وزیر اعظم اپنی سطح سے کتنا نیچے اتر یں گے

حفیظ نعمانی
ملک کی آزادی کو 70 سال ہوگئے اور جو جمہوری نظام پہلے دن نافذ کیا گیا تھا وہ بغیر کسی وقفہ کے آج تک چل رہاہے، پنڈت نہرو سے لے کر ڈاکٹر من موہن سنگھ تک ایک درجن کے قریب وزیر اعظم بنے جن میں پنڈت نہرو اور اندراگاندھی تو دس برس سے زیادہ عرصہ تک وزیر اعظم رہیں اور ڈاکٹر من موہن سنگھ دس برس رہے ان کے علاوہ ایسے بھی ہوئے جنھوں نے ایک برس پورا کیا اور ایسے بھی رہے جو مہینہ اور ہفتہ ہی پورا کرکے چلے گئے۔ لیکن جیسے بھی حالات رہے ہوں کسی نے وقار اور بھرم پر آنچ نہیں آنے دی۔ ان میں ایسے بھی وزیر اعظم ہوئے جو صرف اپنی پارٹی کے بل پر بنے اور پورا عرصہ اپنے بل پر ہی حکومت چلائی اور ایسے بھی ہوئے جن کو اپنے مخالفوں کی مدد لینا پڑی۔ اور بہت سی بدنامیاں ان ساتھیوں کی وجہ سے برداشت کرنا پڑیں یا ان کی ہی وجہ سے حکومت سے ہاتھ کھینچنا پڑا۔
2014ء میں کانگریس جب الیکشن میں اتری تو وہ اپنی ساتھی پارٹیوں کے ممبروں کی بدعنوانیوں سے لہولہان تھی اور کانگریس کے وزیر اور حدیہ ہے وزیر اعظم من موہن سنگھ پر بھی کوئلہ کی کانوں کی نیلامی میں بدعنوانی کے داغ لگے ہوئے تھے۔ زخموں سے چور کانگریس پر بی جے پی نے حملہ کرنے کے لیے نریندر مودی کے نام کا انتخاب کیا جو اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور ایک ڈکٹیٹر کی طرح اپنے صوبہ پر حکومت کررہے تھے۔
لوک سبھا کے ا لیکشن کو نریندر مودی نے شروع تو کانگریس مکت بھارت کے نعروہ سے کیا لیکن پھر وہ جھوٹ کے ہیلی کاپٹر پر سوار ہوگئے اور انھوں نے جھوٹے وعدوں اور شیخ چلّی کے خوابوں کی جھڑی لگا دی۔ ملک اس وقت مہنگامی اور رشوت سے ٹیڑھا ہورہا تھا۔ نوکری وہ چاہے جیسی ہو نیلام ہورہی تھی۔ وزیروں کی بدعنوانیاں دلچسپ کہانیوں کی طرح ایک دوسرے کو سنائی جارہی تھیں۔ مودی نے لوہا گرم دیکھ کر کہہ دیا کہ مہنگائی ہماری حکومت بنتے ہی اس لیے ختم ہوجائے گی کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو ذخیرہ کررہے ہیں۔ اور مال بازار میں نہیں آنے دے رہے؟ اور وہ سب کہہ دیا جیسے ہر آدمی کو لاکھوں روپے مل جائیں گے یا روزگار اور ہر ہاتھ کو کام دینا ہماری ذمہ داری ہوگی۔
بی جے پی کو تو 280 سیٹیں مل گئیں اور مودی اپنی اصلیت پر آگئے۔ اب حکومت کے 30مہینے گذرنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ وہ کچھ بھی نہیں کرپائے۔ وہ مہنگائی جس سے کمر ٹوٹ رہی تھی وہ تین گنا ہوگئی۔ بے روزگاروں کو روزگار کیا ملتا بے روزگاروں میں لاکھوں کا اضافہ ہوگیا اور ا چھے دن کے بجائے برے اور بہت برے دن آگئے۔ تو انھوں نے اپنی فطرت کے مطابق ایک دھماکہ کرڈالا کہ یا آریا پار۔ اور 1000 اور 500 کے نوٹ کا چلن ختم کرکے کہہ دیا کہ رات کے 12 بجے کے بعد یہ صرف بینک میں جمع ہوسکتے ہیں۔
اس فیصلہ سے اس وقت تو اندازہ نہیں ہوا کہ یہ صرف ا ن کا فیصلہ ہے اس لیے کہ اتنا بڑا فیصلہ جس سے سوا سو کروڑ یعنی پوری آبادی فقیر ہوجائے کوئی اکیلے کرنے کی ہمت کیسے کرسکتا ہے؟ لیکن ۸؍ نومبر سے 30 دسمبر تک کیا کیا ہوگا اور جو نوٹ بے کار ہوگئے وہ پچاس دن تک کس طرح نئے نوٹوں میں تبدیل ہوں گے۔ اور جب تک تبدیل نہیں ہوں گے اس وقت تک125کروڑ انسان زندگی کیسے گذاریں گے؟ اس کا جو جواب سامنے آیا اور ہر دن اس میں جو تبدیلی ہوئی اور کبھی کچھ اور کبھی کچھ کا ناٹک ہوا اس سے یقین کرنا پڑا کہ یہ صرف ایک ہی کھوپڑی ہے جس کے اندر صلاحیت جتنی ہے اتنا ہی کام کرسکتی ہے۔
نوٹ بندی کی ہر بات سے ہر آدمی واقف ہے۔ لیکن یہ کسی کی سمجھ میں شاید نہ آیا ہوگا کہ 300 سے زیادہ ممبروں کی حمایت والا وزیر اعظم گجرات یعنی اپنے گھر میں جا کر اپنوں سے گلے مل مل کر روئے اور کہے کہ مجھے پارلیمنٹ میں کوئی بولنے نہیں دیتا اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جلسوں میں بولوں گا اور جو مودی کے حمایتی پارلیمنٹ میں تھے ان سے کہہ دیا کہ اب تم کسی کو خاص طور پر راہل کو نہ بولنے دینا۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے چارہفتے حزب مخالف کی وجہ سے نہیں مودی کی وجہ سے برباد ہوئے۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنے نوٹ بندی کے مہلک فیصلہ پر کیا بولتے جس نے سارے ملک کو لائن میں کھڑاکردیا تھا۔
دو دن پہلے گجرات کے ایک جلسہ میں راہل گاندھی نے الزام لگایا تھا کہ مودی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اس وقت سہارا کمپنی کے دفتروں پر ا نکم ٹیکس کی ٹیم نے چھاپہ مارا تھاتو جو کاغذ برآمد ہوئے تھے ان میں قسطوں میں دئے گئے چالیس کروڑ نریندر مودی کے نام پر تھے۔ راہل نے معلوم کیا تھا کہ یہ سچ ہے یا نہیں؟ اس کے جواب کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ وہ کہتے کہ یہ الزام ہے سہارا سے میرا کوئی لین دین نہیں ہوا۔ اور دوسرا طریقہ وہ تھا جو انھوں نے ا ختیار کیا کہ جیسے الزام لگانے والا کوئی بچہ ہے اور وہ بڑوں کی نقل کررہا ہے۔ راہل گاندھی نے اسے مذاق کہا ہے لیکن یہ مذاق نہیں بلکہ اسے کھِلّی اُڑانا کہتے ہیں۔ اور یہ اس وقت تک کیا جانا ہے جب کوئی رنگے ہاتھوں پکڑا جائے یا جس کے پاس جواب نہ ہو۔
کل مودی اپنے حلقہ وارانسی میں تھے وہاں وہ ہندو یونیورسٹی کے ایک ہال میں اپنے مصاحبوں اور چمچوں کے سامنے راہل کی کھِلّی اُڑا رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘اور انھوں نے جو انداز اختیار کیا وہ راجو سریواستو والا تھا جیسے وہ لالو یادو یا ملائم سنگھ یادو یا نریندر مودی یا ہر لیڈر کی نقل اتارتے ہیں جس میں زبان آواز آنکھیں اور دانتوں کی نمائش کے علاوہ ہاتھوں کا بھی بے محابہ استعمال کرتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ سب کھلکھلاکر ہنس دیں اور تالیاں بجا دیں۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ صرف وزیر اعظم کی نگاہوں میں اپنا چہرہ دکھانے کے لیے ہی آئے ہیں وہ اگر دانت نہ دکھاتے اور تالیاں نہ بجاتے تو کیا کرتے؟ لیکن راجو سریواستوکا کردار ادا کرنے والے وزیر اعظم کو یہ خیال رکھنا چاہیے تھا کہ وہ بہت بڑے ملک کے وزیر اعظم ہیں ’جو کر‘نہیں ہیں۔ جس کا ایک وقار ایک مقام اور دبدبہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ایماندار ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر انسان اُسے ایماندارمانے اور اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ کہتے کہ راہل جھوٹ بول رہے ہیں۔ یا سہارا والوں نے اگر اپنے بچاؤ کے لیے میرا نام لکھ دیا تو میں کیا کروں؟ لیکن مذاق میں اڑانا بتاتا ہے کہ دل میں چورہے۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔