وحشت ہوئی ذرا بھی کم، ایسا کبھی نہیں ہوا

افتخار راغبؔ

وحشت ہوئی ذرا بھی کم، ایسا کبھی نہیں ہوا

آیا سکونِ دل بہم، ایسا کبھی نہیں ہوا

نا پختگی سخن میں تھی، لکنت زبانِ فن میں تھی

دل کی تڑپ ہوئی رقم، ایسا کبھی نہیں ہوا

ہر آن اے حیاتِ من، دل میں ہے تیری انجمن

تجھ سے رہے بعید ہم، ایسا کبھی نہیں ہوا

بے زار مجھ سے توٗ ہٗوا، بے رغبتی سے دل دُکھا

کیسے کہوں تری قسم، ایسا کبھی نہیں ہوا

ہر دم توٗ میرے پاس ہے، تیری ہی ایک آس ہے

مجھ پر نہ ہو ترا کرم، ایسا کبھی نہیں ہوا

دل کی مرے فسردگی، اُس پر عیاں ہوئی کبھی

آنکھیں ہوئیں نہ اُس کی نم، ایسا کبھی نہیں ہوا

حق کی کسی نے بات کی، دیکھی گئی نہ برہمی

ڈھایا نہیں گیا ستم، ایسا کبھی نہیں ہوا

آیا نہ دھیان کب بھلا، سونے سے قبل آپ کا

آئی نہ یاد صبح دم، ایسا کبھی نہیں ہوا

ظالم نہیں ہے تنگ دل، پگھلے گا اُس کا سنگ دل

کیا کہہ رہے ہیں محترم، ایسا کبھی نہیں ہوا

ماضی میں جھانک، دیکھ لے، لالچ سے ہو کہ خوف سے

راغبؔ کا سر ہوا ہے خم، ایسا کبھی نہیں ہوا

تبصرے بند ہیں۔