نہ جانے  "شام” میں صبح کب ہوگی؟

محمد نافع عارفی 

آسمان سے برستے آگ  کےگولے، بم دھماکوں کی گونج، فضا میں گرجتے جنگی طیارے،  توپوں اورمیزائلوں  کی دل دہلا نے والی آوازیں ، مشیگنوں کی تڑ تڑاہٹ، مکانات سے اٹھتا ہوا سیاہ دھنواں ، جلی بھنی لاشیں ، جسم انسانی کے اڑتے چیتھڑے، مسخ شدہ لاشیں ، چیختی چلا تیں عورتیں ، روتے گر گراتے بوڑھے،تڑپتے بلکتے معصوم بچے اور خوف زدہ نوجوان، ویران شہر، تباہ حال گاؤں ،آباد قبرستان ایک بھیانک ملک جہاں ہر طرف موت رقص کر رہی ہے-یہ حالت ہے انبیاء کرام کی مبارک سر زمین کی جہاں اللہ پاک نے برکت دی ہے، یہ وہ سرزمین نجات ہے جہاں اللہ کے اولوالعزم پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کو اللہ نے نجات دی "ونجينه ولوطا إلى الأرض التي باركنا فيها للعالمين” (الأنبياء :71) "اور ہم نے ابراہیم کو اور لوط کو ایسے ملک کی طرف بھیج کر بچالیا جس میں ہم نے دنیا جہان والوں کے واسطے برکت رکھی ہے” (بیان القرآن :490/2)۔

علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں با برکت سر زمین سے مراد یہی شام  سر زمین ہے، "والمراد بهذه الأرض أرض شام”(روح المعانی 104/10ط:دیوبند)اسلام کی نظر میں یہ خطہ ارضی بڑی با برکت ہے، احادیث میں جس شام کا ذکر آیا ہے اس کا جغرافیائی حدود اس سے بہت ہی وسیع تر ہے جسے موجود دنیا شام یا sirya کے نام جانتی ہے، ماہرین جغرافیہ نے شام کا طول فرات سے عریش مصر اور عرض جبل طے سے بحر روم بیان کیا ہے، ابو اسحاق اصطخری، ابن شداد، زکریا القزوینی، یاقوت الحموی اور ڈاکٹر شوقی ابو خلیل نے شام کا جغرافیائی حدود کم وبیش یہی ذکر کیا ہے، اور یہ پورا علاقہ شا م تھا جسے 1946 میں فرانس سےآزادی کی قیمت لبنان، اردن فلسطین اور اسرائیل کی شکل میں ادا کرنی پڑی-سفرمعراج نبی کریم علیہ السلام کی یہ پہلی منزل تھی اور اللہ تعالٰی نے اس اس مبارک علاقے میں برکت عطا فرمائ ہے،( الاسراء:1)اور یہی وہ مبارک ملک جس کی طرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ہوائیں چلتی تھیں (الانبیاء :81)

نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے اس ملک میں برکت کی دعا فر ما ئ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صل اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی، بار الہ ہمارے لئے برکت عطا فرما ہمارے شام اور ہمارے یمن، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ہمارے نجد میں بھی برکت کی دعا فرمادیں آپ نے دعا کی اے اللہ برکت دیجئیے ہمارے شام میں اور ہمارے یمن میں صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہمارے نجد میں بھی؛ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ فتنے رونما ہونگے اور وہیں سے شیطان کا سینگھ نکلے گا (بخاری :3953،باب قول النبی صلی اللہ علیہ و سلم الفتنة من قبل المشرق) حضرت ابو درداء نے نبی کریم علیہ السلام کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ فتنہ کے دور میں ایمان شام میں باقی رہے گا (مسند احمد :21733)

بلاد شام کی فضیلت میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بڑی واضح ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "طوبى للشام قلنا لأي ذلك يا رسول الله؟ قال:لأ ن ملائكة الرحمن باسطة أجنحتها عليها”( ترمذی :3954_ابواب المناقب، 653/2)شام والوں کے لیے خوشخبری ہو، ہم نے دریافت کیا کہ کس وجہ سے اے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا رحمان کے فرشتے ان کے اوپر اپنا پر پھیلا ئے ہوئے ہیں ،، اسی طرح نبی کریم علیہ السلام نے فتنوں کے دور میں شام کو مؤمن کا بہترین ٹھکا نہ قرار دیا ہے”عقر دار المؤمنين بالشام (نسائ:3541)علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ پرفتن دور میں اہل ایمان کا پرامن ٹھکانہ شام ہوگا جہاں وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرسکیں گے – (النہایہ 71/1)

مشہور صحابی حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ  رسول اللہ ﷺ شام کو اہل حق کا مرکز بتاتے ہوئے فرمایا :

لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ» قَالَ عُمَيْرٌ: فَقَالَ مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ: قَالَ مُعَاذٌ: وَهُمْ بِالشَّأْمِ ( بخاری:7460 ،کتاب التوحید )

’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گا، ان کو رسوا کرنے والوں اور ان کی مخالفت کرنے والوں سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہونچے گا اور قیامت تک وہ اسی حالت پر ثابت قدم رہیں گے، (روایت کے راوی حضرت)عمر بن ہانی مالک بن یخامر کی وساطت سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ نے فرمایا یہ لوگ ملک شام میں ہوں گے ‘‘

حضرت ابن حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

سَيَصِيرُ الْأَمْرُ أَنْ تَكُونُوا جُنُودًا مُجَنَّدَةً جُنْدٌ بِالشَّامِ وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ، فَقَالَ ابْنُ حَوَالَةَ: خِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ، فَقَالَ: عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ فَإِنَّهَا خِيَرَةُ اللَّهِ مِنْ أَرْضِهِ يَجْتَبِي إِلَيْهَا خِيَرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ، فَأَمَّا إِنْ أَبَيْتُمْ فَعَلَيْكُمْ بِيَمَنِكُمْ وَاسْقُوا مِنْ غُدَرِكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ – عَزَّ وَجَلَّ – تَوَكَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِه (مسند احمد: 17005)

’’ عنقریب معاملہ اتنا بڑھ جائے گا کہ بے شمار لشکر تیار ہو جائیں گے چنانچہ ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں اور ایک عراق میں ، ابن حوالہ رضی اللہ عنہ نے عر ض کی یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر میں اس زمانے کو پاؤں تو مجھے کوئی منتخب راستہ بتا دیجئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شام کو اپنے اوپر لازم کر لینا، کیونکہ وہ اللہ کی بہترین زمین ہے، جس کے لئے وہ اپنے منتخب بندوں کو چنتا ہے، اگر یہ نہ کر سکو تو پھر یمن کو اپنے اوپر لازم کر لینا، اور لوگوں کو اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اہل شام اور ملک شام کی ذمہ داری لے لی ہے

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَحَوَّلَ خِيَارُ أَهْلِ الْعِرَاقِ إِلَى الشَّامِ، وَيَتَحَوَّلَ شِرَارَ أَهْلِ الشَّامِ إِلَى الْعِرَاقِ وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ "(مسند احمد: 22165) یہ روایتیں اور ان جیسی متعدد روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد روئے زمین پر بادشاہ سب سے بابرکت خطہ ہے؛ جہاں اللہ تعالٰی نے خیرووبر کت ودیعت کر رکھی ہے ، مزید یہ کہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سرزمین شام کو ہی میدان حشر بنایا جائے گا جہاں قیامت کے بعد اولین وآخرین جمع ہوں گے، چناں چہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الشَّامُ أَرْضُ الْمَحْشَرِ وَالْمَنْشَرِ ( مسند بزار:3965 )’’شام حشر ونشر کی سرزمین ہے ‘‘

  لیکن انبیاء ورسولوں اور حشر ونشر کی یہی سرزمین قیامت سے پہلے قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے، ربیع عرب کے نتیجے میں برپا ہونے والا انقلاب شام کے لئے خزاں ثابت ہو اور زندگی کی ساری بہاریں لٹ چکی ہیں ، زرہ زرہ لہولہان ہے، ہرطرف خون کے دھبے ہی دیکھا ئ پڑ تے ہیں ، شام بدکردار ظالم وجابر درندہ بشار الاسد  نے روس اور مجوسی ایران کے ساتھ ملک کر خود اپنے ہی شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے، حلب، موصل  کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، بشار الاسد کے ظالم درندوں اور ایران کے بدکردار بدین شیعہ ملیشیا نے موت کا وہ کھیل کھیلا کہ موت بھی شرمندہ ہے، جوان، بوڑھے، مرد عورت یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھی اس ظالم بشار بخشا، بشار الاسد کے درندے جس سمت اور جس علاقے گزرے وہاں تباہی و بربادی اور بربریت کا داستان رقم کی ہے جس کے مقابلے فرعون وشداداورہٹلرکی داستان ظلم بھی معمولی معلوم ہوتی ہے۔

ابھی حلب نوحہ بھی ختم نہیں ہو ا تھا کہ ادلب کے شیخون میں موت کی ننگا ناچ ہوا کہ مسولینی کے مظالم بھی ہیچ پڑ گئے، بشار الاسد کی ظالم فوج نے اور روس وایران کی ملی بھگت زہریلی گیس سے سیکڑوں معصوم بچے تڑپ تڑپ بدترین موت کا شکار ہو گئے، لیکن ہائے افسوس حقوق انسانی کے علمبرداروں کے کان پر جوں تک نہ رینگی، ان کی بات  ہی ہم کیوں کریں جن کے دل میں ایمان نہیں اور جن کے  دل اہل ایمان کی دشمنی سے ابل رہے ہیں ،اور جو کچھ ان کی زبان سے ظاہر ہورہا ہے وہ اس بغض و عداوت کہیں زیادہ ہے جو انہوں نے اپنے دل میں چھپا رکھا ہے، "قدبدأت البغضاء من أفواههم وما تخفي صدورهم ا كبر” خود ہمارے عرب شاہوں کی طرف سے ایک حرف احتجاج بلند نہیں ہوا اور ان سے امید بھی نہیں ہے، وہ اپنی عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے اپنے آپ میں مگن ہیں ، امارات حکومت اس مندر کی تعمیر سے اپنے آقاؤں کو اپنے سیکولر ہونے کا پیغام دے رہی ہے، اس بدترین بات کیا ہو سکتی ہے ہے کہ اس جزیرہ العرب حکومت اپنی سر پرستی میں مندر بنوارہی ہے، جسے اللہ کےرسول نے کفر وشرک کی آلودگی سے پاک کیا تھا۔

جب قوم بت شکنی چھوڑ بت فروشی کو اپنا شیوہ بنالے تو اس کی ہلاکت یقینی ہے، کہاں مملکت خداداد پاکستان کے ایٹمی ہتھیار، کہاں ہیں سعود یہ عربیہ اور امارات کے جنگی طیارے؟ کیا یہ اسلحے جامعہ حفصہ کی معصوم طالبات کے لئے ہیں ، یا سوات یمن کے نہتے مسلمانوں کے لئے ہیں ، خدارا اب بھی ہوش کے ناخن لو اور اپنے حقیقی دشمنوں کو پہچانو ورنہ کل اللہ کے یہاں کیا جواب دوگے، دل تڑپ رہا ہے اور قلم خون آنسو بہا رہے، مبارک ہمارے شامی بھائیوں ، تمھارے ایمان و استقامت کو سلام؛ تم ہم جیسے بزدل اور ناکارے نہیں ہو، تمھا ری جہاد آزادی کو سلام عنقریب تمھارے پاکیزہ لہوسے جہاد واستقامت کی ایک نئ تاریخ لکھی جائے گی اور اس تاریکی کے پردے سے امن و سلامتی کی نئ صبح طلوع ہوگی اور دنیا اسلام کا سایہ عدل نصیب ہو گا ، اے اللہ ہمارے شامی بھائیوں کی مدد فرما، اے اللہ ہمارے شام میں بر کت دے، ہمارے شام میں برکت دے  آمین یارب العالمین –

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔