واجبات دعاۃ و مبلغین

محمد عرفان شیخ یونس سراجی

(جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ)

دعاۃ ومبلغین  کے لئے  واجب اور ضروری ہے کہ اپنی دعوت او ردین کی  ترویج واشاعت میں مخلص ہو،اس کے ذریعہ اللہ تعالى کی خوشنودی ورضاجوئی کا طلبگار ہو،ان کا ہدف  اور مطمح نظر مادیت پرستی اور دنیوی اغراض  ومقاصدکی تکمیل، ریا ونمود، شہرت طلبی وناموری، مدعو ین کے روبرو اپنے علم وفن  اور  عقل ودانش   کا مظاہرہ کرنا نیز علمیت بگھارنا  نہ ہو۔ مذکورہ تمام   چیزیں  زہر ہلاہل ہیں جس  سےسرانجام دی گئیں  دینی خدمات اور کاوشیں   ختم ہوجاتی ہیں۔ ذیل میں دعاۃ ومبلغین اور  واعظین کے لیے    واجبات وضروریات  ذکر  کیے جارہے ہیں، جن کی پاسداری  غایت درجہ  ضرور ی ہے۔ :

اخلاص وللاہیت:

اللہ تعالی اپنے بندوں کواخلا ص وللاہیت کا دامن تھامنے اور اعمال وعبادات کو خالص  کرنے کا  حکم دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:”قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ“(سورہ زمر: ۱۱) ترجمہ: "اے نبی کریمﷺآپ کہہ دیجئے!کہ مجھے حکم دیا گیاہے کہ اللہ تعالى کی اس طرح عبادت  كروں کہ اسی کے لئے عبادت خالص کرلوں "۔ نیز اللہ تعالى کا فرمان ہے:”مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ* أُوْلئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّاكَانُوا يَعْمَلُونَ“(سورہ  ھود: ۱۵-۱۶) ترجمہ:  "جو  شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریقتہ ہوا چاہتاہو تو ہم ایسے ایسوں کو ان کے اعمال (کا بدلہ) یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جائےگی،ہاں یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں ہوگا”۔

نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:”إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ،وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَانَوَى…“ (صحيح بخاري،ح:1) ترجمہ: ” اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہرشخص کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرتاہے“۔ نیز براں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں : ” قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ“ (صحيح مسلم،ح: 2985)ترجمہ: ” اللہ تعالى کا فرمان ہے: میں شرکا کے شرک  سے بے نیاز ہوں،  جس نے کوئی ایسا عمل انجام دیا جس میں وہ میرے  ساتھ  کسی دوسرے کو شریک وساجھی ٹھہراتا ہے، تو میں اسے اوراس کے شرک کو ترک کردیتا ہوں “۔

عمل کی مقبولیت   کے لیے نیت کی  اہمیت وافادیت کے متعلق بعض سلف کے آثار   وارد ہوئے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں :

مطرف بن عبد اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”قلب ودل کی صلاح و بہتری عمل کی درستی سے  ہےاور عمل کی بہتری ودرستی  نیک نیتی   سے ہے“۔ (جامع العلوم والحکم: ۱۰/۱۷)

عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتےہیں :” بعض چھوٹے اعمال ایسے ہوتے ہیں جنہیں  نیک نیتی شاہکار وعظیم الشان  بنادیتی ہےاوربہترے بڑے اعمال  ایسےہیں جنہیں  بد نیتی  اکارت وبرباد کردیتی ہے“۔ (جامع العلو م والحکم: ۱۰/۱۷)

ابی سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”خوش خبری ہے ایسے شخص کے لیے جس کا قد م اخلاص وللہیت کے ساتھ اللہ تعالى کی رضاجوئی وخوشنودی کے لیےآگے بڑھتاہے“۔ (مختصرمنہاج القاصدین لابن قدامہ:۳۷۰/۳۷۱)

نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی متابعت وپیروی:

نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت و  پیروی اور متابعت اعمال کی مقبولیت کے لیے شرط ہے۔ نیک  عمل  وہ ہے جو نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وفرامین کے موافق  ہو۔ اس لیے ائمہ سلف نے  عمل کی مقبولیت کے لیے دوبنیادی شروط اخلاص ومتابعت رسول صلى اللہ علیہ سلم کو جمع کیا ہے۔

فضیل بن عیاض رحمہ اللہ  سورہ ملک کی آیت "لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا”پیش کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ  جب عمل صائب اور درست ہو اور خالص   نہ ہو، ریا ونمود اور دکھاوا کا شائبہ ہو، تو دربار الہی میں نا قابل  التفات اور غیر مقبول ہے،اور اگر خالص ہو اور صائب   اور درست نہ ہو تو یہ بھی  عند اللہ غیر مقبول ہے۔ جو عمل صرف اللہ رب العزت کے لیے ہو، تو وہ خالص  ہے اور جو عمل نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تناظر  میں  ہو، تو وہ صائب  اوردرست  ہے۔ (الإستقامہ  لابن تیمہ۲/۳۰۸،۳۰۹)

شیخ   الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  نیک اعمال وافعال اور اچھے اقوال سر انجام دینے  سے پہلے دوچیزوں کی پاسداری ضروری ہے: پہلی چیز یہ ہےکہ اس کے ذریعہ اللہ تعالى کی  رضا جوئی اور خوشنودی مطلوب ہو،اور دوسری یہ کہ وہ   شریعت اسلامیہ  کے عین موافق ہو۔ (الإستقامہ۱/۲۹۷)

سعید ین جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یقینا قول عمل کے ذریعہ اور قول وعمل  نیک نیتی کے ذریعہ اور قول و عمل اور نیت  نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت کے پیش نظر قابل قبول اور منظور ہوگا۔ (الاستقامہ۲/۳۰۹)

دعاۃومبلغین کو چاہیے کہ دعوت وتبلیغ کا کاج  بصیرت وحکمت کی روشنی میں   نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم  کا اتباع واقتدا  کرتے ہوئے کریں، اس لیےکہ  اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے۔ جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَاللهَ كَثِيْرًا“(سورہ أحزاب: ۲۱) ترجمہ: ”یقینا تمہار ے لیے رسول اللہ  میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالى اور قیامت کے دن  کی توقع رکھتا ہےاور بکثرت اللہ تعالی کو یاد کرتا ہے“۔ نیز اللہ تعالى کا فرمان ہے: ”قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْلَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌرَّحِيْمٌ“(سورہ  آل عمران:۳۱) ترجمہ:”کہہ دیجئے!اگر تم اللہ تعالى سے محبت رکھتے ہو تومیری تابعداری کرو،خود اللہ تعالی تم سے محبت کرےگا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گااور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے“۔

مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں  یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے اصولوں کو چھوڑ کر علما وصلحا کی  خودساختہ ومنگھڑت  روایات  نیز  اپنی جدید فکر  وتحقیق  کے ذریعہ تبلیغ ودعوت   دین  کارگر وسودمند ثابت نہیں ہوسکتی، اس لیے  کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال  اور ارشادات وفرامین علما ودعاۃ اور مبلغین کے لیےکافی ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر شخصیات  کی روایات  ودرایات  ناقابل اعتنا   اور نا لائق  التفات ہیں۔

حکمت ودانائی:

کسی چیز کو اس کی صحیح اور مناسب جگہ میں  رکھنے کو حکمت کہتے ہیں۔  یقینا  حکمت ودانائی اور نیک تدبیرکار دعوت وتبلیغ میں ایسی گراں قدر وبیش بہا  شے ہےجس کی بابت صحیح  منہج اور صحیح عقائد کی نشر واشاعت   بحسن وخوبی پایہ تکمیل کو پہونچ جاتی ہے۔ اس میدان میں پیش آمدہ  مشکلات ومصائب اور آلام پر  صبر وتحمل کا دامن تھامے بغیرصحیح طور سے دین  اسلام کی خدمت غیرممکن ہے۔ بسا اوقات  عوام الناس  کی بعض باتوں  اورنازیبا حرکتوں و ناروا سلوک بھی ایک داعی کے لیے تکلیف کا باعث ہوتا ہے،لیکن ایسے وقت میں صبر وضبط کی ضرورت ہےبنا بریں فرامین کتاب وسنت اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ کو آئنہ  مان کر تمام دعوتی واصلاحی اورسماجی امور میں حکمت ودانائی اور لطافت ونرمی کو لازم پکڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان گرامی ہے: ”اُدْعُ إِلَی سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ“(سورہ نحل: ۱۲۵) ترجمہ:”اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو اللہ  کی وحی اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلا یئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیے، یقینا آپ  کارب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بخوبی جانتا ہے اور راہ یافتہ لوگوں سےبھی پورا واقف ہے“۔ اسی طرح اللہ تعالى کا فرمان ہے: ”وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ…“(سورہ عنکبوت: ۴۶) ترجمہ: ”اور اہل کتاب کے ساتھ بحث ومباحثہ نہ کرو مگر اس طریقے  پر جو عمدہ ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں “۔

شاہکارحکمت عملی او ر قابل نصیحت  رویہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے اس موقف  و نقطہ نظر سے   طشت از بام ہو جاتی ہے کہ جب ایک دیہاتی  مسجد میں داخل ہوکر پیشاب کر نے لگا۔ یہ دیکھ کرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے  اس فعل کو روکنے کے لیے  "رک جاؤ رک جاؤ” کی صدا بلند کی، تاہم تاجدار مدینہ صلى اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اسے  پیشاب کرنے دو۔ جب وہ پیشاب سے فارغ ہوا، تو نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے بلاکر نہایت اچھے اسلوب اور حکیمانہ اندازمیں عرض کیا کہ دیکھو مساجد اورعبادت گاہوں  میں  پیشاب  وپاخانہ  کرنا ناروا عمل ہے۔ یقینا  اللہ کے گھروں کی تعمیر ذکر واذکار نیز نماز اور تلاوت قرآن  کے لیے ہوئی ہے۔ بعد ازاں  نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے اس پر قوم کے کسی آدمی کو پانی انڈیلنے کا حکم دیا۔ (صحیح مسلم،  کتاب الطہارۃ،ح:۲۸۵) اسی طرح ایک دیہاتی نے  حالت نماز میں کہا کہ اے اللہ مجھ پر اور محمد صلى اللہ علیہ وسلم   پر رحم فرما، اورہمارے علاوہ کسی پر رحم نہ کر۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ تم نے تو وسعت وکشادگی کو یکسرتنگ کردیا۔ (صحیح بخاری،کتاب الأدب،ح:۶۰۱۰)اور دوسری  روایت میں  دیہاتی کا بذات خود   قول موجود ہے کہ نبی کریم صلی  اللہ علیہ وسلم  میر ی طرف متوجہ ہوئے، اور  آپ نے  سب وشتم کیا  نہ زدوکوب کیا۔ (مسند احمد)

 بہت سے دلیلیں موجود ہیں جو نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی دعوت وتبلیغ میں لطافت ونرمی  اور رقت آمیز  جوانب کو اجاگرکرتی ہیں۔

آخری بات:

آئے دن ہم مشاہدہ کرتے ہے  کہ عالمی پیمانہ پر باطل پرست  عقائد کے حاملین اپنے مناہج کونہایت ہی جاں فشانی   وعرق ریزی کے ساتھ فروغ دے ر ہے ہیں، ظاہری اخلاقیات سے لوگوں کو اپنی جانب رجھا رہے ہیں، تاہم  ہمیں بھی اپنے واجبات وفرائض سمجھتے ہوئے سیرت نبوی صلى اللہ علیہ وسلم کی روشی میں صحیح عقیدہ اور درست منہج کی ترویج واشاعت میں اہم رول ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے،تاکہ اسلام کا آفاقی نظام  عالمگیر ہوجائے۔

اللہ ہمیں  اچھے اعمال کرنے کی توفیق ارزانی عطافرمائے نیز دعوتی کاج میں مخلص بنائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔