نوٹ بندی یا نظام کی ناکامی!

عالم نقوی

نوٹ بندی ملک پر مودی حکومت کا لایا ہوا قہر ثابت ہوئی ۔پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ نے بھی  اسے حکومت کی ایک ہمالیائی غلطی (بلنڈر ) قرا ر دے دیا ہے ۔تہلکہ میگزین کے تازہ ترین شمارے  میں شایع ایم وائی صدیقی کی رپورٹ کے مطابق نوٹ بندی کے تعلق سے حکومت کے سارے دعوے غلط ثابت ہوئے نہ  حسب منشا کالا دھن  بر آمد ہوسکا نہ دہشت گردوں کے مالی وسائل (ٹیرَر  فنڈنگ) پر کوئی ضرب پڑی، نہ کسی نام نہاد ’کیش لِس سوسائٹی‘ کی بنیاد پڑی نہ سماج میں نقد لین دین کاچلن بند ہوا یعنی ’لِس کیش سماج کے قیام کا دعویٰ بھی ڈھول کا پول ثابت ہوا اور جو سب سے بڑا نقصان اس  جلد بازی والے احمقانہ اقدام نے پہنچایا وہ یہ تھا کہ اس نے چھوٹی صنعتوں اور غیر منظم زُمرے کی کمر توڑ دی ۔کسی مارکسی تنظیم  کی نہیں خود  سنگھ پریوار کی بھارتیہ مزدور سنگھ کی رپورٹ ہے کہ تین لاکھ سے زیادہ صنعتی یونٹ بند ہوگئے اور چار کروڑ لوگ ایک جھٹکے میں بے روزگار ہوگئے۔

پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں پیش ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق کسی معقول منصوبہ بندی کےبغیر اٹھائے گئے اس ا قدام کی ایک بد ترین  مثال یہ ہے کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے بینکوں ،ان کی شاخوں اور اے ٹی ایم مراکز کی تعداد اور عوام کی ضرورتوں کا اندازہ لگائے بغیر اور اسی حساب سے مناسب تعداد میں چھوٹے  کرنسی نوٹ چھاپے بغیر دو ہزار کے نوٹ چھاپ دیے گئے جس کی وجہ سے بینکوں اور اے ٹی ایم مرکزوں پر جو بھیڑ امڈی اور اس کی وجہ سے بینک ملازمین اور ان سے بڑھ کے عوام کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا  ان کا تصور بھی  اندوہناک ہے۔ آج نو ماہ گزرنے کے باوجود  گاؤں تو گاؤں بڑے شہروں کے ہزاروں اے ٹی ایم  بھی بند پڑے ہیں کیونکہ وہاں کیش کی سپلائی نہیں  ہوپا  رہی ہے۔

پلاننگ کے بغیر کی جانے والی اسی جاہلانہ نوٹ بندی کا نتیجہ ہے کہ حکومت نے وزیروں اور ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی کے شاہی قارونی بھتوں کو کم کرنے  اور ختم کرنے کے بجائے عوام کی  صحت ،تعلیم اور دیگر لازمی زمروں  کے اخراجات پر ڈاکہ ڈالا ہے  جن کے براہ راست  برے اثر ا ت عام آدمی ،غریب آدمی اور عوام کو جھیلنا پڑ رہے ہیں۔ اس میں تعلیمی سکٹر سب سے زیادہ متآثر ہے جس کو ضروری فنڈ کی سپلائی نہ ہونے کے برابر ہے، ریسرچ کے لیے قومی یونیورسٹیوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں سیٹیں کم کردی گئی ہیں ،مختلف ٹیکسوں میں بے طرح اضافے کر دیے گئے ہیں، لازمی اشیائے صرف کی قیمتوں کو شیطان کی آنت کی طرح بڑھنے کے لیے چھوڑ دیا ہے نیز پراویڈنٹ فنڈ اور دیگر چھوٹی بچت اسکیموں میں منافع کی شرح  کم کردی گئی اس کا نقصان بھی صرف نچلے طبقے اور مڈل کلاس کو ہوا ہے۔لیکن، سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ’پردھان سیوک ‘ سمیت  نیچے سے اوپر تک کوئی بھی اس منظم حماقت اور  ہمالیائی غلطی کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں!

کوئی اگر یہ مطالبہ کرے کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے کر عوام سے اپنی تمام غلطیوں کی معافی مانگیں اور پارلیمنٹ تحلیل کرکے نئے الکشن کرانے کا اعلان کر دیں تو اس سے بھی کچھ نہیں سدھرنے والا۔نام نہاد جمہوریت اور قارونیت کا سفاک اور شرم ناک گٹھ جوڑ  وطن عزیز میں  پھر کسی اور مودی جیسے کو اقتدار  میں نہیں لے آئے گا اس کی کوئی ضمانت نہیں۔ جو لوگ نظام حاضر سے کسی صلاح و فلاح کی امید لگائے بیٹھے ہیں ہمیں ان سے ہمدردی ہے۔ علاج وہی ہے جس کا اعتراف جسٹس ماکنڈے کاٹجونے  کچھ عرصہ قبل  کسی تفصیل میں گئے بغیر مبہم انداز میں اپنے کچھ انٹر ویوز میں کیا تھا اور ہم جسے امکانی وضاحت کے ساتھ اپنے قارئین سے شئیر  بھی کر  چکے ہیں! تبدیلی اور مکمل تبدیلی ہی موجودہ تباہی اور آنے والی اس سے بھی بڑی  بربادی کا شافی  علاج ہے۔

نظام حاضر کی جگہ انصاف اور اس سے بھی  بڑھ کے عدل پر مبنی نظام کے لفظاً اور معناً قائم ہوئے بغیراب دنیا کا بھلا نہیں ہونے والا۔ محض لیپا پوتی، کتر بیونت اور کاٹ چھانٹ یا محض نمائشی اور آرائشی منصوبہ بندی اس مرض کا علاج نہیں !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔