نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن منصوبہ

سراج الدین فلاحی

آپ کو یاد ہو گا نومبر2016 میں مودی سرکار ڈی مونیٹائزیشن کی پالیسی لے کر آئی تھی جس کے تحت ہزار اور پانچ سو کے بڑے نوٹوں کی قانونی حیثیت راتوں رات ختم کر دی گئی تھی۔ اب سرکار مونیٹائزیشن کے نام سے ایک نیا منصوبہ لانچ کر رہی ہے۔ آپ نے سنا ہو گا23 اگست کو وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے پریس کانفرنس کے ذریعےاعلان کیا ہے کہ سرکار نیشنل  مونیٹائزیشن پائپ لائن منصوبہ لانچ کر رہی ہےجس کے ذریعے سرکاری اثاثے پرائیویٹ اداروں کو لیز پر دیا جائے گا اور سرکار آنے والے چار سالوں میں اس سے چھ لاکھ کروڑ روپیے اکٹھا کرئے گی۔اس منصوبہ کےتحت ٹرین، روڈ ویز، پاور ٹرانسمیشن، گیس پائپ لائن، پاور جنریشن، وئیر ہاؤسنگ، مائننگ، اربن ریئل اسٹیٹ، پورٹ، اسٹیڈیم اور ایئر لائن وغیرہ کوملا کر کل 23 کمپنیوں کی سیل لگائی جا رہی ہے اور دعوی کیا جا رہا ہے کہ چھ لاکھ کروڑ کی ایک بڑیرقم سرکار کے خزانے میں آ جائے گی جس کی مدد سے سرکار ملک کے انفراسٹرکچر کو مضبوط کرئے گی۔ اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے2021 سے 2024 تک ہر سال کا ایک ٹارگیٹ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ کس سال کتنا اثاثہ لیز پر دیا جائے گا۔ چنانچہاس سال سرکار نے ان سے88 ہزار کروڑ روپیے اکٹھا کرنے کا اندازہ لگایا ہے جبکہ2022 میں 1.62 لاکھ کروڑ، 2023 میں 1.79 لاکھ کروڑ اور 2024 میں 1.67 لاکھ کروڑ روپیے جٹائے گی۔گویا سرکار اپنے اثاثوں کو پرائیویٹ سیکٹر کو دینے جا رہی ہے اور ساتھ یہ بھی کہ رہی ہے کہ ہم اسے بیچ نہیں رہے ہیں بلکہ کرایے پر دے رہے ہیں یعنی اس سے سرکار کی ملکیت تبدیل نہیں ہو گی۔ سرکار یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہلفظ بیچنا برا تصور کیا جاتا ہے اس لیے وہ عوام کولفظوں کے گورکھ دھندوں میں الجھا کر پرائیویٹائزیشن کی پالیسی اپنا رہی ہے۔سرکار کا مزید کہنا ہے کہ یہ براؤن فیلڈ انویسٹمنٹ ہے یعنی سرکار کے پاس بہت سارے ایسے شعبے ہیں جن کا مکمل اور مناسب استعمال نہیں ہو پا رہا ہے اس لیے سرکار ان شعبوں کو پرائیویٹ اداروں کو لیز پر دے گی جس سے سرکار کے پاس انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے6 لاکھ کروڑ روپیے آ جائیں گے۔

سرکار جن ہاتھوں میں سرکاری اثاثے سونپ رہی ہےیہ وہی ہاتھ ہیں جنہوں نے گذشتہ چند سالوں کے دوران حکمراں جماعت کو سب سے زیادہ سیاسی فنڈنگ کی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان ہاتھوں کے ذریعے جتنی سیاسی فنڈنگ پچھلے سات سالوں میں ہوئی ہے اتنی فنڈنگ ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔ آنکڑوں کے مطابق یومیہ اوسطا دس کروڑ کی سیاسی فنڈنگ بی جے پی کو ہو رہی ہے۔ البتہ اب ایسا لگتا ہے کہ ان کی فنڈنگ کا طریقہ کار بدل گیا ہے اسی لیے مونیٹائزیشن کی نئی پالیسی لائی جا رہی ہے۔ آپ  گذشتہ چند سالوں کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ صرف چند بڑی کمپنیوں نے7380 کروڑ روپیے کے الیکٹورل بانڈ ز کی خریداری کی ہے جس میں نوے فیصد بانڈز بی جے پی کے پاس آئے  ہیں اور یہ کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے۔ ذرا تصور کیجیے ہندوستان جس میں کووڈ کے سبب غربت اور بے روزگاری کی ہاہاکار مچی ہوئی ہے، ایک بڑی آبادی بھوک مری کا شکار ہے، لوگوں کے پاس کھانے اور علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں ایسی صورت حال میں سیاسی پارٹیوں کے پاس کمپنیوں کے ذریعے 7380 کروڑ روپیے صرف بانڈز کی شکل میں آ رہے ہیں۔ کیا یہی وجہ نہیں ہے کہ انہی جیسے کارپوریٹ گھرانوں کے لیے مونیٹائزیشن کا یہ نیا شگوفہ چھوڑا جا رہا ہے اور ملک کے قوانین اور ضابطوں میں تبدیلی ہو رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سرکار اور کارپوریٹ میں ایک سمجھوتہ ہوا ہے کہ ہم آپ کو فائدہ پہنچائیں گے آپ ہمیں فائدہ پہنچائیں۔سرکار جن شعبوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے رہی ہے ان کے بارے میں سرکار کا یہ کہنا کہ ان کا صحیح استعمال نہیں ہو رہا ہے خود اپنے آپ میں بہت سارے سوالات پیدا کر رہا ہے۔ کیا ٹرینوں اور سڑکوں کا صحیح استعمال نہیں ہو رہا ہے؟ ٹرینوں میں تو اتنی بھیڑ رہتی  ہے کہ اس میں کبھی بھی اور کسی بھی سیزن میں ٹکٹ نہیں ملتا ہے۔ کیا ایئر پورٹ اور بندرگاہوں کا استعمال صحیح نہیں ہو رہا ہے؟ کیا ٹیلی مواصلات یا بجلی کا استعمال صحیح نہیں ہو رہا ہے؟ پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کے بعد ان کا استعمال کس طرح صحیح ہو جائے گا؟ حیرت اس بات پر نہیں ہے کہ27 فیصد سڑکیں، 25 فیصد ٹرینیں، 15 فیصد بجلی اور 8 فیصد آئیل اور گیس پائپ لائن نیز دودرجن بندرگاہیں، ایئر پورٹ وغیرہ کو پرائیویٹ کیا جا رہا ہے تعجب اس بات پر ہے کہ عوام سو رہی ہے۔ مونیٹائزیشن کی یہ لسٹ اتنی لمبی ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ ایک کتاب چھاپی گئی ہے۔ دھیان رہے یہ وہ شعبے ہیں جنہیں اسٹریٹجک شعبہ کہا جاتا ہے، انہیں پر ملک کی معیشت کا دارومدار ہوتا ہے۔ اگر سرکار انہیں پرائیویٹ ہاتھوں میں دے رہی ہے تو اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکار اور پرائیویٹ اداروں کے مابین کیا سانٹھ گانٹھ چل رہی ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ بیوروکریسی کی ناکامیوں کی وجہ سے پبلک سیکٹر منافع بخش نہیں ہو پاتا لہذا ملک کے معاشی گروتھ اور  ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تمام شعبوں کو بتدریج پرائیویٹ ہاتھوں میں دیا جانا چاہیے تاکہ کمپنیاں آزادانہ طور پر پالیسیاں بنا سکیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے اس پرعمل کر سکیں، سرکار کا کام روزگار فراہم کرنا اور عوام کو معاشی امداد مہیا کرنا نہیں بلکہ اس کا کام صرف قانون اور ضابطوں کو نافذ کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب ہندوستانی معیشت مخلوط معیشت (Mixed Economy) سے مکمل طور پر آزاد ہو کر مارکیٹ اکونومی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے جس میں تمام معاشی فیصلے پرائیویٹ ہاتھوں کو دے دیے جاتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں کس طرح سرکاری ملازمین سے کام لیں گی کہ ان کے کام کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو جائے گااور کاروبار منافع بخش ہو جائے گا؟ فرض کرتے ہیں ٹرینوں کو وقت سے چلانا ہے، ان میں صفائی اور دیگر سہولیات میں اضافہ کرنا ہے۔ تو کیا اس میں قیمت میں اضافہ کیے بغیر ممکن ہو سکتا ہے؟ ٹرینوں کو چلانے سے پہلے نہ صرف اس میں سدھار کرنا لازمی  ہو گا بلکہ ان کی پٹریوں کی اصلاح کی بھی ضرورت ہو گی جس کے لیے ایک بہت بڑے انویسٹمنٹ کی ضرورت ہو گی۔ جب کمپنیاں اتنے بڑے لیول پر انویسٹمنٹ کریں گی تو کیا چار سال بعد سرکار اسے واپس لے لے گی؟ اگر سرکار صرف چار سال بعد واپس لے لے گی تو ایسی صورت میں کمپنیاں انویسٹ کیوں کریں گی؟ اپنی تکنیک اور مشینوں کا استعمال کیوں کر کریں گی؟ کیا سرکار انہیں مہلت نہیں دے گی؟ اس کی مدت میں دس بیس سال توسیع نہیں کرئے گی؟ سوالات بہت سارے ہیں جن کےجوابات نہیں مل رہےہیں۔ اب تو ایسا لگتا ہے جس طرح انگریزوں نے زمین داری سسٹم کو فروغ دیا تھا اور زمیں داروں کو ساری زمینوں کا مالک بنا  کر کاشتکاروں کے خون نچوڑنے کے کام پر مامور کر دیا تھاٹھیک اسی طرح یہ سرکار بھی پرائیویٹ کمپنیوں کو ملک کے اثاثئے سونپکر انہیں زمین دار بنا رہی ہے تاکہ وہ عوام کی جیب سے پیسے نچوڑ نچوڑ کر خود بھی رکھیں اور سرکار کو بھی دیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔