وراثت میں عورت کے حقوق!

عطاء الرحمن سنابلی

جتنی باریک تفصیلات قرآنِ مجید میں میراث کی تقسیم سے متعلق آئی ہیں ، اتنی کسی دوسرے عملی موضوع سے متعلق نہیں آئیں ۔ وجہ یہ ہے کہوراثت ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں مال کی منتقلی کا ایک اہم ذریعہ ہے،چنانچہ انسان وراثت کے ذریعے اکثر اتنا مال حاصل کر لیتا ہے جتنا وہ بہ ذاتِ خود کمابھی نہیں پاتا ۔اور پھر آدمی کے انتقال کے بعد اس کے چھوٹے ہوئے مال کی تقسیم ،ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جس میں عموما ظلم ونا انصافی کو روا رکھا جاتا ہے اور جس کو لے کربسا اوقات سگے بھائیوں میں خوں ریزی کی نوبت آ جاتی ہے اور پورے پورے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں ۔

میراث کی تقسیم میں یہی افراط و تفریط نزولِ قرآن سے پہلے بھی تھی۔  اس سلسلے میں مکہ کے مشرکین  ایک خود ساختہ نظام کی پیروی کرتے تھے، جس کے مطابق میراث میں مردوں کا تو حصہ ہوتا تھا، لیکن عورت اور چھوٹے لڑکے اس سے کلیۃ محروم رکھے جاتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ شوہر کی وفات کے بعد عورت خود میراث کا حصہ بن کر (سوتیلے) بیٹوں کے حصے میں آ جاتی تھی۔بھلا بتائیے! جہاں خود عورت کو’’ سامان‘‘ کی حیثیت دے دی گئی ہو وہاں اس کو وارث بنانے کا کیا سوال پیدا ہوسکتا ہے؟ عورت کی کم و بیش یہی حالت اُس وقت کے تمام سماجوں میں پائی جاتی تھی۔ ہندستان میں تو شوہر کی وفات کے بعد عورت کو جینے تک کا حق نہیں ہوتا تھا۔ ایسے میں محمد مصطفیٰ ﷺ پر قرآن کا نزول ہوا اور سماج کے دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے کو بھی شان دار انداز میں سلیقے سے سلجھا دیا گیا، تا کہ میراث کی تقسیم کو لے کر مسلمانوں میں کوئی اختلاف ہی نہ رہے اور وہ اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی نظامِ وراثت کو اپنی زندگی میں نافذ کر کے اس کی برکتوں سے لطف اندوز ہو سکیں ۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ (سنن ابو داؤد:287۰) اللہ تعالیٰ نے (مرنے والے کے رشتے داروں میں سے) ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے۔ اس لیے کسی وارث کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں ۔

قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے قرآن کی ان تعلیمات کو رحمتِ الٰہی جان کر ہاتھوں ہاتھ لیااور ان تعلیمات کے تئیں ان کا اہتمام اتنا بڑھا کہ ان کی کوششوں سے میراث اور اس کی تقسیم کے سلسلے میں با قاعدہ ایک فن وجود میں آ گیا، جس کو ’’علم الفرائض‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔مگر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے مسلم سماج میں اسلام کی جن بنیادی تعلیمات سے اجتماعی طور پر بے اعتنائی برتی گئی ان میں سے ایک، اسلامی نظامِ وراثت بھی ہے۔ ہمارےاکثر عوام کو یہ معلوم ہی نہیں کہ انھیں وراثت سے متعلق اپنے مسائل کو اسلام کے مطابق حل کرنا ہے  اور اس سلسلے میں اسلام کی کچھ تعلیمات بھی ہیں ۔اس بے علمی کے نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ والدین کے مرنے کے بعد اولاد میراث کی تقسیم میں اپنے آپ کو خود مختار سمجھنے لگتی ہے۔ جسے چاہتی ہے میراث میں حصہ دار بناتی ہے اور جس کو چاہتی ہے محروم رکھتی ہے، اور عموما یہ محرومی عورت کے حصے میں ہی آتی ہے، کیوں کہ پرائے گھر چلے جانے کے سبب والدین کے مال اور  جائیداد میں وہ اپنا کچھ حق نہیں سمجھتی، یا پھر بھائیوں کے آگے کم زور پڑ جانے کی وجہ سے وہ حق نہ مانگنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتی ہے۔ اس طرح اللہ کی شریعت کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے، حقوق ضائع ہو جاتے ہیں اور ظلم  کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔حالاں کہ کسی کے مال اور جائیداد پر ناحق قبضہ کر لینے والوں کے بارے میں  رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: مَنِ اقْتَطَعَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا، طَوَّقَهُ اللهُ إِيَّاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ(صحیح مسلم:1610)’’جس شخص نے ظلم کرتے ہوئے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ہڑپ کر لی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنے حصے کا طوق اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔‘‘اورمَنِ اقْتَطَعَ مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ، لَقِيَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ(مسند احمد:3946) ’’کسی مسلمان کا مال ہڑپ کر نے والا شخص جب اللہ سے ملاقات کرے گا تو اللہ اس سے ناراض ہوگا۔‘‘

اسلامی نظامِ وراثت کی خصوصیت:جب کہ اسلامی نظامِ وراثت کی یہ خصوصیت ہے کہ اس نے مرد و عورت دونوں کو وارث بنایا  ہےاور انتہائی انصاف کے ساتھ ماں باپ یا دیگر رشتے داروں کے چھوٹے ہوئے مال میں ان کے حصے مقرر فرمائے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا(النساء:۷) ’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو، چاہے چھوڑا ہوا مال تھوڑا ہو یا بہت۔ اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقررہے۔‘‘

اس آیت میں غور کرنے کی ایک بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر  مرد کے ساتھ عورت کو بھی میراث میں حصہ دار ٹھہرایا ہے، جب کہ قرآن مجید میں مرد و عورت کے مشترکہ مسائل میں عورت کا الگ سےذکر بہت کم کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں مرد کے ساتھ ساتھ یہ جتانے کے لیے عورت کا ذکر کیا گیا کہ والدین و اقربا کی میراث میں جتنا حق دار مرد ہے اتنی ہی حق دار عورت بھی ہے۔ عورت کے حق کی مزید تاکید کے لیے فرمایا گیا کہ مالِ متروکہ میں مرد و عورت کے حقوق کا تعلق مال کی کمی یا زیادتی سے کچھ نہیں ہے،بل کہ ہر دو صورت میں حقوق کو ان کے حق داروں تک پہنچایا جائے گا ۔ دوسری بات یہ کہ مالِ متروکہ میں مرد و عورت کا حصہ ضرورت کے مطابق یا محض اپنی مرضی سے طے نہیں کیا جائے گا، بل کہ یہ حصہ مختلف صورتوں میں اللہ کی طرف سے طے کیا ہوا ہے، جس کی خلاف ورزی اللہ کی تقسیم سے انکار کرنے کے مترادف قرار پائے گی۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میراث کی تقسیم میں شرعی اصولوں کی پیروی کرنے والے اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کے بارے میں  میراث کی آیات کے معا بعد ارشاد فرماتا ہے:تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ(النساء:13-16)’’یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کام یابی ہے۔لیکن جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کرےگا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے بڑھے گا ، اللہ تعالیٰ اسے آگ میں ڈالے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔ ‘‘

وراثت میں عورتوں کا حصہ اور اس کی حکمت:جہاں تک اسلام کی رو سے وراثت میں عورت کے حقوق کی بات ہے تو  اسلام نے عورت کو ہر حیثیت سے وارث بنایا ہے۔ اگر وہ ماں ہے تو بیٹے کے مرنے کے بعد اس کے مال میں حصہ دار ہوگی، اگر بیوی ہے تو شوہر کے مال میں اس کا  حصہ ہوگا، اگر بیٹی ہے تو باپ کے مال میں سے مخصوص حصہ اس کو ملے گا، اگر وہ بہن ہے تب بھی وہ وارث قرا پائے گی ،اگر وہ پوتی ہے تب بھی دادا کی میراث میں اس کا حصہ ہو سکتا ہے، حتی کہ بعض صورتوں میں دادی اور نانی کو بھی وارث بننے کا حق حاصل ہوگا۔ہاں ، یہ ضرور ہے کہ بہت سی صورتوں میں مرد کے مقابلے عورت کا حق آدھا ہوتا ہے۔ لیکن ایسا ہونا عورت کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ، بلکہ مرد کے ساتھ عین انصاف ہےاور یہی فطرت کا تقاضا بھی ہے۔ کیا ایسا نہیں کہ مسلم سماج میں روٹی، کپڑا اور مکان سمیت ایک عورت کا سارا خرچہ ہر حال میں مرد پر ہی واجب ہےخواہ وہ کتنی ہی بڑی ذاتی پراپرٹی کی مالک ہو؟شادی سے پہلے باپ اس ذمہ داری کو نبھاتا ہے تو شادی کے بعد یہ ذمہ داری شوہر کے حصے میں آتی ہے۔ اور باپ یا شوہر کی وفات کےبعد بھائی یا دیگر قریبی رشتہ دار اس کے کفیل ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی رشتہ دار بھی موجو نہ ہو تو ایسی صورت میں بیت المال یا حکومتی خزانے کے حصے میں اس کی کفالت آتی ہے۔ پھر جب ہر حال میں عورت کا بوجھ اٹھانے والا مرد ہی ہے تو وراثت میں مرد کو عورت کے مقابلے دو گنا حصہ ملنے  میں عورت کے ساتھ کون سی زیادتی ہو رہی ہے؟ بلکہ ایسی صورت میں اگر عورت اور مرد دونوں وراثت میں برابر کے حصہ دار ہوتے تو یہ مرد کے ساتھ ظلم ہوتا ۔(بلکہ عورت کا خرچ مرد کے ذمے ہونے کے باوجود عورت کو وراثت میں حصہ دیا جانا اسلام کا عورت پر بہت بڑا فضل و احسان ہے جو عورت کو کئی اعتبار سے مضبوطی عطا کرتا ہے۔)

 دوسری بات یہ ہے کہ اسلام میں ہر فرد کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے وراثت میں اس کا حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ مرد  کے مقابلے عورت کی ضروریات بہت کم  ہوتی ہیں ،اور پھر یہ ضروریات بھی اکثر مرد ہی کے ہاتھوں پوری ہو جاتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کئی مسلم ممالک میں (جہاں سماج میں عورت کے خرچے کی ذمہ داری اور وراثت کے حقوق کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات رائج ہیں )دیکھا گیا ہے کہ وراثت کے ذریعے بہت زیادہ مال پانے والی خواتین کے پاس جب ذاتی ضروریات میں سے اس مال کا کوئی مصرف نہیں ہوتا تو عموما وہ اس پیسے کو رفاہِ عامہ کے کاموں میں لگا دیتی ہیں ،جب کہ مرد ایسا بہت کم کرتے ہیں ۔ وراثت کی تقسیم میں رب ِ حکیم کی اس حکمت کو سمجھنے سے ان لوگوں کی پول بھی کھل جاتی ہے جو مسلم عورت کی مظلومی کا ڈھنڈورا پیٹتے  ہیں اور اس کا قصور وار اسلام کو ٹھہراتے ہیں ،جب کہ خود ان کے اپنے گھروں میں ان کی عورتیں ان کے ظلم کو سہ رہی ہوتی ہیں ۔

اب آئیے  ہم عورت کی مختلف حیثیتوں سے وراثت میں اس کے حقوق کی تفصیلات جانتے ہیں ۔

میراث میں ماں کا حصہ: مرنے والے کی اولاد کی موجودگی میں اس کی ماں کوکُل مالِ متروکہ کا ایک سدس (چھٹا حصہ) ملے گا۔اسی طرح ایک سے زائد بھائی یا ایک سے زائد بہن کی موجودگی میں بھی ماں کو ایک سدس ہی ملے گا۔ لیکن اگر اس کی کوئی اولادیا ایک سے زائد بھائی نہ ہوں اور صرف والدین ہی وارث بن رہے ہوں (شوہر یا بیوی وارث نہ بن رہے ہوں ) تو ایسی صورت میں ماں ،کل  مالِ متروکہ کے ایک تہائی کی مستحق قرار پائے گی۔لیکن سابقہ صورت میں اگر والدین کے ساتھ ساتھ زوجین میں سے بھی کوئی وارث بن رہا ہو تو ایسی حالت میں شوہر یا بیوی کا حصہ نکالنے کے بعد، باقی رہ جانے والے مال کا ایک تہائی ماں کو ملے گا۔

میراث میں دادی یا نانی کا حصہ: جہاں تک دادی یا نانی کا معاملہ ہے تو وہ ماں کی عدمِ موجودگی میں ماں کے قائم مقام ہوگی۔ لیکن وہ کسی صورت میں ماں کی طرح ایک سُدس(چھٹا حصہ) سے آگے بڑھ کر ایک ثُلث (تہائی)  کی مستحق نہیں ہوگی۔یاد رہنا چاہیے کہ دادی یا نانی (اکھٹا ہو جانے کی صورت میں ) اپنا حصہ الگ الگ نہیں پائیں گی، بل کہ ایک سدس(چھٹا حصہ)  میں ہی شریک ہوں گی۔

میراث میں بیوی کا حصہ: اگر مرنے والے کی کوئی اولاد ہے تو ایسی صورت میں بیوی کو کل مالِ متروکہ کا ایک ثُمن (آٹھواں حصہ) ملے گا، اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں وہ رُبع (ایک چوتھائی) کی مستحق ہوگی اور ایک سے زائد بیویاں بھی اسی آٹھویں یا چوتھائی حصے میں شریک ہوں گی۔

میراث میں بیٹی کا حصہ:مرنے والے کی اگر کوئی نرینہ اولاد نہیں ، صرف ایک بیٹی ہے، تو ایسی صورت میں میت کے چھوٹے ہوئے مال کا آدھا، بیٹی کے حصے میں آئے گا۔ اگر ایک سے زائد بیٹیاں ہوں تو دو تہائی مال میں تمام بہنیں شریک ہوں گی۔ لیکن اگر لڑکی کے ساتھ ساتھ مرنے والے کی نرینہ اولاد بھی ہے تو ایسی صورت میں بیٹی اپنے بھائی کےساتھ مل کر ’’عصبہ‘‘(وراثت کی اصطلاح میں  عصبہ اس وارث کو کہا جاتا ہے جس کا حصہ قرآن و سنت میں متعین نہیں ، بل کہ دیگر ورثاء کو ان کےمقررہ  حصے مل جانے کے بعد جو مال بچتا ہے وہ سارا کا سارا عصبہ کا ہو جاتا ہے۔)ہو جائے گی اور پھروراثت کے اصول کے مطابق دیگر ورثا کو ان کا حصہ دے دینے کے بعد باقی رہ جانے والے مال میں سےجتناایک  بیٹے کو ملے گا اس کا آدھا بیٹی کو ملے گا۔

میراث میں پوتی کا حصہ:اگر مرنے والے کی کوئی بھی اولاد زندہ نہیں ،لیکن پوتیاں زندہ ہیں ، تو ایسی صورت میں پوتا لڑکے کے قائم مقام ہوگا اور پوتی لڑکی کی جگہ لے لے گی اور سابقہ تفصیل کے مطابق میراث میں اس کا حصہ متعین ہوگا۔یعنی اگر پوتی اکیلی ہے تو وہ مالِ متروکہ کے نصف کی حق دار ہوگی، اگر ایک سے زائد ہیں تو دو تہائی میں شریک ہوں گی، اور اگر ان کے ساتھ کوئی پوتا بھی ہے تو پوتی پوتے کے ساتھ مل کر’’ عصبہ‘‘ بن جائے گی،پھر جتنا پوتے کو ملے گا اس کا آدھا پوتی کے حصے میں آئے گا۔

اگر میت کا کوئی لڑکا نہ ہو اور صرف ایک لڑکی ہو تولڑکی کو نصف دینے کے بعدپوتی سدس (چھٹا حصہ) کی مستحق قرا پائے گی۔

لیکن یہاں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مرنے والے کی ایک بھی نرینہ اولاد کے ہوتے ہوئے، پوتی یا پوتے کو وارث بننے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔

میراث میں بہن کا حصہ:کچھ یہی حال بہن کے حق کا بھی ہے۔ اگر مرنے والے کا باپ یا دادا زندہ نہ ہو، اسی طرح اس کی کوئی اولاد یا پوتے پوتی نہ ہوں ، تو ایسی صورت میں اگر سگی بہن ایک ہے تو اس کو مالِ متروکہ کا نصف ملے گا، اگر ایک سے زائد بہنیں ہیں تو دو تہائی میں شریک ہوں گی اور اگر سگی بہن کے ساتھ ساتھ کوئی بھائی بھی ہے تو جتناایک  بھائی کو ملے گا اس کا آدھاایک  بہن کے حصے میں آئے گا۔

       اگر میت کی صرف ایک لڑکی یا صرف ایک پوتی ہو اور کوئی لڑکا یا پوتا نہ ہو تو ایسی صورت میں لڑکی یا پوتی کو مالِ متروکہ کا نصف (آدھا) دینے کے بعد سدس (چھٹا حصہ) بہن کو ملے گا۔

اگر مرنے والے کے سگے بھائی بہن نہ ہوں تو باپ شریک بہنیں اسی(مذکورہ)  ترتیب سے وارث بنیں گی۔

اگر میت کے باپ دادا میں سے کوئی نہ ہواور نہ بیٹے اور پوتے ہی ہوں ، بلکہ صرف بیٹیاں اور پوتیاں ہوں تودیگر قریبی وارثوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد، بہنیں باقی بچے ہوئے پورے مال کی وارث ہوں گی۔

 اسی طرح اگر مرنے والے کے باپ  دادانہ ہوں ، اور کوئی اولاد بھی نہ ہو، تو ایسی صورت میں ایک ماں شریک بہن کو ایک سدس یعنی چھٹا حصہ ملے گا۔ اوراگر ماں شریک بہنیں  ایک سے زائد ہیں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گی۔

بیوی کےعلاوہ دیگروارث عورتوں کو ان کے حصے سے زائد ملنے کی ایک شکل: اگر میت کا کوئی عصبہنہ ہو تو بیوی کے سوا، وراثت کی حق دار تمام خواتین باقی بچے ہوئے سارے مال کی حق دار ہوں گی۔ کیوں کہ عصبہ نہ ہونے کی صورت میں باقی بچا ہوا مال وارثوں کے درمیان دو بارہ تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

سابقہ تفصیلات کے دلائل:وراثت میں عورتوں کے حقوق سے متعلق اوپر ذکر کی گئیں تمام تفصیلات کا مرجع و ماخذ سورۂ النساء کی تین  آیات(11، 12 اور176)  ہیں جن میں اللہ رب العالمین نے وراثت کے مسائل کو نہایت تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ان کی اہمیت کے پیشِ نظر یہاں پوری پوری آیتوں کو ترجمے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے:

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖلِلذَّكَرِمِثْلُحَظِّالْأُنثَيَيْنِ،فَإِنكُنَّنِسَاءًفَوْقَاثْنَتَيْنِفَلَهُنَّثُلُثَامَاتَرَكَ،وَإِنكَانَتْوَاحِدَةًفَلَهَاالنِّصْفُ، وَلِأَبَوَيْهِلِكُلِّوَاحِدٍمِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚفَإِنلَّمْيَكُنلَّهُوَلَدٌوَوَرِثَهُأَبَوَاهُفَلِأُمِّهِالثُّلُثُ،فَإِنكَانَلَهُإِخْوَةٌفَلِأُمِّهِالسُّدُسُمِنبَعْدِوَصِيَّةٍيُوصِيبِهَاأَوْدَيْنٍ،آبَاؤُكُمْوَأَبْنَاؤُكُمْلَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا، فَرِيضَةًمِّنَاللَّهِ،إِنَّاللَّهَكَانَعَلِيمًاحَكِيمًا۔

وَلَكُمْنِصْفُمَاتَرَكَأَزْوَاجُكُمْإِنلَّمْيَكُنلَّهُنَّوَلَدٌ،فَإِنكَانَلَهُنَّوَلَدٌفَلَكُمُالرُّبُعُمِمَّاتَرَكْنَ،مِنبَعْدِوَصِيَّةٍيُوصِينَبِهَاأَوْدَيْنٍ۔ وَلَهُنَّالرُّبُعُمِمَّاتَرَكْتُمْإِنلَّمْيَكُنلَّكُمْوَلَدٌ،فَإِنكَانَلَكُمْوَلَدٌفَلَهُنَّالثُّمُنُمِمَّاتَرَكْتُم،مِّنبَعْدِوَصِيَّةٍتُوصُونَبِهَاأَوْدَيْنٍ۔وَإِنكَانَرَجُلٌيُورَثُكَلَالَةًأَوِامْرَأَةٌوَلَهُأَخٌأَوْأُخْتٌفَلِكُلِّوَاحِدٍمِّنْهُمَاالسُّدُسُ،فَإِنكَانُواأَكْثَرَمِنذَٰلِكَفَهُمْشُرَكَاءُفِيالثُّلُثِمِنبَعْدِوَصِيَّةٍيُوصَىٰبِهَاأَوْدَيْنٍغَيْرَمُضَارٍّ، وَصِيَّةًمِّنَاللَّهِ،وَاللَّهُعَلِيمٌحَلِيمٌ(النساء:11-12)

’’تمھاریاولادکےبارےمیں اللہتمھیں ہدایتکرتاہےکہ: مردکاحصّہدوعورتوں کےبرابرہے،اگر(میّتکیوارث)دوسےزائدلڑکیاں ہوں توانہیں ترکےکادوتہائیدیاجائے،اوراگرایکہیلڑکیوارثہوتوآدھاترکہاسکاہے ۔اگرمیّتصاحبِاولادہوتواسکےوالدینمیں سےہرایککوترکےکاچھٹاحصّہمِلناچاہیے ۔ اوراگروہصاحبِاولادنہہواوروالدینہیاسکےوارثہوں توماں کوتیسراحصّہدیاجائے ۔ اوراگرمیّتکےبھائیبہنبھیہوں توماں چھٹےحصّہکیحقدارہوگی ۔ (یہسبحصّےاسوقتنکالےجائیں گے)جبکہوصیّتجومیّتنےکیہو،پوریکردیجائےاورقرضجواسپرہو،اداکردیاجائے ۔ تمنہیں جانتےکہتمھارےماں باپاورتمھاریاولادمیں سےکوننفع کے لحاظ سےتمسےقریبترہے ۔ یہحصّےاللہنےمقررکردیےہیں ،اوراللہیقیناًسبحقیقتوں سےواقفاورساریمصلحتوں کاجاننےوالاہے ۔

اور تمھاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصّہ تمھیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں ، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصّہ تمھارا ہے جبکہ وصیّت جو انہوں نے کی ہو پوری کر دی جائے ، اور قرض جو انہوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے ۔ اور وہ (تمھاری بیویاں ) تمھارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو ، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صورت میں ان کا آٹھواں حصہ ہوگا ، بعد اس کے کہ جو وصیّت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے ۔
اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں ، مگر اس کا ایک (ماں شریک )بھائی یا ایک (ماں شریک ) بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا ، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے ، جبکہ وصیّت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے ، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے ، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو ۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے ہےاور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے ۔
يَسْتَفْتُونَكَقُلِاللَّهُيُفْتِيكُمْفِيالْكَلَالَةِ،إِنِامْرُؤٌهَلَكَلَيْسَلَهُوَلَدٌوَلَهُأُخْتٌفَلَهَانِصْفُمَاتَرَكَ،وَهُوَيَرِثُهَاإِنلَّمْيَكُنلَّهَاوَلَدٌ،فَإِنكَانَتَااثْنَتَيْنِفَلَهُمَاالثُّلُثَانِمِمَّاتَرَكَ،وَإِنكَانُواإِخْوَةًرِّجَالًاوَنِسَاءًفَلِلذَّكَرِمِثْلُحَظِّالْأُنثَيَيْنِ،يُبَيِّنُاللَّهُلَكُمْأَنتَضِلُّوا،وَاللَّهُبِكُلِّشَيْءٍعَلِيمٌ۔(النساء:176)

(اے نبی ! ) لوگ  تم سے کلالہ کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں ۔ کہو اللہ تمھیں فتویٰ دیتا ہے ۔ اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو  تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی، اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہوگا ۔  اگر میّت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی، اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دوہرا حصّہ ہوگا ۔ اللہ تمھارے لیے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔

وراثت کی سابقہ تقسیم میں قرآن مجید کی آیات کے علاوہ سنت رسول ﷺ اور عملِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھئ نے بہت سے دلائل ہیں ، جن کومشہور کتبِ حدیث میں ’’کتاب الفرائض‘‘ کے تحت ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اختصار کے پیشِ نظر یہاں اس سلسلے کی صرف ایک بنیادی حدیث پیش کی جاتی ہے:

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: أَلْحِقُواالفَرَائِضَبِأَهْلِهَا،فَمَابَقِيَفَلِأَوْلَىرَجُلٍذَكَر(صحیح بخاری:6737)  ’’وراثت کے حصے (پہلے) ان کے مستحقین تک پہنچا دو ۔ پھر ان کو دینے کے بعد جو کچھ باقی بچے وہ مردوں میں سے میت کے زیادہ قریبی رشتے دار(عصبہ)  کا حق ہے۔‘‘

خاتمہ:یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ، مختلف حیثیتوں اور الگ الگ حالات کے اعتبار سے ، میراث میں عورت کو حاصل ہونے والے حقوق کا مختصر بیان ہے، جس کو حتی الامکان آسان بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں تقسیمِ میراث سے متعلق تمام مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور نہ میراث کی تقسیم کے لیے اس مضمون کو مرجع ہی بنایا جا سکتا ہے۔ میں نے یہاں صرف عام مسلمانوں کو  اسلام میں نظامِ وراثت کی اہمیت و عظمت سے متعارف کرانا چاہا ہے اور انھیں یہ بتانا چاہا ہے کہ اسلام کی رو سے میراث میں عورتوں کے حقوق بھی بنتے ہیں ، جن کو ان کے حق داروں تک نہ پہنچانا اللہ کے حرام کردہ امور کا ارتکاب کرنا ہے۔ جہاں تک بات ہے میراث کو تقسیم کرنے کی ، تو اس سلسلے میں اس مضمون سے مدد تو لی جا سکتی ہے ، لیکن کلی طور پر اِسی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ یہاں صرف میراث میں عورتوں کے حقوق ہی بیان کیے گئے ہیں ، مردوں کے حقوق کا ذکر نہیں کیا گیا، جب کہ میراث میں عورتوں کے ہی نہیں ، مردوں کے حقوق بھی ہوتے ہیں ۔ اس لیے میراث کی تقسیم کے سلسلے میں تفصیلی کتابوں اور معتبر علمائے کرام سے رجوع کرنا ضروری ہے۔

تبصرے بند ہیں۔