نوٹ, سوال اور نیشنلزم

 عزیر احمد

جب ہر چیز کو وطنیت اور نیشنلزم سے جوڑ کے دیکھا جانے لگے, تو سمجھ لیجئے کہ ڈیموکریسی فاشزم میں تبدیل ہورہی ہے. نیشنلزم ایک نشہ ہے جس کی دھائی دیکے حکومتیں اپنے غلط فیصلے کو بھی لوگوں کو صحیح ماننے پہ مجبور کرسکتیں ہیں۔

ملک کے وزیر اعظم نے نوٹ بند کردیا, ان کے فیصلے پہ لوگوں کا اعتراض کرنا, ان سے سوال کرنا, فیصلے کی تنقید کرنا لوگوں کا جمہوری حق ہے. اور ان کے اس حق کو نیشنلزم سے جوڑدینا اور یہ کہنا کہ جو لوگ سوال اٹھا رہے ہیں وہ حقیقت میں ملک کے ساتھ غداری کر رہے ہیں, یا ان کو وہ فوجی دکھائی نہیں دیتے جو سرحدوں پہ دنوں رات کھڑے رہتے ہیں, تو کیا ملک کی بھلائی کے لئے چند دن لائن میں نہیں لگ سکتے, یہ اور اس طرح کی دیگر باتیں جو سوشل سائٹس اور میڈیا میں کیں جارہی ہے,  نہایت ہی خطرناک ہیں, بلکہ اس کے ذریعہ جمہوریت کا مرڈر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ہندوستانی فوجیوں کو ہم سیلوٹ کرتے ہیں, ان کے عزم اور حوصلے کی تعریف کرتے ہیں, مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک کے لئے ان کی خدمات کی دہائی دیکر لوگوں کے سوال پوچھنے پہ پابندی لگادی جائے۔

آخر لوگ سوال کیوں نہیں کریں گے, وہ کیوں نہیں پوچھیں گے کہ جب حکومت کو پتہ تھا کہ ملک کی 86 پرسنٹ کرنسی 500 اور ہزار کے نوٹوں کی شکل میں موجود ہے, تو اس پہ بین لگانے سے پہلے ایسی کوئی پیش بندی آخر کیوں نہیں کی گئی جس سے عام لوگ پریشانی میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہ سکیں, ان کے کاروبار مندی کا شکار نہ ہوں, لوگ بھوک سے نہ مریں, مریضوں کو علاج کروانے میں پریشانی نہ ہو۔

حالات کتنے خراب ہیں, اس کا اندازہ صرف اسی وقت ہوگا, جب خود ساختہ نیشنلزم کو پس پشت رکھ کر جائزہ لیا جائے گا۔

آج (15/11/2016) ہی کے "دی ہندو” نیوز پیپر میں میوات کے ایک گاؤں "پنگوا” کے بارے میں خبر چھپی تھی جہاں اسٹیٹ بینک کا ایک برانچ ہے, جو تقریبا بیس کیلومیٹر کے دائرے کو کور کرتا ہے, وہاں صرف دو ملازمین کام کرتے ہیں, اور بھیڑ ہزاروں کی تعداد میں ہوتی ہے, وہاں تین دن سے لگاتار ایک چھ ماہ کی حاملہ عورت 16 کیلومیٹر کا سفر کرکے چھ چھ گھنٹے سات سات گھنٹے لائن لگاتی ہے, اور ناکام ونامراد واپس ہوجاتی ہے, اس کے شوہر کی طبیعت خراب ہے جس کی وجہ سے وہ سفر نہیں کرسکتا ہے, عورت کا بیان ہے کہ میرے پاس کچھ روپئے تھے جو دو دن آنے جانے میں صرف ہوگئے, اگر آج (تیسرے دن) نہیں نکل پایا تو پھر اب آنے کے بھی پیسے نہیں بچیں گے.

یہ اور اس جیسی نہ جانے کتنی کہانیاں اسی چار چھ دن کے اندر رونما ہوچکے ہیں, ذرا سوچئے مودی جی کے بیان کے مطابق, اگر پچاس دن تک یہی حالت تو رہی تو لوگوں کی کیا حالت ہوجائے گی.
چار چار گھنٹے, پانچ پانچ گھنٹے لائن میں لوگ لگتے ہیں, تب کہیں جاکے روپئے نکل پاتے ہیں, وہ بھی دو ہزار, چار ہزار, دس ہزار, جو بہت سارے لوگوں کی روزمرہ ضرورتوں کے لئے تقریبا ناکافی ہوتے ہیں, تو کیا اب پچاس دن تک سارے کام دھندے چھوڑ کر لائن ہی میں لگتے رہیں.

جب اس طرح کا فیصلہ لینا ہی تھا, تو فیصلہ لینے سے پہلے کم سے کم ماہرین سے صلاح مشورہ تو لے لیتے, اس کے اثرات پہ غور فرمالیتے, آنے والی پریشانیوں کا پہلے ہی حل تلاش کرلیتے, یا صرف تغلقی فرمان جاری کرنے سے مطلب ہوتا ہے.

مودی جی کو فیصلہ لینے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے تھا کہ نوٹ کی تبدیلی سے عام جنتا پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا, ان کی روز مرہ کی زندگی معمول کے مطابق چلتی رہے گی, اور یہ صرف اسی وقت ہوسکتا تھا, جب پانچ سو کے نئے نوٹ کو اعلان کے فورا بعد مارکیٹ میں اتار دیا جاتا, ایک طرف پرانے نوٹوں پہ بین لگائی جاتی, دوسری طرف نئے نوٹوں کو سرکولیٹ (Circulate) کردیا جاتا, دو ہزار کے نوٹوں کے ساتھ ساتھ جب پانچ سو کا بھی نوٹ جاری کردیا جاتا, تو اس سے پریشانی بہت حد تک کم ہوجاتی.
دوسری بات یہ کہ پرانے نوٹوں پہ بین لگانے سے پہلے اس بات پہ بھی غور کرنا چاہیئے تھا کہ کیا نئے نوٹوں کو ATM مشینیں accept کریں گی یا نہیں, مگر نہیں, اس پہ تو کوئی دھیان ہی نہیں دیا گیا, نتیجہ یہ ہوا کہ جب مشینوں میں پیسے ڈالنے کی کوشش کی گئی پتہ چلا کہ نئے نوٹ اس میں فٹ ہی نہیں ہورہے ہیں, اور اگر فٹ بھی ہوجارہے ہیں تو مشین کا سینسر اس کو محسوس کرنے سے قاصر ہے. آخر میں ارون جیٹلی کو بیان دینا پڑا کہ مشینوں کو صحیح کرانے میں تین ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے. حالانکہ اگر یہی کام فیصلہ لینے سے پہلے کرلیا جاتا تو شاید عوام کو شاید زیادہ پریشان نہ ہونا پڑتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔