پروفیسر اویس احمد دوراں: میرکاروان شعر و ادب

ڈاکٹر منصور خوشتر

1938-2017

اویس احمد دوراں معروف ترقی پسند شاعر، ادیب، اک بے وفا کے نام جیسی نظموں اور اپنی خودنوشت میری کہانی کے لیے مشہوراردو شعر و ادب کا ایک مضبوط اور اہم ستون بھی آخرکار گرہی گیا. اپنے اشعار سے لوگوں کو جاگتے رہنے کا مشورہ دینے والا شخص زندگی کے مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے تھک تھکا کر خود ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گیا: انا للہ وانا الیہ راجعون!

ائے ہم نفسو! شب ہے گراں جاگتے رہنا

ہر لحظہ ہے یاں خطرئہ جاں جاگتے رہنا

بزرگ شاعر اویس احمد دوراں کا طویل علالت کے بعد 8 اگست کو دربھنگہ کے پارس اسپتال میں انتقال ہو گیا۔ وہ 16 فروری 1938 کو دربھنگہ ضلع کے کوٹھیا گاوں میں پیدا ہوئے ، محلہ فیض اللہ خاں میں سکونت اختیار کی اورللت نارائن متھلا یونیورسٹی کے ، کے۔ایس۔ کالج دربھنگہ کے شعبہ  اردو سے سبکدوش ہوئے۔آپ کے دادا خدا بخش جاں مرحوم چاند پور مشرقی یوپی کے باشندہ تھے۔انہوں نے ڈاکٹر محمد حسن صاحب کی فرمائش پر خود نوشت سوانح عمری لکھنا شروع کیا جو ’’میری کہانی ‘‘ کے نام سے بہت تاخیر سے شائع ہوئی۔ ان کی چار کتابیں ’’ابابیل‘‘(1986ء) ’’لمحوں کی آواز ‘‘ (1974ء) ’’تنقید کی منزل سے ‘‘ (1989ء)، ’’میری کہانی ‘‘ (1999ء)۔ ان کے لائق فرزند پروفیسر جمال اویسی نے 2015 میں ’’اویس احمد دوراں : ایک بازدید‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔اویس احمد دوراں ایک شریف انسان تھے۔ زندگی کے شروعاتی دور میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک اہم رکن رہے۔ لیکن بعد میں مذہبیت کی طرف مائل ہوئے ، صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوگئے۔ اور پھر ایسا بھی وقت گزرا جب آپ نے اپنے محلہ کی مسجد میں اذان دینے کے فرائض بھی انجام دیئے۔

پروفیسر اویس احمد دوراں ایک مشہور ترقی پسند شاعر تھے۔جنوادی لیکھ سنگھ (جمہوریت پسند مصنفیں ) کے صدر تھے۔ انجمن ترقی اردو ضلع شاخ، دربھنگہ کے سکریٹری بھی رہے۔ انہوں نے شاعری کی شروعات 1952 سے کی۔ جب کہ 1956 سے تنقیدی مضامین لکھنے لگے۔ ان کی مشہور نظم ’ایک بے وفا کے نام‘ بہت مقبول ہوئی جسے ٹی سیریز کے مالک گلشن کمار نے عطاء اللہ خاں کی آواز میں جاری کیا تھا۔ بعد میں اویس احمد دوراں نے اپنی نظم ایک بے وفا کے نام چوری کا الزام لگاتے ہوئے ٹی سی سیریز کے مالک پر مقدمہ درج کیا تھا لیکن بیچ میں ہی اس کی موت ہوگئی۔ ایک بے وفا کے نام نظم پیش کررہاہوں اس سے اس نظم کی معنویت کا پتہ چلتا ہے:

اک بے وفا کے نام

تیرے بھی دل میں ہوک سی اٹھے خدا کرے

تو بھی ہماری یاد میں تڑپے خدا کرے

مجروح ہو بلا سے ترے حسن کا غرور

پر تجھ کو چشم شوق نہ دیکھے خدا کرے

کھو جائیں تیرے حسن کی رعنائیاں تمام

تیری ادا کسی کو نہ بھائے خدا کرے

میری ہی طرح کشتء دل ہو تری تباہ

طوفان اتنے زور کا اٹھے خدا کرے

راہوں کے پیچ و خم میں رہے تا حیات گم

منزل ترے قریب نہ آئے خدا کرے

ظلمت ہو تو ہو اور تری رہ گزار ہو

دنیا میں تیری صبح نہ پھوٹے خدا کرے

تجھ پر نشاط و عیش کی راتیں حرام ہوں

مر جائیں تیرے ساز کے نغمے خدا کرے

آئیں نہ تیرے باغ میں جھونکے نسیم کے

تیرا گل شباب نہ مہکے خدا کرے

ہر لمحہ تیری روح کو اک بے کلی سی ہو

اور بے کلی میں نیند نہ آئے خدا کرے

ہو تیرے دل میں میری خلش میری آرزو

میرے بغیر چین نہ آئے خدا کرے

تو جا رہی ہے بزم طرب میں تو خیر جا

پر تیرا جی وہاں بھی نہ بہلے خدا کرے

المختصر ہوں جتنے ستم تجھ پہ ٹوٹ جائیں

لیکن یہ ربط زیست نہ ٹوٹے خدا کرے

جو کچھ میں کہہ گیا ہوں جنوں میں وہ سب غلط

تجھ پر کوئی بھی آنچ نہ آئے خدا کرے

تو ہے متاع قلب و نظر بے وفا سہی

ہے روشنی داغ جگر بے وفا سہی

پروفیسر اویس احمد دوراں نے نظموں کے علاوہ غزلیں بھی کہیں ۔ ان کی غزلیں بھی کافی متاثر کن ہوا کرتی تھیں ۔ پیش ہے ان کی غزلوں کے چند اشعار:

ایسا نہ ہو یہ رات کوئی حشر اٹھا دے

اٹھتا ہے ستاروں سے دھواں جاگتے رہنا

٭٭

بہتی نہیں ہے مرد کی آنکھوں سے جوئے اشک

لیکن ہمیں بتاو کہ ہم کس لئے ہنسیں

بے داروں کی دنیا کبھی لٹتی نہیں دوراں

اک شمع لئے تم بھی یہاں جاگتے رہنا

٭٭

ہم شاعر حیات ہیں ہم شاعر حیات!

دوراں وہ سرخ رنگ کا پرچم تو دو ہمیں

کچھ درد کے مارے ہیں کچھ ناز کے ہیں پالے

کچھ لوگ ہیں ہم جیسے کچھ لوگ ہیں تم جیسے

٭٭

پیوند کی طرح نظر آتا ہے بد نما

پختہ مکان کچے گھروں کے ہجوم میں

٭٭

سب مستیوں میں پھینکو نہ پتھر ادھر ادھر

دیوانو! اس دیار میں شیشے کے گھر بھی ہیں

٭٭

شاید کسی کی یاد کا موسم پھر آ گیا

پہلو میں دل کی طرح دھڑکنے لگی ہے شام

٭٭

ان مکانوں میں بھی انسان ہی رہتے ہوں گے

رونقیں جن میں نہیں آپ کی محفل کی سی

٭٭

وہ لہو پی کر بڑے انداز سے کہتا ہے یہ

غم کا ہر طوفان اس کے گھر کے باہر آئے گا

٭٭

یہ صحن گلستاں نہیں مقتل ہے رفیقو!

ہر شاخ ہے تلوار یہاں ، جاگتے رہنا

٭٭

یہ زیست کہ ہے پھول سی مٹ جائے بلا سے

گلچیں سے مگر بر سر پیکار ہی رہئے

 پروفیسر اویس احمد دوراں کی موت اردو کی علمی وادبی دنیاکے لئے ایک بڑا خسارہ ہے۔ ان کی موت سے دربھنگہ ، متھلانچل بلکہ پورے بہار کی سرزمین غم کے ماحول میں ڈوب گئی ہے۔ان کی موت سرزمین بہار خاص کر دربھنگہ کے لئے ایک زریں باب کا خاتمہ ہے۔

جو کرتے ہیں حسیں کردار سے تاریخ کو روشن

زمانہ ایسے لوگوں کو ہمیشہ یاد کرتا ہے

 پروفیسر اویس احمد دوراں جیسی شخصیت جنہوں نے اپنی زندگی خاکسار ی میں گزاری۔ اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود خود کو کمرے میں بند رکھا۔ میں نے جب اردو کی طرف دیکھا تو مجھے پہلا انسان اویس احمد دوراں نظر آیا۔ ایک عرصہ تک میں ان کے ساتھ رہا۔ شروعاتی وقت میں میرے کلام کی اصلاح دوراں صاحب کیا کرتے تھے۔ میں نے جتنا وقت ان کے ساتھ گزارا ان کے اندر خاکساری پائی۔ اپنے ایک مضمون ’’موجودہ نسل ایک جوان العمر شاعر۔ منصور خوشتر‘‘ میں انہوں نے میرے متعلق لکھا :

’’اپنے شاگرد رشید منصور خوشتر کی حمد، نعت اور غزلوں کے متعلق میں صرف اتنا کہوں گا کہ میرایہ شاگرد ابھی شاعری کی دنیا میں نووارد ہے۔ لیکن ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات والا معاملہ ہے۔ آفتاب ابھی طلوع ہی ہوا ہے۔ اس کو لمبا سفر کرکے نصف النہار تک پہنچنے ہی میں وقت لگے گا۔ مگر کرنیں طلوع آفتاب کے بعد ہی اپنی تابناکی سے افق کو منور کرنا شروع کردیتی ہے۔ مستقبل میں کون کیا ہوگا اس کا علم سوائے خدا کے نہ مجھ کو ہے اور نہ آپ کو صرف خدا عالم الغیب ہے۔ ‘‘

بیداروں کی دنیا کبھی لٹتی نہیں دوراں

اک شمع لئے تم بھی یہاں جاگتے رہنا

 اپنی اولاد معنوی منصور خوشتر کے لئے نیک تمنائیں اور دعائیں ۔

اویس احمد دوراں کو ان کی زندگی میں ان کی عظمت کے شایان شان مقام عطا نہیں ہو سکا. ابھی کچھ ماہ قبل بہار اردو اکادمی نے اکادمی آپ تک سلسلہ کے تحت انہیں اعزاز سے نوازا تھا. اویس احمد دوراں سچا خراج عقیدت اب یہی ہو سکتا ہے کہ ان کی خدمات کو زندہ کیا جائے. ان کی غیر مطبوعہ چیزوں کی اشاعت ہو. اور ان کے فن کو یاد رکھا جائے

  آخر میں پروفیسر جمال اویسی کی کتاب ’’اویس احمد دوراں : ایک بازدید‘‘ کے اقتباس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں :

’’دوراں صاحب کی شاعری کے ابتدا 1951 سے ہوئی تھی۔ شروع میں انہوں نے غزلیں لکھیں ۔ غزلوں کے بعد نظموں کی طرف ملتفت ہوئے۔ کلکتے میں انہیں جمیل مظہری اورپرویز شاہدی جیسے اپنے وقت کے اکابر لکھنے والوں کا ساتھ ملا۔ پرویز شاہدی سے دوراں صاحب کی ذہنی قربت بھی رہی۔ ایک دو مرتبہ نمونہ ¿ کلام پر اصلاح بھی لی لیکن یہ سلسلہ دراز نہ ہوسکا۔ دوراں صاحب کی شاعرانہ صلاحیت فطری تھی اور انہیں مزید کسی راہبر کی ضرورت نہیں تھی۔ دوراں صاحب فطری مناظر سے متاثر ہونے والے شاعر تھے۔ ان کے شعری تجربات پر ان کے مزاج کی آزادہ روی بلکہ آوارہ خرامی نے گہرا اثر ڈالا تھا۔ وہ کچھ کچھ باغیانہ اور انقلابی تیور رکھنے والے شاعر تھے۔ ان کا شعری مزاج انگریزی کے رومانی شعراء سے ملتا جلتا تھا۔ یہ تمام عناصر دوراں صاحب کی مجموعی شاعری کی بنیاد میں شامل ہیں ۔ دوراں صاحب نے اپنی شاعری کے پورے دور میں نظمیں زیادہ لکھیں ۔ غزلیں کم لکھیں ۔ان کی غزلوں اور نظموں پر مشتمل دو مجموعے ’’لمحوں کی آواز‘‘ 1974 اور ’’ابابیل‘‘ 1986 میں شائع ہوئے۔

 دوراں صاحب عمر بھر ترقی پسند شاعر و ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے رہے۔ بلکہ ان کا اصرار تھا کہ ان کو ترقی پسند شاعر سمجھا جائے۔ لیکن جب ان کی نظموں اور غزلوں کا کھلی فضا میں مطالعہ کیا جاتا ہے تو برملا احساس ہوتا ہے کہ دوراں صاحب ذہن و فکر اور مزاج سے تو ترقی پسند رہے لیکن ان کی مشہور نظموں کے اظہار او ر اسلوب پر سکہ بند ترقی پسند ی کی مہر لگنے کے بجائے جدید اسلوب کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ راقم السطور ایک بے لاگ تنقیدی جائزے کی روشنی میں یہ بات ثابت کرنا چاہتا ہے کہ دوراں صاحب گرچہ ترقی پسند شاعر تھے لیکن ان کے فن میں تابانی جدید اظہار و اسلوب کی وجہ سے پائی جاتی ہے۔ اور یہ جتنی اہم بات ہے اتنی ہی دوراں صاحب کے نقادوں کی نظر وں سے پوشیدہ بھی رہی۔‘‘

تبصرے بند ہیں۔