نکاح کی ضرورت و اہمیت

ذکی نورعظیم ندوی

(لکھنؤ)

اللہ تعالی نے انسانوں کی پیدائش کے بعد ان کی تمام اہم ضرورتوں کا انتظام اور اس کے لئے مناسب نظام بھی بنایا۔کھانے کے لئے غذائیں، پینے کے لئے پانی فراہم کیا تو ساتھ ہی حلال وحرام اور جائز و ناجائز کی تفصیلات واضح کرکے اس کا پابند کردیا۔ سانس لینے کے لئے ہوا اور آکسیجن کا فطری انتظام کیا، شجرکاری کی حوصلہ افزائی اور اس کی افادیت کو واضح کیا تو بے ضرورت درخت کاٹنے کو ممنوع قرار دے دیا۔ دنیا میں کامیاب زندگی کے لئے خاندان کی ضرورت، خاندان کی تشکیل اور وجود کے لئے نکاح کی مشروعیت، نکاح جیسے جائز اور مسنون عمل کی طرف ترغیب، اس کے بے شمار سماجی فوائد، اس پر اجر و ثواب کا وعدہ، ناجائز رشتوں کی قباحت و حرمت، اس کی مذمت، اس پر دنیوی سزا اور اخروی عذاب کو بیان کیا۔ اوراس طرح نکاح و شادی کے بعد ازدواجی تعلق کو نہایت مہذب شائستہ اور مطلوب طریقہ قرار دے کر اس کو نہایت آسان بنادیا۔

نکاح مرد اور عورت کا خالص نجی اور ذاتی معاملہ ہی نہیں، بلکہ یہ نسل انسانی کے وجود،  قیامت تک اس کی بقا و دوام اور بے شمار انسانی وسماجی ضرورتوں اور تقاضوں کی فراہمی اور تکمیل کے لئے اللہ اور رسول کی طرف سے متعین کردہ نہایت مہذب اور شائستہ طریقہ ہے اس لئے آئیے جائزہ لیں کہ نکاح سے کن انسانی و سماجی ضرورتوں کی فراہمی اور تکمیل ہوتی ہے۔ اور اس کے کیا فوائد اور اس کے نہ ہونے کے کیا نقصانات ہیں، تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ نکاح اور شادی انسانوں کے لئے کیوں ضروری ہے۔

(1) آپسی سکون ومحبت کا ذریعہ:

  اسلام میں نکاح کوکسی نا محرم سے آپسی پیار و محبت اور جائز تعلق کی بنیاد قرار دیا گیا اور اسے زندگی کی بہت سی اہم ترین ضروریات کی تکمیل، سکون و اطمینان اور باہمی الفت و مودت کا ذریعہ بنادیا گیا۔ "وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً”یعنی اللہ نے تمہاری ہی نسلوں سے تمہارے لئے جوڑا بنا کر ایک دوسرے کے سکون اور آپسی پیار و محبت کا انتظام فرمایا اور اس کو اللہ کی نشانیوں میں اہم نشانی قرار دیا۔ (الروم21)

(2) اللہ کا مطالبہ:

نکاح صرف انسانوں کی نجی ضرورت اور ان کا اختیاری مسئلہ و فیصلہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کو اللہ نےبے شمار سماجی ضرورتوںاور عفت و پاکدامنی کی خاطر مطلوب و مسنون قرار دیا اور فرمایا ” فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ” کہ پسند آنے والی خواتین سے نکاح کرو (النساء 3)

(3)انبیاء کا طریقہ:

نکاح عام انسانوں کی ضرورت اور طریقہ کار ہی نہیں بلکہ یہ اللہ کے منتخب کردہ اور کائنات کے سب سے افضل اور دنیا میں آئیڈیل اور اسوہ بناکر بھیجے گئے انبیاء اور رسولوں کی سنت اور طریقہ ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے نکاح کو بیشتر نبیوں کا اسوہ قرار دیا اور فرمایا "وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً”ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے اور ان کو بیوی بچوں سے نوازا (الرعد 38)

(4) مختلف رشتوں اور قرابت داری کا ذریعہ:

نکاح وہ سنت ہے جس کے ذریعہ صرف دو لوگوں کو باہمی پیار و محبت اور الفت و مودت کے ساتھ مربوط نہیں کیا جاتا بلکہ بہت سے ایسے نئے رشتے بھی عطا کئے جاتے ہیں جو زندگی خوشگوار بنانے اور اس کی خوشیوں کو دو بالا کرنے اور دکھ درد بانٹنے کا سبب بن جاتے ہیں اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نسبی رشتوں کی طرح نکاح کی وجہ سے بننے والے رشتوں کو اپنے انعام و احسان کے طور پر بیان فرمایا "وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا” کہ اللہ نے ہی پانی (انسانی نطفہ) سے انسانو‌ں کو پیدا کیا اور انھیں دو طرح کے رشتے نسبی اور سسرالی رشتے عطا فرمائے۔ (الفرقان 54)

(5) نبی اکرم کی سنت:

 سورہ رعد آیت نمبر38 میں اللہ تعالی نے نکاح کو بیشتر انبیاء کی سنت قرار دیا اور آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صرف نجی اور جنسی ضرورت کے بجائے ایک عمومی بڑی سماجی ضرورت قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت، ضرورت اور فضیلت کو مزید واضح کیا اور اس کو خود اپنی سنت بھی قرار دیا اور کئی شادیاں کیںجس کے بے شمار دعوتی و سماجی فائدے ملے اور فرمایا ”النِّكاحُ من سُنَّتي”( ابن ماجة عن عائشة)

(6) عام جانداروں اور انسان میں فرق:

اللہ تعالی نے کائنات میں بہت سی جان دار مخلوق پیدا کیے، ان کے اندر جنسی خواہش اور اس کے ذریعہ ان کی نسل بڑھانے کا انتظام فرمایا لیکن انسانوں اور دوسرے جانداروں میں فرق کرنے کے لئے انسانوں کو  نکاح کا مسنون طریقہ دے کر اس کو صرف وقتی ضرورت ہی نہیں رہنے دیا بلکہ عام حالات میں اس کو دائمی اور ایک دوسرے کے تئیں بہت سے حقوق و ذمہ داریوں سے مشروط کردیا اور انہیں عام جانداروں کی طرح آزاد کہیں بھی جنسی تسکین پوری کرنے کی اجازت نہیں دی اور اس طرح سے نکاح کو انسانوں اور دوسرے عام جانداروں میں فرق کا ایک اہم سبب بھی بنادیا۔

(7)سکھائی گئی دعا کا ثمرہ:

 نکاح کو اللہ تعالی نے باہمی ضرورتوں کی تکمیل، آپسی تسکین اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہی نہیں بنایا بلکہ اس کے لیے قرآن کریم میں ايک دوسرے کے لئے دعا کی بھی تلقین کی اور ایسا کرنے والوں کی تعریف اور اسے باعث اجر وثواب قرار دے کر اس کا طریقہ بھی سکھایا "وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا” اے اللہ ہمارے بیوی بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہمیں متقیوں کا سردار بنا (الفرقان 74)

(8) دنیوی ضرورتوں کی تکمیل کا ذریعہ:

نکاح اور شادی سے ایک لڑکا اور لڑکی صرف میاں بیوی ہی نہیں بنتے بلکہ اب وہ دونوں مل کر اپنی ضرورتوں اور بیشتر امور کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنی اپنی ذمہ داریاں متعین کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے کاموں میں معاون و مددگار بن جاتے ہیں اور اس طرح ان کے نجی، خاندانی اور دیگر تمام امور و معاملات بہترین انداز میں منظم طریقہ سے باہمی تعاون اور بہت سی صورتوں میں تو دونوں کے خاندانی افراد کی مشترکہ کوششوں اور محبتوں سے بآسانی انجام پانے لگتے ہیں۔

(9)خواتین کے حقوق کا تحفظ:

 نکاح کی مشروعیت کے ذریعہ خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ان کی ضرورتوں کا زندگی کے ہر مرحلہ میں معقول بندوبست کیا گیا چنانچہ بیوی کی تمام ضرورتوں خاص طور پر مالی مصارف، رہائش و زیبائش اور علاج و معالجہ، بیٹی کی پرورش، تعلیم و تربیت، اس پر آنے والے خرچ اور اس کے نکاح و شادی کی پوری ذمہ داری، اسی طرح ماں کی عزت و تکریم اس کے ساتھ حسن سلوک اور حسب ضرورت ان کی دیکھ بھال اور نگہداشت اور دیگر تمام متعلقہ امور کی ذمہ داری عام حالات میںمرد پر ڈالی گئی۔

(10) ثواب اور اخروی کامیابی کا ذریعہ:

نکاح کی وجہ سے میاں بیوی پر ایک دوسرے کے تئیں جو حقوق اور ذمہ داریاں عائد کی گئیں اسے صرف ذمہ داری اور بوجھ نہیں بلکہ اجر و ثواب اور اخروی کامیابی کا ذریعہ بھی بنا دیا گیا ۔ لہذا مرد کے ذریعہ خود اپنی بیوی بچوں پر خرچ کو سب سے بہترین صدقہ قرار دیا گیا ” دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ في سبيلِ اللَّه، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ في رقَبَةٍ، ودِينَارٌ تصدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْكِينٍ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ علَى أَهْلِكَ، أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذي أَنْفَقْتَهُ علَى أَهْلِكَ (مسلم عن أبی ھریرۃ) اسی طرح عورت کے ذریعہ شوہر کی اطاعت پر جنت کی بشارت دے دی گئی. "أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة”(الترمذي عن ام سلمة)

(11)بھلائی اور خیر کا معیار:

 شادی کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک، اچھے برتاؤ اور احساس ذمہ داری کو ایک اچھا انسان ہونے کا معیار قرار دیا گیا لہذا واضح کردیا گیا کہ کوئی بھی مرد یا عورت ایک اچھا انسان اسی وقت ہو سکتے ہیں جب وہ اپنے اہل و عیال، شوہر و بیوی، بچوں اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسن سلوک کریںاور حدیث میںواضح کردیا گیا کہ خود نبی اکرم نے اہل و عیال کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی عظمت کا ایک اہم سبب قرار دیا "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي(ترمذى عن عائشۃ)

(12) نسل انسانی کی وجود و بقاء کا طریقہ:

 نکاح اور شادی صرف جنسی تسکین نجی اور خاندانی ضرورتوں اور ایک دوسرے کی دیگر مصلحتوں کی تکمیل کا  ہی ذریعہ نہیں بلکہ یہ قیامت تک نسل انسانی کی وجود و بقا کے لئے اللہ تعالیٰ کا متعین کردہ اور انبیاء کرام کا اختیار کردہ وہ مہذب اور شائستہ طریقہ ہے جس کا اللہ نے حکم دیا اور فرمایا۔”فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ” کہ پسند آنے والی خواتین سے نکاح کرو (النساء 3)

(13)بچوں کی غذا اور کفالت کا ذریعہ:

نکاح اور شادی کو اللہ تعالی نے نسل انسانی کی وجود اور پیدائش کا ذریعہ بنایا اسی طرح بچپن میں بے فکر، بے بس و بے سہارا اور معصوم بچوں کی معقول غذا، دیکھ ریکھ اور پرورش کا انتظام ماں کی بالکل بے لوث ممتا کے ذریعہ اور اس کی دیگر ضرورتوں کی تکمیل اور ہر طرح کی کفالت ارر تعلیم وتربیت کا انتظام باپ کی عنایتوں اور توجہ کے ذریعہ کیا۔

(14)والدین کے لئے سہارا:

اگر شادی اور نکاح کے ذریعہ بچپن میں بچوں کی ضروریات کا انتظام کیا گیا تو بڑھاپے میں انہیں بچوں کو والدین کا سرمایہ اور سہارا بنا دیا گیا اور اللہ تعالی کی عبادت کے بعد والدین کو سب سے بڑا رتبہ دیا گیا اور بچوں سے مطالبہ کیا گیا کہ ان کے ساتھ ہر حال میں حسن سلوک، ان کی تمام ضروریات کی فکر اور ان کی ہر طرح خبر گیری فریضہ سمجھ کر انجام دیں۔

(15)رشتوں اور قرابت داری کا ذریعہ:

نکاح اور شادی صرف میاں بیوی یا چند سسرالی رشتہ داری کا ہی ذریعہ نہیں بلکہ اس مقدس عمل نکاح کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی رشتہ داری کو مربوط کردیا اور اسی کے ثمرہ کے طور پر دادیہالی اور ننہالی رشتہ داریوںسے بھی نوازا ۔ لہذا دادیہالی رشتہ داروں میں چچا، پھوپھی اور چچازاد و پھوپھی ذاد رشتے، اور ننہالی رشتہ داروں میں ماموں، خالہ اور ماموں زاد و خالہ زاد رشتے عطا فرماکر سماجی ضرورتیںواآسان بنادیں اور باہمی صلہ رحمی کا پابند کیا۔

(16) عفت و پاکدامنی کا ذریعہ:

نکاح کو اللہ تعالی نے فطری جنسی خواہشوں کی تکمیل کا شرعی اور شائستہ طریقہ بنایا اور اس طرح انسان کی فطری ضرورت کا ایسا حل پیش کیا جو ایک طرف بے شمار اجر و ثواب کا سبب ہے تو دوسری طرف بدنگاہی سے بچنے کا ذریعہ، عفت و پاکدامنی کا نسخہ اور انسانی عزت وآبرو کے تحفظ کا الہی فطری نظام بھی ہےاسی لئے اس کو عبد اللہ بن مسعود کی روایت میں بدنگاہی سے بچنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا سبب قرار دیا گیا۔” يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ” (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ)

(17) نسل انسانی کا تحفظ اور شبہات کاازالہ :

نکاح اور شادی فطری جنسی خواہشات کی تکمیل، نئی نسل کے وجود، پیدائش اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچوں کی کفالت اور پرورش کا ذریعہ بھی ہے۔اسی لئے خاتون کو بیک وقت ایک مرد کے ساتھ وابستہ کرکے نسل انسانی کا تحفظ، نطفۂ انسانی کے مشتبہ ہونے کے امکان کو ختم کرنے اور نو مولود بچے کے تئیں ماں باپ کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا پابند کیا گیا اور اس کو یقینی بنادیا گیا کہ اصل باپ اور پرورش وکفالت کا ذمہ دار معلوم و متعین رہے اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہ رہے۔

(18) صدقہ جاریہ:

 شادی، نکاح اور اس کی وجہ سے قائم ازدواجی رشتہ نسل انسانی وجود اور اولاد کی نعمت کے حصول کا جائز ذریعہ ہے اور اولاد کا حصول شادی کے اہم مقاصد میں ہے اسی لئے اولادکے لیے انبیاء کرام نے بھی دعائیں کی اور اللہ نے انھیں نا صرف دنیوی زندگی کی زینت، بڑھاپے کا سہارا  اوران کی تربیت کو اخروی زندگی میں بہت سارے اجروثواب کا ذریعہ بنا یا بلکہ والدین کے لئے صدقہ جاریہ بھی بنادیا”إذا مات الإنسانُ انقطع عنه عملهُ إلا من ثلاثةٍ: إلا من صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له”  (مسلم عن أبی ھریرۃ)

(20)اجر و ثواب کا ذریعہ:

مسنون نکاح اورجائز ازدواجی تعلقات آپسی سکون، جنسی تسکین، اولاد کی پیدائش کا سبب، صدقہ جاریہ اور دیگر بہت ساری خوبیوں کے ساتھ اجر و ثواب کا ذریعہ بھی ہے  وفي بُضع أحدكم صدقة، قالوا : يا رسول الله أيأتي أحدُنا شهوتَه ويكون له فيها أجر ؟ قال : أرأيتم لو وضعها في حرام أكان عليه فيها وزر ؟ فكذلك إذا وضعها في الحلال كان له أجر”(مسلم عن أبی ذر)

تبصرے بند ہیں۔