ڈاکٹر اسلم پرویز کی خاکہ نگاری

ڈاکٹر عمیر منظر

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اپنا مشہور زمانہ ڈرامہ’’ آگرہ بازار‘‘ اسٹیج کرتے ہوئے حبیب تنویر نے کہا تھا کہ اس ڈرامے کو لکھنے سے پہلے میرا خیال تھا کہ انشاء اللہ خاں کی انشا کی شخصیت کا بانکپن اور ظریفانہ رکھ رکھائو میں ڈرامائی عناصر زیادہ ہیں اسی لیے میں نے پہلے پہل سیدانشا کا انتخاب کیا۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد مجھ پر ظاہر ہوگیا کہ طبیعت کی شوخی اور ظریفانہ رکھ رکھائواپنی جگہ لیکن ڈرامہ کے لیے انشا ء سے زیادہ نظیر مناسب رہیں گے اور پھر زمانہ نے دیکھ لیا کہ میرا یہ فیصلہ کس قدر مناسب تھا۔

          ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی خاکہ نگاری پر لکھتے وقت یہ باتیں یونہی نہیں یاد آرہی ہیں۔ در اصل اسلم پرویز کی شخصیت اور ان کی ادبی اور تحقیقی خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ وہ خاکہ نگاری کے کوچے کی بھی سیر کریں گے۔ جولوگ ڈاکٹر خلیق انجم اور اسلم پرویز کی دوستی کے گواہ ہیں ان کے ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے مگر وہ بھی تا دیر قائم نہیں رہتا۔البتہ کلاس روم میں ان سے درس لینے والوں پر ممکن ہے کہ وہ زیادہ کھلے ہوں لیکن اسلم پرویز کی تحریروں کا قاری ان کی ادبیت اور شگفتہ اسلوب کا ضرور قائل ہوتا ہے۔ وہ سید انشاء سے متاثر ہیں۔ شگفتہ بیانی اور سلاست کی بہت سی جہتیں سید انشاء اللہ خاں انشاپر ان کی تحقیقی کاوش بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر محمداسلم پرویز کااصل نام اسلم خاں تھا، ۵؍اکتوبر ۱۹۳۲ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دہلی میں اور اعلی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی۔ بعد میں جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں استاد مقرر ہوئے اور یہیں سے سبکدوش بھی ہوئے۔ ۶،ستمبر ۲۰۱۷ کو دلی میں انتقال ہوا۔انھوں نے ان شاء اللہ خاں انشاء:عہد وفن‘‘،’’قلعہ معلی کی جھلکیاں ‘‘(  ۱۹۸۶)،بہادرشاہ ظفر( ۱۹۸۶)، ’’تحریریں ‘‘ مجموعۂ مضامین (۱۹۹۹)،شیخ محمدابراہیم ذوق (مرتبہ ۱۹۹۹)’’سن ستاون کی دلی اوربہادرشاہ ظفر‘‘ (مرتبہ ۲۰۰۸)،میری دلی (خود نوشت ۲۰۱۵ء)،’’گھنے سائے‘‘ (خاکوں اورشخصی مضامین کا مجموعہ۲۰۱۰ )، ’’چندن کا پیڑ‘‘( شعری مجموعہ)جیسی یاد گار کتابیں چھوڑی ہیں۔

اسلم پرویز کے خاکوں میں گفتنی اور ناگفتنی دونوں پہلو شامل ہیں۔ دلی کے فصیل بند علاقے کی خاک چھانتا ہوا ایک سنجیدہ اور ڈرا سہما نوجوان اپنی آزادی کے کچھ یادگار پل علی گڑھ میں حاصل کرتا ہے۔ روزگار اور ادب کی دھوپ چھائوں سے گزرتا ہوا دانشوری کے اس مرکز تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کرتا ہے، جس پر ان دنوں فرقہ پرستوں کی یلغار ہے۔ دانشوری کی وہ روایت جو جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مونس رضا سے ہوتی ہوئی نامور سنگھ تک پہنچی تھی اس کا ایک معتبر حصہ ڈاکٹر اسلم پرویز بھی تھے۔ ان کے خاکوں میں دلی کے گلی کوچوں، علم و دانش اور ادب پروری کی ایک متاع گراں بہا ہے۔جس سے ہرشخص حسب استطاعت فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

ڈاکٹر اسلم پرویز اپنے بارے میں خود بعض باتیں ایسی کہہ جاتے ہیں کہ اس سے ان کی طبعی حس مزاح کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ وہ لطف لینا جانتے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو انھوں نے تو علی گڑھ کو دیکھا تھا اس کی انٹروڈکشن نائٹ یعنی شب تعارف میں تعارف بھی کرایا تھا۔ یہ دلچسپ تعارف ان کی شگفتہ مزاجی کا مظہر اور علی گڑھ کی تربیت کا نمایاں پہلو ہے۔

          ہماری انٹروڈکشن نائٹ میں ہم سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ ہماری ذات کیا ہے ہم نے کہا پٹھان اس پر کسی اور سینئر نے پوچھا آپ کہاں کے پٹھان ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ کابل کے۔ ایک اور سینئر نے فوراََ فقرہ جڑا کہ اتنا تو کابلی چنا ہوتا جتنے بڑے آپ ہیں۔ (گھنے سائے، ص :۱۰۳)

          گھنے سائے ڈاکٹر اسلم پرویز کے خاکوں اور شخصی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کے مطالعہ سے اسلم پرویز کے بہت سے گمنام گوشے سامنے آتے ہیں۔ خاکہ خودنوشت سوانح ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ دوسروں پر لکھتے لکھتے کب لکھنے والے کی ذات اس میں شامل ہوجاتی ہے پتا نہیں چلتا، ’’ ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘  میں یہ ہنر اچھی طرح دیکھا جا سکتا ہے۔ گھنے سائے کے متعدد خاکوں میں اسلم پرویز کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھاجاسکتا ہے۔ بطور خاص خلیق انجم، نثار احمد فاروقی، رشید حسن خان، نامور جی اور چچی کے خاکوں میں۔

          ’’میں اور شیطاں ‘‘ کے عنوان سے خلیق انجم کا جو خاکہ اس کتاب میں شامل ہے اسے اردو کے اچھے خاکوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔ اس سے صرف خلیق انجم کے عادات و اطوار اور طرز و بود وباش کا پتہ نہیں چلتا بلکہ خلیق انجم کی شخصیت کے جلو میں اسلم پرویز کی زندگی کے بہت سے پہلوروشن ہوتے جاتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ انھوں نے خلیق انجم یا اپنے اوپرلکھنے میں کسی تکلف اور تردد سے کام نہیں لیا ہے۔

خلیق انجم کا تعارف اسلم پرویز اس طرح کراتے ہیں۔

          ’’میرے برابر کی سیٹ پر عشرت نام کا ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ یہ لڑکا اس سے پہلے پٹودی ہائوس کی برانچ میں تھا۔ عشرت نے اس لڑکے کے داخل ہوتے ہی کہا،ابے یہ بھی یہاں آگیا۔ میں نے پوچھا کون وہ بولا یہی جو ابھی آیا ہے۔ خلیق ہے اس کا نا م، بڑا حرامی ہے سالا۔‘‘(۲۰،۲۱)

          اسلم پرویز کے خاکوں کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں وہ مربوط اور مدلل ہوتا ہے۔ وہ خاکہ لکھتے ہیں خاکہ نہیں اڑاتے۔ بیان کے لطف اور اسلوب کی دلکشی و رعنائی کے ساتھ ساتھ ان کے خاکوں میں ایک نوع کا طنز بھی ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ خلیق انجم اور اسلم پرویز نے نصف صدی سے زائد کا عرصہ ایک ساتھ گزارا تھا۔ بچپن کی امنگوں، جوانی کی خواہشوں اور پھر دلی کے ہنگاموں کو انھوں نے ساتھ ساتھ دیکھا اور بھوگا تھا۔ لطف و انبساط کے ساتھ زندگی کی بہت سی محرومیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ خلیق انجم بچپن میں ہی والد کے سائے سے محروم ہو گئے تھے اور اسی سبب انھیں کڑے کوس طے کرنے پڑے۔ زندگی کے تجربوں نے انھیں بہت کچھ سکھا دیا تھا۔جبکہ اسلم پرویز کو والد کی سخت نگرانی نے ان کے بقول دبو بنا دیا تھا۔ اور رہی سہی کسرخلیق انجم کی تیز و طرار شخصیت کی دھونس نے پوری کر دی۔ایسا نہیں ہے کہ انھیں اس کا احساس نھیں تھا مگر زندگی کے مسائل اور حالات نے ان چیزوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ لیکن احساس کی یہ روح ان کے شعور کا حصہ رہی اور جب خاکوں میں رنگ آمیزی کا موقع آیا تھا تو بچپن کی بے شمار یادیں صفحہ ٔ قرطاس پر رقم ہوتی چلی گئیں۔ جس میں طرز ادا اور خواب کے بجائے اصل یقین کی پونجی کی صورت میں جلوہ گر تھا۔ اصل و یقین کی یہ صورتیں اگر زندگی کے باقی ماندہ ایام حسب دل خواہ نہ ہوں تو بہت گراں گزرتے ہیں مگر بچپن کی محنت اگرجوانی کے دنوں میں وصول ہو جائے تو کچی پکی صلاحیتیں بھی کندن بن کر سامنے آجاتی ہیں۔ غور کیجیے کہ خلیق انجم کا پہلا تعارف عشرت نے جن الفاظ میں کرایاتھا اسلم پرویز کی شعور کی آنکھوں نے شاید اس وقت بہت دور تک دیکھ لیا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ہر گز یہ نہ لکھتے۔

 ’’ کسی مخرب اخلاق رویے کی عدم موجودگی میں کسی کو حرامی کہنے کی نفسیات یہی ہے کہ یہ شخص ہم سے آگے کیوں نکلا جارہا ہے۔‘‘

لیکن اسی کے ساتھ ایک اور نکتہ جو اس لفظ کے بارے میں اسلم پرویز صاحب نے لکھا ہے وہ دراصل مربوط اور مدلل نثر کا شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

          ’’ جس عمر کے حوالے سے عشرت نے خلیق کے بارے میں یہ بات کہی وہ معصومیت کی وہ شرارت ہے جسے ہم شیطانی کہتے ہیں۔ ‘‘(ص، ۲۲)

          اس شیطانی کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جو اس خاکے کا عنوان ہے۔ یعنی میں اور شیطاں۔ اس خاکے کی اشاعت کے بعد ’’میں ‘‘ پر کم لوگوں نے توجہ دی اور شیطاں پر زیادہ کیوں کہ اس کے فوراََ بعد خلیق انجم کا نام آجاتا ہے۔

          ’’شیطان کے زمینی تصور میں شیطان کی وہ ذہانت اور فطانت اور وہ قوت مقابلہ اور مجادلہ بھی ملحوظ ہے جسے اقبال جیسے شاعر نے خراج پیش کیا ہے، اور جب میں اپنے ساتھ خلیق انجم کو شیطان کہہ رہاہوں تو سیدھا سا مطلب یہی ہو اکی اس ایک سکے کا، جس کے ہم دونوں دو رخ ہیں، ہیڈ تو خلیق انجم ہی ہوئے اس لیے کہ ذہانت اور فطانت یا با الفاظ دیگر شیطنت کا تعلق تو سر ہی سے ہے۔ اب میری مشکل یہ ہے کہ اگرچہ میں اس سکے کی ٹیل یعنی دم ہوں جس کے کہ خلیق انجم ہیڈ یعنی سر ہیں، لیکن اکثر لوگ مجھے بجائے اس سکے کی دم کے خود خلیق انجم ہی کی دم سمجھتے رہے، تا آں کہ میری شادی نہیں ہوگئی اور میں ہر شوہر مسکین کی طرح اپنی بیوی کی دم نہیں ہو گیا۔(ص، ۱۹)

          جن لوگوں نے خلیق انجم صاحب کو بہت قریب سے دیکھا ہے ان کے لیے بھی اور جن لوگوں نے انھیں نہیں دیکھا ان کے لیے بھی یہ خاکہ یکساں اہمیت کا حامل ہے۔خلیق انجم کی خلوت اور جلوت دونوں کو جس سلیقہ سے پیش کیا گیاہے وہ اپنی مثال آپ کے ذیل میں آتا ہے۔ انجمن ترقی اردو ہندکی وہ شان اور شکوہ جو خلیق انجم صاحب کو حاصل تھی اب شاید ہی کسی کے حصے میں آئے۔ ایک جگہ اسلم پرویز اس بارے میں لکھتے ہیں :

’’مسلم یونیورسٹی کے ممتاز ہوسٹل میں ہمارے ونگ کا بیرا بہادر نامی ایک بوڑھا شخص تھا۔ پاس ہی جمال پور گائوں کا رہنے والا، وہ اسی زمانے سے خلیق انجم کو انجمن صاحب کہا کرتا تھا۔ اس کی یہ پیش گوئی خلیق انجم کے حق میں پتھر کی لکیر بن گئی۔ چنانچہ آج وہ اردو گھر میں اپنے پورے شان و شکوہ کے ساتھ انجمن صاحب بنے بیٹھے ہیں۔ اردو گھر کی یہ بلند بالا اور شاندار عمارت جو ہم دیکھ رہے ہیں اس میں کرنل بشیر حسین زیدی مرحوم کی سرپرستی اور رہنمائی کے ساتھ خلیق انجم کی شخصیت کا وہ ڈائنا مزم بھی شامل ہے جس کی تعریف کرنے والے، جس پرر شک کرنے والے اور جس سے جلنے والے سبھی طرح کے لوگ موجود ہیں۔ (ص،۳۱)

اسلم پرویز اور خلیق انجم کے تعلقات کی ایک اور جہت  ملاحظہ ہو:

          ’’میرے ساتھ خلیق انجم کا معاملہ دنیاسے نرالا ہی ہے۔ وہ کوئی پروگرام، کوئی اسکیم، کوئی پراجیکٹ بنائیں اس کے لیے میرا نام ان کی سمجھ میں سب سے پہلے آتا ہے۔ پھر ساتھ ہی یہ بھی کہیں گے، یار تم کام وام تو کرتے نہیں اب تمہارا نام رکھا ہے تو مجھے رسوا نہ کرنا۔‘‘(ص، ۳۴)

خلیق انجم کے مزاج و میلان کا نقشہ بھی اسی آڑے ترچھے انداز میں کھینچا گیاہے جو ان کی وضع یا شخصیت پر جنچتا ہے۔ سید انشا کا ایک شعر جو ان پر واقعی بر محل ہے اسلم پرویز نے نقل کیا ہے۔

کاٹے ہم نے یوں ہی ایام زندگی کے

سیدھے سے سیدھے سادے اور کج سے کج رہے

اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیق انجم کی پوری شخصیت کو سمجھنے میں یہ خاکہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جسے خاکہ نگار نے پیش نہ کیا ہو۔ خلیق انجم کی حاضر جوابی بذلہ سنجی اور محفلوں کو زعفران زار بنانے کا ہنر ان سے ہی سیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں ان کی بیباکی اور پھکڑ پن کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایک ایسی دنیا کا تعارف سامنے آتاہے جسے جاننے والے اب دلی میں کم ہوتے جارہے ہیں۔ اسلم پرویز کی درج ذیل سطریں ان کے گہرے مشاہدے اور طویل رفاقت کا نتیجہ ہی کہی جاسکتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں

          ’’خلیق انجم کی ظرافت طبع کو تو ایک بیکراں میدان چاہیے اور کھل کر بات کرنے کی ان کی طبیعت کو رواداری کی سپر سے زیادہ بیباکی کی تیغ کی ضرورت ہے۔ اور اس بیباکی کی انتہا ہے منھ پھٹ اور پھکڑ ہونا جو کبھی کبھی خلیق انجم کو ہونا پڑتا ہے۔ لیکن اس کا استعمال براہ راست کبھی نہیں کرتے۔وہ مجلسی خوش گپیوں کے حیلے سے یہ کام کر جاتے ہیں۔ ‘‘(ص، ۳۸)

          دلی کی ادبی محفلوں میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہوئے اور لوگ اس کے گواہ بھی رہے۔ نہ صرف یہ کہ خلیق انجم صاحب نے محفل کو قہقہ زار بنایا بلکہ اسی کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا پہلو بھی پیش کردیا کہ اس کی علمی سطح پر حرف نہ آسکے۔ گھنے سائے کا ایک اہم خاکہ چچی کے نام سے ہے۔ ــــچند صفحات میں ان کی زندگی کو اس طرح پیش کر دیاگیا ہے کہ وہ ہمارے سامنے چلتی پھرتی اور بات چیت کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی پسند اور نا پسند اور مجبوری و لاچاری میں کر و فر کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ ان سے ہی سیکھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز کے مطابق فصیح اردو میں چچی کا نام تو محمد النسا تھا لیکن جب وہ اپنا تعارف خود کراتیں تو اپنا نام ٹھہرائو کے ساتھ ممد نساں اور روانی میں ممن نساں بتاتی تھیں۔ چچی کا تعارف خود اسلم صاحب کی زبان سے ملاحظہ کیجیے:

          ’’ چچی نے لگ بھگ اسی برس کی زندگی پائی۔ زندگی کی آدھی صدی انھوں نے ۱۹۴۷ کے پہلے کی دلی میں گزاری اور آدھی سے کچھ کم ۴۷ کے بعد کی دلی میں۔ چچی ان لوگوں میں سے تھیں جو اپنے زمانے کے علاوہ کسی اور زمانے میں نہ تو جینا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی جی سکتے ہیں۔ اس لیے چچی نے بھی ۴۷ کے بعد اپنی زندگی کے پینتیس چالیس سال پرانی دلی کے ان ہی محلوں میں گزار دیے جہاں وقت با لکل اسی طرح ٹھہرا ہو ا ہے جس طرح سیلاب گزر جانے کے بعدسیلاب کا پانی آس پاس کے گڑھوں میں ٹھہرا رہ جاتا ہے …لیکن ۴۷ کے بعد تو چچی بس ایک ہی بار فصیل کے باہر آئیں اور ہ بھی تب جب ہم انھیں دلی دروازے کے باہر پہنچانے گئے تھے۔(ص،۶۱،۶۲)

یہ خاکہ ہندوستانی معاشرے کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جس میں زندگی کے تمام رنگ شامل ہیں۔ اپنا دکھ خواہ کیسا ہو مگر چچی کسی دوسرے کو رنج و الم میں نہیں دیکھ سکتیں۔ غریبی کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا مگر زمانے سے آنکھ ملا کر جینا بھی انھوں نے سیکھ لیا تھا۔ روزمرہ کی زندگی اور بیمار آرام کے بہت سے معاملات کبھی اعتقاد کے ضعف سے تو کبھی خوش اعتقاد ی سے حل کرلیتیں۔ بزرگوں سے انھیں کوئی بیر نہ تھا مگر قبروں کے جلالی پہلوؤ ں کی نشاندہی بھی خوب کرتی تھیں۔ فصیل بند علاقے کے جن جن گھرو ں میں ان کا آنا جانا تھا وہاں ایک ملازم سے کہیں زیادہ اس گھر کے ایک فرد کی طرح رہتیں اورپورے محلے کے لیے ان کی حیثیت چلتی پھرتی خبر رساں ایجنسی کی طرح تھی۔بقول ڈاکٹر محمد اسلم پرویز

چچی ہمارے گھر میں کتنے ہی مختصر دورے پر کیوں نہ آئیں لیکن چاق و چوبند پریس رپورٹر کی طرح وہ جلدی جلدی اپنی تمام تفتیش مکمل کر لیا کرتی تھیں۔

عام اور معمولی انسانوں پر اردو میں جو خاکے لکھے گئے ہیں ان میں مولوی عبد الحق کا نام دیومالی اور رشید احمد صدیقی کا کندن بہت مشہور ہوئے۔ داکٹر اسلم پرویز کا خاکہ چچی بھی اسی ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ اسلم پرویز نے ایک عام اور بیوہ عورت کو جو کہ اپنا درست نام بتانے پر بھی قدرت نہیں رکھتی تھی خاکہ کے توسط سے حیات جاوداں عطا کر دی گئی ہے۔

گھنے سائے کا ایک اہم خاکہ نثار احمد فاروقی پہ ہے۔ جن کی علمیت اور بذلہ سنجی کے خاکہ نگار قتیل رہے ہیں۔ وہ نثار صاحب کو ایک مکمل ادبی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ خاکہ نگار نے نثار احمد فاروقی کو کیمیا گرِ بذلہ سنجی قرار دیا ہے۔ البتہ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ رچا رچایا ادبی ذوق، انتہائی شائستہ مذاق اور پر لطف گفتگو کرنے والے نثار احمد فاروقی کا گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ مزاج ایک طرفہ تماشہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ نثار احمد فاروقی کی دلی کی ابتدائی زندگی کے وہ معمولات جن کے جاننے اوربتانے والے اب مشکل سے ہی ملیں گے اسلم پرویز کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں :

          ’’ ان کا(نثار احمد فاروقی ) معمول یہ تھا کہ دیر گئے رات تک لالٹین کی روشنی میں بیڑیا ں پھونک پھونک کر مطالعے میں غرق رہتے، صبح دیر سے سوکر اٹھتے، نہا دھوکر گلی قاسم جان سے بلی ماران کا رخ کرتے، حویلی حسام الدین حیدر سے تھوڑا آگے چل کر اسی ہاتھ پر حافظ ہوٹل تھا جس میں نثار صاحب ماہانہ ادھار پر کھانا کھاتے تھے۔ کھانا کھاکر چلتے ہوئے کائونٹر پر حافظ جی سے تقاضا ہوتا ’’ لائو بھئی حافظ جی دو روپے دینا ‘‘۔ حافظ جی یہ دو روپے بھی ان کے ادھار کھاتے میں درج کردیتے۔ یہ دو روپے نثار صاحب کا دن بھر کا جیب خرچ تھا۔ یعنی بس کا آنے جانے کا کرایا، بیڑی کا بنڈل ماچس اور دو بار کی چائے۔‘‘(ص،۱۱۲،۱۱۳)

نثار صاحب کی علمیت کے قائل نہ صرف ان کے معاصرین تھے بلکہ بسمل سعیدی جیسے بزرگ اور سخن شناس نثار احمد فاروقی کو علامہ کہتے۔ اسلم پرویز کے بقول بسمل سعیدی باڑہ ہندو رائو سے بلا ناغہ ہر شام دلی کالج ہاسٹل علامہ نثار احمد فاروقی سے ملاقات کے لیے ان کے کمرے پر پہنچتے تھے۔ نثار احمد فاروقی کی علمی شان کی داد دیتے ہوئے اسلم پرویز لکھتے ہیں۔

          ’’ خواجہ احمد فاروقی یا نثار احمد فاروقی کی دستخط سے دستخط ملا لینا شعبدہ تو ہوسکتا ہے کمال نہیں۔ جن لوگوں کا علم گہرا ہوتا ہے وہ اپنی علمی معلومات کو ٹریڈ سیکریٹ کی طرح چھپائے نہیں پھرتے بلکہ سورج کی طرح اپنی کبھی نہ ختم ہونے والی روشنی کو برابر تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ دراصل علم پر سوار ہونے اور علم کو اپنے اوپر سوار کرنے کا معاملہ ایک دوسرے سے بالکل جدا ہے۔ جن لوگوں پر علم سوار رہتا ہے وہ اس کے بوجھ تلے دبے آس پاس والوں پر دو لتیاں ہی جھاڑتے رہتے ہیں اور جو لوگ شہ سواروں کی طرح علم پر سوار ہوکر چلتے ہیں تو ان کے راستے کی گرد بھی طالبان علم کی آنکھوں کا سرمہ بن جاتی ہے۔‘‘(ص، ۱۱۴)

ممکن ہے اسلم پرویز صاحب اگر نثار احمد فاروقی پر کوئی تحقیقی مضمون لکھتے تو اس میں بھی درج بالا اقتباس کی تعبیر و تشریح کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ دلی کی ادبی اور علمی روایت حالیہ تین چار دہائیوں کے دوران جن لوگوں سے روشن تھی ان میں ایک اہم نام نثار احمد فاروقی کا تھا۔ان کی علمیت کاا عتراف در اصل ایک علمی روایت کی دریافت سے عبارت ہے۔ غالباََ اسی لیے اسلم پرویز  نے خاکے کے اختتام سے ذرا پہلے یہ حتمی بات کہہ کر قصہ ہی ختم کر دیا کہ ’’نثار کی مثال تو ایک ایسے پرندے کی سی تھی جو انڈے کی کھول سے ہی پرواز کرتا ہو ا باہر آیا ‘‘

گھنے سائے میں ایک خاکہ بسمل سعیدی پر بھی تحریرکیا گیا ہے جس کا عنوان ہے ’’مہر و محبت تمام ‘‘اس خاکہ کو پڑھ کر یہی اندازہ ہوا کہ واقعتا وہ بڑے فن کار تھے۔انھوں نے حالات اور  زمانہ کی نیرنگیاں بھی دیکھیں۔ اپنی آنکھوں سے اپنا استحصال بھی دیکھا مگر محبت اور مروت میں کسی طرح کی کمی واقع نہ ہوئی۔ اسلم صاحب نے شعرگوئی کے بہت سے گر انھی سے سیکھے جس کابرملا اعتراف بھی خاکے میں موجود ہے۔ فیس بک اور واٹس کی دنیا کے شعراجو شعر مکمل ہونے سے پہلے ہی اسے پوسٹ کرناضروری سمجھتے ہیں بسمل سعیدی نے اس کے عالم وجود میں آنے سے بہت پہلے شاعری کے باب میں تین میم کو ضروری قرار دیا تھا۔ یعنی مطالعہ، مشق اور مشورہ۔ اسلم پرویز صاحب کے بقول بسمل سعیدی کا اصرار تھا کہ آپ جو بھی لکھیں اسے منظر عام پر لانے سے قبل اپنے کسی سخن فہم دوست یا ساتھی کو دکھا لینا انتہائی ضروری ہے۔ اسلم پرویز کے بقول

بہت سارے لوگوں کے سامنے شرمندگی اٹھانے سے کہیں بہتر ہے کہ دائی کو پیٹ دکھا لیا جائے (ص :۱۹۹)

اس جملہ کا جس قدر لطف لیا جائے کم ہے۔ اس نوع کے جملہ جگہ جگہ دامن دل کو کھینچتے ہیں اور خاکہ نگار کی زبان دانی اور اسلوب نگارش کی داد پر مجبور کرتے ہیں۔ ظ انصاری کا مختصر خاکہ ہی ان سے تعارف کا وسیلہ اور اسلم پرویز کی کاٹ دار نثر کا نمونہ کہا جاسکتاہے۔ وہ ظ انصاری کو ایسا قلم کار مانتے ہیں ’’جس کا لکھنا خود لکھنے والے کے وجود کے اندر سے پھوٹتا ہے ‘‘(۱۶۵)لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ بھی لکھتے ہیں :

ظ انصاری کو پڑھنے سے زیادہ انھیں سننے میں لطف آتا ہے اس لیے کہ وہ لفظ کو لکھتے نہیں الاپتے ہیں اور اس الاپ میں سراور تال کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ ان کی تحریر کا اصل لطف لینے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ نے انھیں کہیں بولتے یا پڑھتے ہوئے سن رکھا ہو تاکہ آپ ان کے تیور اور ان کے لہجے کے اتارچڑھاؤ سے واقف ہوجائیں۔ (ص:۱۸۷)   ؑٓ

ظ انصاری کی تحریروں کو اسلم پرویز نے بہت توجہ اور انہماک سے پڑھ رکھا ہے۔ چو نکہ وہ ایک ادیب کے ساتھ ساتھ صحافت سے بھی بہت گہرا تعلق رکھتے تھے اس لیے ان دونوں پہلوؤں کا بہت جامع اور تیز و تند اسلوب میں اسلم پرویز نے ان کو پیش کیا ہے۔ یہ انھیں کا حصہ ہے اور وہ یہاں تک لکھ گئے کہ :

وہ (ظ انصاری )قلم کے ماہر ہیں اور الفاظ کو کٹھ پتلی کا ناچ نچاناجانتے ہیں بلکہ آج کی اصطلاح میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ ان کے اندر سے پھوٹا ہوا لفظ اسپائڈر مین جیسا لگتا ہے۔ لیکن ان کی تمام تحریروں سے گزرنے کے بعد جب ہم ’’کانٹوں کی زباں ‘‘کے اداریوں تک پہنچتے ہیں تو یہ اختری بائی فیض آبادی کے گھسے ہوئے ریکارڈ جیسے لگتے ہیں۔ (ص :۱۹۰)

یہ تیکھا اور تلخ تجزیہ محض طنز نہیں بلکہ اسلم پرویز کے قوت مطالعہ کا بھی غماز کہا جاسکتاہے۔ اس نوع کے اظہار خود ظ انصاری نے کتاب شناسی کے مختلف تبصروں میں کیا ہے۔

رشید حسن خاں پر ان کا لکھا ہوا خاکہ ایک علمی و ادبی خراج اور اپنے ایک بے حد قریبی دوست کا تعارف کہا جاسکتا ہے، جس نے ادب و تحقیق کی دنیا کو بہت بلند کیا۔ اسلم پرویز نے رشید حسن خاں کو قدیم ادبی روایت کا امین قرار دیا ہے، اس امانت کا تعلق روایت کے عرفان اور احترام دونوں سے عبارت ہے۔ ان سے طویل رفاقت کے نتیجے میں اسلم پرویز کا یہ تبصرہ درست قرار پائے گا کہ ’’

وہ اگر پٹھان ہیں تو اسی حد تک کہ غلط آدمی اور غلط بات کے ساتھ کبھی مصالحت نہیں کرتے۔ ان کی زندگی میں قابل رشک پہلو توازن اور اعتدال ہے۔ (ص:۱۲۷)

رشید احمد صدیقی کے خاکہ کے توسط سے علی گڑھ کی بہت سی یادیں تازہ ہوگئی ہیں۔ رشید صاحب کی تدریسی زندگی کے بعض ایسے پہلو جن سے عام طور پر لوگ واقف نہیں ان کا ذکر بہت دلچسپ انداز میں خاکہ نگار نے پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

ٹائم ٹیبل کچھ اس قسم کا تھا کہ جب رشید صاحب کوہمیں پڑھانا ہوتاتو سیدھے گھر سے رکشامیں بیٹھ کر آتے تھے اور ہمیں اکثر پارسل ایکسپریس کی طرح ان کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ظہور وارڈ کی بغل سے فراٹے کے ساتھ دھول اڑاتی ہوئی لڑھکتی ہوئی کم اور علی گڑھ کے مینڈک کی طرح پھدکتی ہوئی زیادہ جب کوئی رکشا ہلکے پھلکے اور تنہا رشید صاحب کو لیے ہوئے نمودار ہوتی تو اس کی کھڑکھڑاہٹ وہیں سے ہمیں صاف سنائی دیتی تھی۔ (ص:۱۶۷)

پنڈت آنند موہن گلزار زتشی دہلوی اسلم پرویز کے ان دوستوں میں ہیں جو ایک جگہ تیراکی سیکھتے تھے۔ پہلی ملاقات کا حال کچھ اس طرح لکھتے ہیں :

گلزار دہلوی کے میری پہلی ملاقات ۱۹۴۳ میں جمنا کے کنارے لوہے کے پل کے نیچے دھوبی گھاٹ کے پاس پیراکی کے استاد خلیفہ یعقوب پہاڑی بھوجلہ والے کے ٹھیے پر ہوئی جہاں روزانہ صبح اور شام تیراکی کی تعلیم کا سلسلہ چلتا تھا۔(۱۵۵)

گلزار دہلوی کو اسلم پرویز نے مجلسی آدمی قرار دیا ہے نیز مجلسی آدمی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ہر مجلس کے آدمی ہیں۔ اپنے آپ کو منوانے کی جو قوت گلزار صاحب پاس تھی اسی کی بدولت وہ ہر مجلس کی جان ہوا کرتے ہیں۔ دلی میں ان کی سرگرمی کا وہ دائرہ جو انجمن تعمیر اردو سے شروع ہوتا ہے اس کے احوال کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کی ادبی و تہذیبی سرگرمیوں کا احوال پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلم پرویز کا یہ کہنا بھی کہ گفتگو کاکوئی موضوع یا شخصیت ہو گلزار کی گفتگو کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ موضوع ان کی ذات کے گرد گھومتا ہوا دکھائی دے گا۔ گلزار کی سرگرم زندگی کی ایک جہت جہاں کوچہ وبازار اور کتاب و ادب سب شامل ہوگئے ہیں ملاحظہ فرمائیں

گلی کشمیریان سے نکل کر کوچہ پاتی رام سے ہوتے ہوئے حوض قاضی کے چوراہے تک وہ طرح طرح کے مجلسی رنگوں سے معانقہ کرتے ہوئے چاوڑی بازار کے راستے بڑ شاہ بولا اور نئی سڑک کے تراہے پر کچھ لمحوں کے لیے اٹکتے ہوئے منشی شیش چند سکسینہ طالب دہلوی کی گلی بتاشان کی حویلی کی پشت پر چھوڑتے جب وہ جامع مسجد کا رخ کرتے ہیں تو ایک مختصر وقفہ کبھی کبھی کوچہ میر عاشق کے سامنے بھی آتا ہے جس کے اندر حاجی علی جان کی حویلی ہے جہاں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ کوچہ میر عاشق کے نکڑ پر شاید کسی شناسا سے پل دو پل کے لیے آمناسامنا اور علیک سلیک ہوجائے۔ جامع مسجد کا چوک شروع ہوا تو بائیں ہاتھ پر میرٹھ کے سیخ کباب والوں کی دکان آتی ہے جہاں مولوی سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ یا بھائی ظہیر کے چائے خانے فرینڈز ہوٹل المعروف بہ چنڈو خانہ سے گلزار صاحب کے سنکے ہوئے جلے ہوئے سیخ کبابوں کا آرڈر میرٹھ کے کبابی کے ہاں سے پہنچتا رہتاہے۔ لیجیے کتب خانہ عزیزیہ آگیا جہاں ادبی مجلس کا وہ بازار گرم رہتا ہے جس کے آگے کتب فروشی کا بازار ٹھنڈا پڑا رہتا ہے۔ (۵۷۔۱۵۶)

گلزار دہلوی کی شخصیت کا سب سے نما یاں پہلو اردو کی بقا اور مسلم اقلیت کے تحفظ کا رہا ہے۔ کٹر کانگریسی ہونے کے باوجود انھوں نے اس پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ اسلم پرویز کے بقول:

پنڈت نہرو کے وہ عاشق، مولانا آزاد کے وہ شیدائی لیکن زندگی کے دو معاملات ایسے تھے جہاں ان کی کانگریسیت بھی انھیں ٹس سے مس نہ کرسکی۔ اس میں ایک اردوکی بقا کا اور دوسرا مسلم اقلیت کے تحفظ کا معاملہ تھا۔ (ص ۱۶۰)

 ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے جن لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا یا جن کی رفاقت انھیں میسر رہی ان کا خاکہ نہ صرف دلچسپ اور معلوماتی ہے بلکہ دونوں کے روابط اور حسن ادا کے بہت سے گوشے سامنے آتے ہیں۔ جبکہ اس کتاب میں بعض لوگوں پر لکھے گئے ان کے مضامین میں وہ رنگ نہیں ابھر سکا ہے جسے کہ خاکے سے تعبیر کیا جاسکے اور اسی لیے انھوں نے اس کتاب کے نام میں ذیلی سرخی کچھ خاکے کچھ شخصی مضامین  کی لگائی ہے۔ ان شخصی مضامین میں ابو الکلام آزاد، آہند نرائن ملا، خواجہ غلام السیدین وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ جگن ناتھ آزاد اور محی الدین قادری زور سے تعارف اور ملاقات کا راستہ خلیق انجم سے ہوکر جاتا تھا۔ نیز نامور سنگھ اور استاد رساکا خاکہ علم و دانش کی روایت کے ایک گہرے شعور سے وابستہ ہے۔

خاکے کی جو بھی تعریف کی جائے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اپنے عہد اور سماج سے سرگرم مکالمے کے بغیر یہ ادھورا ہی تصور کیا جائے گا۔ اسلم پرویز کے خاکے ہماری ادبی، تہذیبی،اور سماجی زندگی کے سرگرم آئینہ دار ہیں۔ ان خاکوں کی فکری اور فنی جہت اس قدر بلند ہے کہ وہ ہمیں بار با ر پڑھنے کے لیے اکساتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔