نوجوانوں سے چند گذارشات

شہباز رشید بہورو

کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کہلانے کا حقدار جو طبقہ ہو سکتا ہے وہ نوجوانوں کا ہے۔ اسی طبقہ کی صحت پر پورے معاشرے کی صحت کا دارو مدار ہے اگر اس طبقہ میں کسی بھی نوعیت کی بے اعتدالی پائی جائے تو اس سے پورے معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ نوجوان زمین کے اندر موجود ٹیکٹونک پلیٹ(Tectonic plate) کی مانند ہے جس میں زیر چٹان لاوا (lava) کے دباو کی وجہ سےذرا بھی شگاف پڑ گیا تو پوری ٹیکٹونک پلیٹ جھولتی ہے اور متاثرہ سطح پر زلزلہ آتاہے،جس کے بھیانک نتائج سے ہر ایک واقف ہے۔ ایک نوجوان کی معاشرے میں ایسی ہی کچھ حیثیت ہے اگر اس کی شخصیت میں کسی بھی قسم کی ناہموارگی پیدا ہوئی تو پورے معاشرے کو اس کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے،اس کے آس پاس کی پوری سوسائٹی کو اس نوجوان کی اخلاقی آوارگی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ایک نوجوان کے اندر انقلابی جوہر موجود ہے لیکن اس کا اسے معلوم نہ ہونا شیر کو اپنی طاقت کے بارے میں نہ جاننے کے مترادف ہے اس لئے اس چیز کی معلومات حاصل کرنا محمد عربی صلی الله عليه وسلم کے نوجوان امتیوں کے لیے بہت ضروری ہے۔

ایک نوجوان کا ایک معاشرے میں کیا مقامِ عظمت ہے اس کا جاننا ہر نوجوان کے لیے از حد ضروری ہے۔ اگر نوجوان اپنے مقامِ عظمت کو نہ پہچان سکے تو نتیجتاً وہ اپنی شخصیت کو بیکار رکھ کے چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں انسانیت کے لیے بہت کچھ ہونے کے باوجود بھی کچھ نہیں کر پاتے ہیں۔ وہ پاگل ہاتھی کی طرح توانا جسم ہونے کے باوجود بھی صرف نقصان پہنچاتے ہیں، وہ حسن و جمال کا پیکر ہونے کے باوجود بھی مکرو فریب کی تصاویر ہوتی ہیں، وہ سینے میں ایک نازک دل رکھنے کے باوجود بھی سخت دل ہوتے ہیں، وہ دوربین کے ذریعے دور تک دیکھنے کے باوجود بھی دور بیں نہیں ہوتے اور اپنی کھوپڑی میں دماغ رکھنے کے باوجود بھی بے دماغ ہوتے ہیں۔ ان ساری خامیوں کے نتیجے میں وہ معاشرے کے لئے بیکار ہوتے ہیں۔ جس طرح اس کائنات کا ہر ایک ذرہ اس کے حسن و جمال کو برقرار رکھنے میں کارآمد ہے اسی طرح دنیا کا ہر ایک نوجوان انسانی معاشرے کی شکل و صورت کو بنائے رکھنے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ اگر یہ نوجوان اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو ضائع کرکے اپنے مقام سے گر جاتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے مقام کو بحال کرنے کی کوشش کرے۔

جو بھی انسان اپنی حیثیت اور قدرو منزلت سے واقف ہو وہ ضرور بالضرور اپنی شخصیت سے معاشرے کے تئیں کوئی کارنامہ انجام دے کے رہ جاتا ہے۔ لیکن کوئی contribution کرنے کے لئے پہلے اسے اپنے آپ سے واقف ہونا لازم تب جا کر وہ اپنی صلاحیتوں کو اچھے مقاصد کے لئے بروئے کار لا سکتا ہے۔ اس بات کو ایک مثال کے ذریعے سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے فرض کیجیے ایک ہندوستانی شخص آمریکہ جاتا ہے اور وہاں پر اسے ڈالر کے سکے دئے جاتے ہیں لیکن وہ ڈالر کی اہمیت کے بارے میں کوئی واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے ڈالر کے سکّوں کو کچرے دان میں پھینک دیتا ہے جس کا آگے چل کر اسے بہت خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ امریکہ کے معاشی نظام میں ڈالر کے مقام کو نہ جاننے کی وجہ سے ڈالر کو وہ کچرے میں پھینک دیتا ہے۔ عین یہی معاملہ نوجوانوں کا اپنے مقام کو نہ جاننےکی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ اپنی نوجوانیوں کو سستی، کاہلی اور تباہی کے نام کرتے ہیں،اپنے آپ کو موج مستی کے حوالے کرکے چرس، بھنگ، شراب اور بدکاری کی نحوست  سے مَل کر منحوس بن جاتے ہیں۔ وہ یہ جاننے سے یہ قاصر رہتے ہیں کہ وہ اپنے دماغ، آنکھوں،زبان، پیر اور پاؤں سے کیا کام لے سکتے ہیں۔ اس لا علمی کی وجہ سے وہ علمی اور عملی طور پر اپاہج رہ جاتے ہیں۔ سوسائٹی میں ان کی کوئی بھی عزت و تکریم نہیں رہتی۔ اس لیے مسلمان نوجوانوں کو اپنے مقامِ عظمت سے ضرور آگاہی حاصل کرنی چاہئے۔ اگر وہ ہندوستانی ڈالر کی اہمیت سے واقف ہے تو وہ اسے سنبھال سنبھال کر کفایت شعاری سے کام لے گا۔ اسی طرح سے نوجوانوں کا اپنی جوانی کی قدرو قیمت سے واقف ہونا انھیں ایک محتاط محافظ کی طرح اپنی جوانی کی حفاظت کرواتا ہے۔

ایک مسلمان نوجوان کا ہر اعتبار سے معتدل ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسانیت کی بقا کے لیے ہر ایک حیاتیاتی عنصر کا معتدل ہونا لازم ہے۔ ایک نوجوان جتنا افراط و تفریط سے بچ کراعتدال کی راہ پر گامزن رہتا ہے وہ اتنا ہی معاشرے کے لئے مفید و سود مند ثابت ہوتا ہے اور وہ جتنا بے اعتدالیوں کی بھینٹ چڑھتا ہے وہ اتنا ہی سوسائٹی کے لئے وبال اور تباہ کن بنتا ہے۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ صبح کی باد سبا کی سرسراہٹ سے تازگی حاصل کرے، یہ باد سبا ہوا کا معتدل ترین لیول ہے جو انسانیت کے لئے مفید ہے اگر اسی ہوا کی رفتار زیادہ تیز ہو جائے تو یہی ہوا آندھی کی شکل اختیار کرتی ہے پھر اس آندھی کے راستے میں جو بھی کوئی چیز آئے وہ تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اسی طرح کا معاملہ نوجوانوں کا ہے اگر یہ نوجوان اپنے اندر سے طلاطم خیز خواہشات کو قابو میں رکھ کر اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو وہ معاشرے کے لیے بادسبا(breeze) سے کم نہیں۔ اسی طرح سے اگر بارش ایک معمول کی رفتار سے برستی ہے تو ابر کرم یا باران رحمت ہے اگر بہت تیزی کے ساتھ برستی ہے تو سیلاب کی شکل اختیار کرتی ہے جس کا نتیجہ ہر ایک کو معلوم ہے۔ نوجوانوں کا معاملہ بھی بارش کی مانند ہے اگر اعتدال میں ہیں تو معاشرے کے لئے رحمت اور اگر معاملہ برعکس ہے تو زحمتی سیلاب سے کم نہیں۔

نوجوانوں کے اندر ہر طرح کی خواہش اپنی فطری قید خانہ سے آزاد ہو کر بے لگام پاگل گھوڑے کی طرح اچھلنے اور کودنے لگتی ہے۔ جس پر اگر بروقت لگام نہ کسی گئی تو پھر معاملے کی نزاکت آوارگی کے بادلوں کی گردش کی وجہ سے اور بڑھ جاتی ہے۔ اس نازک ماحول میں جہاں ہر طرف نوجوانوں کو پر کشش دنیا مدعو کرتی ہیں، وہیں اس کے اندر کی دنیا سے ابھرنے والی خواہشات اپنا ہاتھ بڑھانےاور پھر دعوت سے تمتع حاصل کرنے کے لیے بے قرار ہوتی ہیں۔ اس پیدا ہونے والے سنگم کے اتنے ہی بھیانک نقصانات ہیں جتنے ہمارےخون میں زہر کی آمیزش اور پھر سنگم کے نتیجے میں مرکب  بننے سے ہیں۔ ہر انسان کو الله تعالیٰ نے محبت کے انعام سے نوازا ہے جس محبت کی بے شمار فروع ہیں اور ہر ایک فرع کا ایک معین رخ ہے۔ ایک فرع کا رخ خاص طور پر اپنے متضاد جنس کی طرف ہوتا ہے اور یہ ان تمام شاخوں میں سب سے زورآور  اور توانا شاخ ہے جس کی نمو و نشونما دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ محبت کی اس شاخ کے مطالبات کو اگر قابو میں نہ رکھا جائے تو اس کے اندر پایا جانے والا محبت کا رس ضائع ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ شاخ محض ایک نام کے طور پر رہتی تو ضرور ہے لیکن اپنی تمام تر فطری حسن و جمال سے عاری ہو جاتی ہے، جس کا براہ راست اثر نوجوان کی شخصیت پر پڑتا ہے۔ اس کے عالم شباب کا وہ حسن برقرار نہیں رہ پاتا جس کی بنیاد پر وہ عوام الناس کی نیک اور جائز امیدوں اور تمناؤں کا مرکز کہلانے کا حقدار بنتا ہے۔ پھر جب معاملہ وہاں پہنچتا ہے کہ اسے اپنی اس فطری محبت کا فطری اور جائز طلبگار محبت کی طلب کرتا ہے تو اس کے پاس اس کو دینے کے لئے محبت کا کچھ بھی حصہ نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں اس کی پوری زندگی نا اتفاقی، جھگڑوں اور ہنگاموں کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ اس نے وہ محبت پہلے ہی ناجائز حقداروں میں بانٹی ہوئی ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے اس کا جائز حقدار عمر بھر تڑپتا رہتا ہے۔ اس لئے نوجوانوں کو چاہیے کی اپنی ذات اور صلاحیتوں کی قدر اور حفاظت کریں۔ اگر آپ اپنی قدر اور حفاظت نہیں کرنا چاہتے تو دنیا کو کیا پڑی ہے کہ وہ آپ کو پرواہ کرے۔ جو انسان اپنے آپ کو حقیقی ناکامی سے بچانے کے لئے کچھ نہیں کرتا وہ کیسے منچ پر بیٹھ کر لوگوں کی بھلائی کی باتیں کر سکتا ہے اگر وہ کرتا ہے تو وہ اپنا دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کا سب سے خطرناک دشمن ہے۔ ایسی ہی کچھ صورتحال آج دیکھنے کو ملتی ہے کردار، اخلاق، مذہب، ملت، سیاست اور معاشرت کے متعلق وہ لوگ زبان چلاتے ہیں جن کا یہ حق ہی نہیں۔

مسلمان نوجوانوں کو آج کے دور جدید میں غیر معمولی محنت کرکے اپنا نام بحیثیتِ ایک امتی کمانا ہے۔ دورجدید میں مسلمان طلباء و طالبات کو اتنے بھاری اکثر و بیشتر مذہب دور نصاب کے بوجھ کے تلے دبایا گیا ہے کہ ان کے پاس اپنے دین کی خدمت تو دور اپنی مذہبی شناخت کو بچانے کے لیے بھی وقت نہیں ملتا۔ اس صورتحال کا نالہ نہ ہم حکومت وقت سے کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اور غیر سکاری تنظیم سے، کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ یہ سارا کھیل اسلام کو دبانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس بات کے ثبوت کے لیے اسلام مخالف نصاب اور مضامین کافی ہیں جو جدید تعلیمی نظام میں شامل کیے گئے ہیں۔ اس پیچیدہ صورتحال میں اگر ہمارے نوجوان اپنے دینی تعلیم کی طرف رغبت دکھاتے ہیں تو خدشہ ان کے فیل ہونے کا بڑھتا ہے اور اگر وہ موجودہ تعلیم کی طرف زیادہ دھیان دیتے ہیں تو ان کے بے دین ہونے کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔ اب اس صورتحال میں کیا کیا جائے تاکہ دونوں طرف نقصان کے خدشات کو ختم کیا جائے۔ ان دونوں چیزوں کے درمیان ایک توازن قائم کیا جائے اور وہ توازن وہی نوجوان قائم کر سکتا ہے جس نے الله تعالیٰ کا قرب حاصل کیا ہو، جس نے الله تعالیٰ کے سامنے اپنے آنسوں بہائے ہوں، اس ہی کی ذات سے لو لگائی ہواور اس کو ہی اپنا حقیقی ناصر و حامی تسلیم کیا ہو۔ اپنی ذہانت اور فطانت پر بھروسہ کرنے والا انسان اس متوازن پل کو قائم نہیں کر سکتا ہے اگر وہ بظاہر کرتا بھی ہے لیکن آخر کار وہ دنیا پرستوں کی جھولی میں جا گرتا ہے۔ اس سارے عمل کے لیے غیر معمولی محنت درکار ہے۔ وہ محنت دعاؤں، وقت کی پابندی، کڑےنظم و ضبط کی پابندی اور غور و خوض کرنے کی شکل میں کی جانی چاہئے۔ مسلمان نوجوانوں کو ہمارے اپنے مسلم معاشرے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کر نے کی کوشش میں کامیاب ہو کر کام کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں دینداری اور بے دینی کے متعلق جو غلط تصورات موجود ہیں انہیں دور کرنے کی انہیں کامیاب کوشش کرنی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔