نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل

محمد دانش فلاحی، نئی دہلی
مضامین ڈاٹ کام پر آج شام حال ہی میں منظرعام پر آنے والی معرکۃ الآراء کتاب ’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘ پر ایک تحریر دیکھنے کو ملی۔ تحریر کیا ہے مصنف کتاب کی کردار کشی کی ایک ناپسندیدہ کوشش، جس میں علمی حقائق اور مسلمہ بنیادوں کو مکمل طور سے بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔
ایک وقت تھا کہ ملک کے مختلف حلقوں کی جانب سے سید مودودی علیہ الرحمہ پر یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ ایک نظریہ ان کے ذہن میں تشکیل پاگیا، اب اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے وہ قرآن وحدیث کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی عقلی موشگافیوں سے دین کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کررہے ہیں، عبادات کو جہاد سے جوڑ رہے ہیں اور حدود وتعزیرات کو حکومت الہیہ کے قیام کی کوششوں سے۔ اور اس کے لیے حوالے کے طور پر موصوف کی بنیادی کتابوں کو پیش کی جاتا تھا کہ خطبات، دینیات، اسلام کا نظام حیات، تجدیدواحیائے دین، دین حق، شہادت حق، سلامتی کا راستہ، بناؤ بگاڑ وغیرہ وغیرہ میں قرآن وحدیث کے حوالے برائے نام ہی موجود ہیں۔ اب یہ حربہ عالمی سطح پر ابھرتے ہوئے عالم دین نوجوان مفکر ڈاکٹر محی الدین غازی حفظہ اللہ ورعاہ کی علمی وفکری کوششوں کو بے اثر بنانے یا ان کی افادیت کو مجروح کردینے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، یا للعجب۔
کہا جاتا ہے کہ نفرت اور جہالت انسان کو اندھا بنادیتی ہے، اور پھر انسان اپنی نگاہوں کے سامنے موجود بہت ہی واضح اور صاف چیزوں کو دیکھنے سے قاصر رہ جاتا ہے، مضمون میں مصنف کتاب کو منکر حدیث ثابت کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ ’’پوری کتاب میں براہ راست طور پر صرف دو حدیثیں ایک صفحہ 16؍ پر المستدرک للحاکم کے حوالے سے اور دوسری صفحہ 31؍پر مسند سراج کے حوالے سے نقل کی گئی ہیں‘‘۔ حالانکہ صفحہ 31؍پر ہی سنن ابن ماجہ کے حوالے سے ایک اور روایت موجود ہے، اس کے علاوہ کتاب میں نہ جانے کتنی احادیث کا حوالہ موجود ہے، جن کو پیش کرنے کی یہاں ضرورت نہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ اس بات پر زور دینے کے لیے مضمون نگار امام بخاری کے شیخ کے مجموعۂ احادیث ’’مسند سراج‘‘ کو غیرمعروف اور غیر مستند قرار دیتے ہیں، حالانکہ اس مجموعۂ احادیث کا عصر حاضر میں حدیث کی تحقیق وتنقیح پر سب سے عظیم کام کرنے والے محقق علامہ ناصرالدین البانی علیہ الرحمہ بار بار حوالہ دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے بڑی انکار حدیث کی کوئی مثال کیا زمانۂ قریب میں پیش کی جاسکتی ہے کہ ایک اتنے ضخیم مجموعۂ احادیث کو یک قلم غیر مستند اور غیر معروف قرار دے دیا جائے!!
اپنی اسی بات کو مزید ثابت کرنے کے لیے صفحہ 90؍ کی ایک عبارت کو بنیاد بناکر مصنف کتاب پر منکرین حدیث سے آگے نکل جانے کا الزام عائدکیا گیا ہے، یہاں پر بھی نفرت اپنا کھیل کھیلتی ہے اور مضمون نگار کو ٹھوکر کھانے پر مجبور کرتی ہے، مصنف کی اصل عبارت کیا ہے، پڑھیے اور مضمون نگار کی علمی وفکری سطح پر سردھنیے:
’’واقعہ یہ ہے کہ نماز کے متعلق بہت زیادہ اختلاف اسی امر میں ہے کہ کس کے طریقے کی پشت پر معتبر روایتوں کی قوت موجود ہے، نماز کے طریقے سے متعلق اہل حدیث حضرات کی کتابیں اٹھاکر دیکھیں، وہ جگہ جگہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ حنفی، یا شافعی ، یا مالکی طریقہ نماز کے سلسلے میں مذکور روایتیں کمزور اور غیر معتبر ہیں۔ آپ احناف کی کتابیں دیکھیں تو جگہ جگہ یہ بات ملے گی کہ دوسرے لوگوں کی نماز کے طریقہ سے متعلق حدیث اگر چہ صحیح اور معتبر ہے لیکن منسوخ ہے۔اس لیے احادیث کی بنیاد پر نماز کے تمام طریقوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت قرار دینا وہ خارزار ہے جس میں داخل ہوجانے کے بعد خراشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا، بلکہ بعض اعمال جیسے خواتین کی نماز کے مختلف طریقے سے متعلق تو کوئی صحیح روایت ہے ہی نہیں ، ایسی صورت میں یہ دعوی کرنا کہ نماز کے تمام طریقے معتبر احادیث سے ثابت ہیں، نہ تو تحقیق سے ثابت ہوتا ہے اور نہ تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے۔اس کے مقابلے میں عملی تواتر کی روشن اور قطعی دلیل کو سامنے رکھا جائے تو بلاشبہہ یہ ثابت ہوجاتاہے کہ نماز کے تمام طریقے درست ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور عین سنت کے مطابق ہیں۔‘‘ (صفحہ 90؍، نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل)
اس موقع پر ایک بار پھر وہ تمام فتوے اور الزامات ذہن میں تازہ ہوگئے جو سید مودودی علیہ الرحمہ کی تحریروں کو سیاق وسباق سے الگ کرکے دیے گئے تھے!!!
عملی تواترکی اصطلاح اور اس سے استدلال نہ صرف ایک علمی اور مسلمہ حقیقت ہے، بلکہ امام مالک سے لے کر اب تک ہر دور میں اہل علم نے اس کو ایک بڑی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ، اس تحریر میں عملی تواتر کو بھی ایک مفروضہ قرار دیا گیا ہے، اور مصنف کو منکر حدیث ثابت کرنے کے لیے اس کو بھی بار بار ایک دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا امام مالک سے لے کر علامہ انورشاہ کشمیری اور علامہ سید سلیمان ندوی تک یہ تمام منکر حدیث تھے، اور یہ تمام ’’ایک مفروضہ کی رَٹ لگارہے تھے‘‘؟!
امام مالک سے اذان اور اقامت کے الفاظ کو دو دو بار کہنے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: اذان اور اقامت کے سلسلے میں میرے پاس وہی بات پہنچی ہے جس پر میں نے لوگوں کو عمل پیرا پایا، تو اقامت کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے الفاظ کو دو دو بار نہیں کہا جائے گا، اسی پر اب تک ہمارے شہر میں اہل علم کا عمل جاری ہے۔( لم یبلغنی فی النداء والاقامۃ الا ما ادرکت الناس علیہ، فاما الاقامۃ فانھا لا تثنی، وذلک الذی لم یزل علیہ أھل العلم ببلدنا۔ موطأ مالک)
امام مالک کے استاذ ربیعہ اپنے دور کے امام تھے، وہ علم اور دانائی میں اس قدر ممتاز تھے کہ ربیعۃ الرأي کے نام سے معروف ہوگئے تھے، ان کا ایک جملہ امام مالک کی فقہ کی اساس قرار پایا، ان کا کہنا تھا: ایک ہزار آدمیوں کو ایک ہزار آدمیوں سے کوئی بات ملے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک آدمی کو ایک آدمی سے کوئی بات ملے۔ الف عن الف خیر من واحد عن واحد(حلیۃ الاولیاء) اس طرح انہوں نے عملی تواتر اور قولی روایت کے درمیان فرق نمایاں کردیا۔
امام شاطبی فرماتے ہیں: ’’امام مالک اس عمل کی پوری رعایت کرتے تھے جو لوگوں کے تعامل میں زیادہ کثرت اور استمرار کے ساتھ ہو، اور اس کے سوا جو ہوتا اسے چھوڑ دیتے، خواہ اس کے حق میں احادیث موجود ہوں، ان کو تابعین کا زمانہ ملا تھا، تابعین کے عمل کو انہوں نے غور سے دیکھا تھا، ان تابعین کے یہاں ان اعمال پر استمرارتھا، جن پر صحابہ کے یہاں استمرار تھا کیونکہ ان کا اعمال پر استمرار صحابہ کے انہی اعمال پر استمرار سے ماخوذ تھا، اورظاہر ہے کہ صحابہ کے یہاں انہی اعمال پر استمرار ہوسکتا تھا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں استمرار کے ساتھ رہے ہوں، یا استمرارکی قوت میں رہے ہوں۔( اذ کان انما یراعي کل المراعاۃ العمل المستمر والاکثر، ویترک ما سوی ذلک وان جاء فیہ احادیث، وکان ممن ادرک التابعین وراقب أعمالھم، وکان العمل المستمر فیھم مأخوذا عن العمل المستمر فی الصحابۃ، ولم یکن مستمرا فیھم الا وھو مستمر فی عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أو فی قوۃ المستمر(الموافقات، 3؍270))
علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کے نزدیک روایت کے الفاظ سے زیادہ فیصلہ کن حیثیت امت کے عملی تواتر کی ہوتی ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’مسائل کی بنا راویوں کے الفاظ پر نہیں استوار کی جائے گی بلکہ فیصلہ کن تو بس تعامل (عملی تواتر) ہے‘‘۔( المسائل لا تبنی علی ألفاظ الرواۃ فقط بل الفاصل ھو التعامل لا غیر. فیض الباری شرح صحیح البخاری، 2/284)
علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ’’آج کل لوگ عام طور سے حدیث وسنت میں فرق نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے بڑا مغالطہ پیش آتا ہے، حدیث تو ہر اس روایت کا نام ہے جو ذات نبوی کے تعلق سے بیان کی جائے، خواہ وہ ایک ہی دفعہ کا واقعہ ہو یا ایک ہی شخص نے بیان کیا ہو، مگر سنت دراصل عمل متواتر کا نام ہے، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عمل فرمایا، آپ کے بعد صحابہ نے کیا پھر تابعین نے کیا، گو یہ زبانی روایت کی حیثیت سے متواتر نہیں ، مگر عملًا متواتر ہے، اسی طرح یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک واقعہ روایت کی حیثیت سے مختلف طریقہ سے بیان کیا گیا ہو، اس لیے وہ متواتر نہ ہو، مگر اس کی عام عملی کیفیت متواتر ہو، اس متواتر عملی کیفیت کا نام سنت ہے۔ فرض کیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی فرضیت کے بعد تمام عمروں میں پانچ دفعہ پڑھتے رہے، آپ کے بعد تمام صحابہ کا یہی طرز عمل رہا، یہی تابعین کا رہا، اور یہی روئے زمین کے تمام مسلمانوں کا رہا، ان کا بھی جو بخاری ومسلم کے وجود سے پہلے تھے، اور ان کا بھی جو اس کے بعد پیدا ہوئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پانچ وقت کی نماز اصطلاحی روایت متواترہ سے ثابت ہو یا نہ ہو لیکن عمل متواترہ سے بلاشک وشبہہ ثابت ہے، تیرہ سو برس سے زائد آج تمام دنیا کے مسلمان جن کے عقائد،اعمال ، خیالات، اخلاق ، زبان، تمدن، وطنیت اور زمانہ میں بے حد اختلاف ہے تاہم اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب دن میں پانچ دفعہ نماز پڑھا کرتے تھے، فلاں فلاں اوقات میں پڑھا کرتے تھے، اور فلاں فلاں ارکان کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، یہ تواتر عملی ہے، جس کا انکار مکابرہ ہے۔کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان پانچ اوقات کی تعیین اور اس طرح طریقہ نماز بخاری یا مسلم یا ابوحنیفہ اور شافعی رحم اللہ علیہم کی وجہ سے مسلمانوں میں رواج پذیر ہے، حالانکہ یہ تو وہ عملیت ہے جو اگر بخاری یا مسلم دنیا میں نہ بھی ہوتے تو بھی وہ اسی طرح عملًا ثابت ہوتی، اگر دنیا میں بالفرض احادیث کا ایک صفحہ بھی نہ ہوتا تو وہ اسی طرح جاری رہتی، احادیث کی تحریر وتدوین نے اس طرز عمل کی ناقابل انکار تاریخی حیثیت ثبت کردی، تو کیا پھر اس بنا پر کہ اس عملی کیفیت کو دوسری یا تیسری صدی کے کسی محدث نے الفاظ وتحریر میں قلم بند کردیا وہ تواتر حد اعتبار سے گرگیا‘‘۔(مقالات سلیمان، حصہ دوم، صفحہ 142؍143)
باتیں بہت کچھ ہیں، تحریر کیا ہے اغلاطات والتباسات کا مجموعہ ، آخر میں ایک بار پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مضمون نگار اس سب کچھ کی اخلاقی ذمہ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟!

تبصرے بند ہیں۔