وحشت ہوئی ذرا بھی کم، ایسا کبھی نہیں ہوا
افتخار راغبؔ
وحشت ہوئی ذرا بھی کم، ایسا کبھی نہیں ہوا
آیا سکونِ دل بہم، ایسا کبھی نہیں ہوا
…
نا پختگی سخن میں تھی، لکنت زبانِ فن میں تھی
دل کی تڑپ ہوئی رقم، ایسا کبھی نہیں ہوا
…
ہر آن اے حیاتِ من، دل میں ہے تیری انجمن
تجھ سے رہے بعید ہم، ایسا کبھی نہیں ہوا
…
بے زار مجھ سے توٗ ہٗوا، بے رغبتی سے دل دُکھا
کیسے کہوں تری قسم، ایسا کبھی نہیں ہوا
…
ہر دم توٗ میرے پاس ہے، تیری ہی ایک آس ہے
مجھ پر نہ ہو ترا کرم، ایسا کبھی نہیں ہوا
…
دل کی مرے فسردگی، اُس پر عیاں ہوئی کبھی
آنکھیں ہوئیں نہ اُس کی نم، ایسا کبھی نہیں ہوا
…
حق کی کسی نے بات کی، دیکھی گئی نہ برہمی
ڈھایا نہیں گیا ستم، ایسا کبھی نہیں ہوا
…
آیا نہ دھیان کب بھلا، سونے سے قبل آپ کا
آئی نہ یاد صبح دم، ایسا کبھی نہیں ہوا
…
ظالم نہیں ہے تنگ دل، پگھلے گا اُس کا سنگ دل
کیا کہہ رہے ہیں محترم، ایسا کبھی نہیں ہوا
…
ماضی میں جھانک، دیکھ لے، لالچ سے ہو کہ خوف سے
راغبؔ کا سر ہوا ہے خم، ایسا کبھی نہیں ہوا
تبصرے بند ہیں۔