تنکے سے آشیانے تک

سفینہ عرفات فاطمہ

پرندے‘میلوں لمبا سفرطئے کرتے ہیں ‘ پھربھی نہ کوئی گلہ نہ شکوہ‘نہ تھکن ‘نہ جبیں پہ شکن ‘ دھوپ ہویابارش ‘موسم خوشگوار ہویانہ ہو‘ ان کی زندگی ‘ ان کی آزادی میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ آسمان کی وسعتیں‘اونچی پہاڑیاں‘ درختوں کی ٹہنیاں سب کچھ ان کی دسترس میں ہے۔ وہ قدرت کے بنائے ہوئے قانون کے پاسدارہیں‘ نہ وہ منکرہیں نہ منحرف۔

ان کی زندگی میں ہمارے لیے ایک درس ہے‘ہم غورکریں تو ذرا۔
آنگن میں شہتوت کے درخت پر چڑیا نے اپناآشیانہ بنارکھاہے‘گھاس پھوس کے گھونسلے میں نہ جانے اس نے کتنے تنکے چن چن کرجوڑے ہیں‘اور اس کی تشکیل میں نہ جانے اس نے کتناوقت صرف کیا ہے‘کتنی محنت مشقت کی ہے۔اس نے اس گھونسلے میں اپنے ننھے نوزائیدہ بچوں کو سنبھال کر رکھا ہے ‘ وہ اپنی ماں کی ہنرمندی کے سبب شکار ہونے سے اب تک بچے ہوئے ہیں ۔
شاخِ نازک پربناہوا ایک ننھے سے پرندے کی کاریگری کا یہ شاہکار ہواؤں کی سفاکی بھی سہہ جاتا ہے۔ موسم کی ستم ظریفی یا کسی اوروجہ سے اس آشیانے کے تنکے بکھر سکتے ہیں ‘لیکن یہ ایقان کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ وہ حوصلہ مند چڑیامایوس نہیں ہوگی‘وہ کہیں اور اتنی ہی محنت مشقت سے اپنے گھونسلے کی بنیاد رکھے گی‘ قدرت نے اسے جو ہنر ودیعت کیا ہے ‘اسے بروئے کار لاکر پھر اسے سنوارے گی۔
’اگرکھوگیا ایک نشیمن توکیاغم ؟‘
ادھر ایک نایاب‘ خوبصورت ترین ‘ خوشنما رنگوں والا پرندہ دالان کی چھت سے لگے فیان پربیٹھ کرعجیب عجیب آوازیں نکالا کرتا ہے‘یوں لگتاہے وہ اپنی رہائش کے لیے کوئی گوشۂ عافیت تلاش کررہا ہے۔اسی دالان میں پچھلے چار سال سے چڑا اور چڑیا مقیم ہیں۔دن بھرنہ جانے کہاں کہاں گھوما کرتے ہیں‘غروب آفتاب کے وقت اپنے ٹھکانے پرلوٹ آتے ہیں ۔
پرندوں کا ’’تنکے ‘‘سے ’’آشیانے‘‘ تک کا یہ سفر‘کیامحنت مشقت اور حوصلہ مندی کے بغیرممکن ہے؟
ان بے زبان پرندوں کو کس نے یہ کاریگری سکھائی ہے؟ کون ہے جو انہیں اپنی ننھی سی چونچ میں کوئی تنکہ اپنے آشیانے کے لیے‘لے جانے کا شعوربخشتا ہے ؟کون ہے جس نے انہیں ’رزق‘ کے لیے جدوجہد کا ادراک عطاکیا؟ ۔۔۔خالقِ کائنات اورکون؟
کیا ہم انسانوں کی زندگی بھی ان پرندوں کی مانند خوبصورت نہیں ہوسکتی ؟ مسائل اور جھمیلوں سے پاک؟
کیاکبھی ہم نے سنا کہ کسی پرندے نے اپنی بیٹی کے بیاہ کے لیے فکرمندہوکرخودکشی کرلی؟کیاکبھی ہم نے کہیں یہ پڑھا کہ بے روزگاری نے ایک چڑے کی جان لے لی؟ کیا ہمیں کبھی یہ خبرموصول ہوئی کہ رات دیر گئے تک ایک پرندے کی شادی پرہنگامہ ہوتا رہا؟ کیا کبھی ہم پریہ منکشف ہواکہ پرندے گھریلوجھگڑوں سے پریشان ہیں؟
انسانوں کے سماج میں جوکچھ ہوتا ہے ‘ پرندوں کی زندگی ان تمام تر جھمیلوں سے آزاد ہے۔
ہاں یہ سچ ہے کہ انسانوں کی زندگی کا پرندوں کی زندگی سے تقابل نہیں کیاجاسکتا‘ لیکن ہمیں یہ تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ ہماری زندگیوں میں بہت کچھ ’غیرضروری‘ اور’لایعنی‘ بھی ہے۔
اگرہم پرندوں کی زندگی کے حوالے سے صرف ان کے تنکے سے آشیانے تک کے سفرپرہی غورکرلیں‘تومحنت مشقت ‘ہمت اور حوصلے کامفہوم سمجھ میں آئے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔