حوالے سے ایک مثال یہ ہے کہ آج قرآن مجید کے انگریزی (اور دیگر زبانوں ) میں اَنگنت تراجم موجود ہیں مگر پھر بھی انہی زبانوں سے زیادہ بہتر تراجم کیلئے مسلسل کوششیں ہورہی ہیں اور آئے روز نئے نئے تراجم منصۂ شہود پر آرہے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کے نقائص سے پاک مواد تو اصل ہی ہوسکتا ہے نہ کہ اس کا ترجمہ۔

 اس حوالے سے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آج عملاً اسلام کے سوا کوئی مذہب نہیں جس کی بنیاد بننے والا کلام الٰہی یعنی وحی اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے۔ مسیحیوں ، یہودیوں ، پارسیوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں تک ان کی مذاہب کی جو تعلیمات پہنچی ہیں وہ تراجم کی شکل میں ہیں یا پھر اصل کے محض چند حصے ہیں جبکہ اس لحاظ سے مسلمان بہت خوش نصیب ہیں کہ ان کے پاس قرآن مجید اپنی اصل زبان اور شکل میں محفوظ ہے۔

 قرآن مجید کی ایک اور خصوصیت بھی ہے کہ اگر چہ قرآن نثر میں ہے مگر اس میں شاعری کی تمام خصوصیات اور خوبصورتی موجود ہے، مثلاً غنایت، قافیہ، بندی اور پر تاثیر انداز بیان وغیرہ۔ اس طرح کہ متن میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی سے اس کے معانی میں اس طرح رد و بدل ہوجاتا ہے کہ جیسے ایک لفظ کے آگے پیچھے کرنے سے شعر کی بنت خراب ہوجاتی ہے۔ راقم الحروف کو کچھ عرصہ قبل ایک تجربہ ہوا کہ ایک فرانسیسی نو مسلم نے جو پیشہ کے اعتبار سے موسیقار تھے، مجھے بڑے یقین سے کہاکہ قرآن کی سورہ 110 میں سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی حصہ چھوٹ گیا ہے کیونکہ یہ اس طرح پڑھا جاتا ہے  ’’فی دین اللہ افواجاًo‘‘ فسبح … جو موسیقی کے حوالے سے ناممکن ہے۔

 اس موقع پر قرآن کی تلاوت کے بارے میں جو تھوڑا بہت علم میرے پاس ہے وہ میرے کام آیا اور میں نے اسے یہ بتاکر مطمئن کر دیا کہ نہیں ، اس کی صحیح تلاوت اس طرح ہے: فی دین اللہ افواجاً و فسبح… اس میں ف اور و کو ملاکر افواجاً کی ا ن کے بعد ہلکی سی آواز ’’و‘‘ کی دے کر فسبح کی ف تلاوت کی جاتی ہے ) اس پر نو مسلم بھائی کے دل سے جیسے بوجھ اتر گیا اور اس نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کی وضاحت سے اس میں موسیقی کے نقطہ نظر سے کچھ بھی قابل اعتراض نہیں رہا‘‘۔

  قرآن مجید کی نثر کا موازنہ شاعری سے بخوبی کیا جاسکتا ہے اور اگر ایسا کیا جائے تو کوئی کیسے ایک مکمل، جامع اور موزوں ترین لفظ کی جگہ کم تر درجے کا کوئی لفظ ڈالے گا۔

 یہ بات قابل ذکر ہے کہ پوری نماز صرف چند کلمات پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے اذان ہے، پھر تکبیر اور اس کے بعد نماز کے دوران پڑھے جانے والے کلمات ہیں ۔ اللہ اکبر، فاتحہ، سبحان ربی العظیم دو آیات سبحان ربی الاعلیٰ، تشہد کی دعا اور بس۔ یہ سب کچھ کاغظ کے ایک صفحہ میں سمویا جاسکتا ہے۔ عام طور پر ان کلمات کے معانی ہر مسلمان کو ازبر ہوتے ہیں حتیٰ کہ ایک بچہ کو بھی یاد کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اگر ان کلمات کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ لیا جائے تو پھر مسلمان کی نماز کلمات کی تفہیم کے بغیر ایک مشینی انداز کی تلاوت اور اُٹھک بیٹھک ہی نہیں رہ جاتی۔

 ذاتی طور پر راقم بھی محسوس کرتا ہے کہ کوئی بھی مسلمان قرآن کے ترجمے کو وہ مقام، مرتبہ اور احترام نہیں دے گا جو اصل عربی زبان میں قرآن کو حاصل ہے کیونکہ ترجمہ تو بہر حال کسی انسان کا کیا ہوا ہوگا جبکہ اصل قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اللہ کے کلام کی شکل میں نازل ہوا اور لافانی ذات نے جس کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے۔

 ایک روز کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان طالب علم اس بات پر اصرار کئے جارہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ کہتا ہے (دعا کرتا ہے) اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کیا دعا مانگ رہا ہے جب اس پر تمام دلائل بے اثر ثابت ہوئے تو راقم نے کہا ’’اگر تم وعدہ کرو کہ روزانہ پانچ نمازیں اپنی مادری زبان میں ادا کیا کروگے تو میں تم کو اس کی اجازت دیتا ہوں ‘‘۔ اس پر اس نے بحث ادھوری چھوڑ دی اور پھر دوبارہ میرے پاس نہیں آیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نماز کو محض ایک علاقائی رسم بنانے پر مصر لوگ بھی اسے معمول بنانے پر تیار نہیں اور بیشتر کی باتیں بحث برائے بحث کا درجہ رکھتی ہیں ۔ مسلمان کو کسی ایسے شخص سے جو سرے سے اسلام پر ایمان ہی نہیں رکھتا یا اس پر عمل پیرا نہیں مشورے لینے کی ضرورت نہیں ۔

جو لکھاری امام ابو حنیفہؒ (وفات 767ء) کے اس قول کا حوالہ دیتے ہیں کہ نماز میں قرآن کا اپنی زبان میں ترجمہ پڑھنے کی بھی اجازت ہے، ان کی یہ بات نصف سچائی ہے۔ ان مفتیوں کو پوری سچائی سامنے لانی چاہئے کہ اگر چہ امام ابو حنیفہؒ نے ابتدا میں یہ اجازت دی تھی تاہم بعد میں اپنی رائے سے رجوع کرلیا (جیسا کہ بالکل واضح انداز میں اس کا تذکرہ فقہ کی معروف کتابوں المرغنانی کی ہدایہ اور الحسکفی کی در المختار میں آیا ہے) اور اس اجماع امت سے اتفاق کیا ہے کہ ’’معمول کے حالات میں نماز میں کلمات عربی میں ہی ادا کئے جانے چاہئیں ، حالات کے مطابق مستثنیات تو بہر حال موجود ہیں مثلاً یہ کہ کسی نو مسلم کو قبولِ اسلام کے بعد نماز کی ادائیگی کیلئے ضروری کلمات یاد کرنے میں کچھ وقت لگے گا اور اس دوران وہ کلمات جس زبان کی اسے تفہیم ہے اس میں ادا کرسکتا ہے۔

 اس حوالے سے ہمارے پاس حضرت سلمان فارسیؓ جیسے جلیل القدر صحابیؓ کی مثال موجود ہے جنھوں نے اپنے کچھ نو مسلم ہم وطنوں کیلئے سورہ فاتحہ کا فارسی ترجمہ بھجوایا تھا، جس کیلئے انھوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اجازت حاصل کی تھی (حوالہ تاج الشریعہ کی النہایہ حاشیہ الہدایہ) اور وہ نو مسلم اس اجازت سے اس وقت تک استفادہ کرتے رہے جب تک وہ عربی زبان سے مانوس نہیں ہوگئے۔ اس طرح نو مسلم ابتدائی طور پر چند گھنٹوں یا چند روز کیلئے نماز کی ادائیگی اپنی زبان میں کرسکتے ہیں ۔

اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ نماز کسی دوسری زبان میں ادا کرنے کے کچھ فوائد ہیں اور کچھ نقصانات ہیں مگر یہی صورت حال علاقائی زبان (مادی زبان) میں نماز ادا کرنے کی بھی ہے۔ اگر کوئی اور دلیل کارگر نہیں ہوتی تو نفع اور نقصان کا موازنہ کرلیا جائے اور ان میں سے جو کم تر برائی ہے وہ قبول کرلیا جائے۔

1 تبصرہ
  1. محمد شہزاد کہتے ہیں

    اچھا مضمون
    محمد شہزاد

تبصرے بند ہیں۔