وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

راحت علی صدیقی قاسمی

زندگی پر موت کی عبارت رقم ہونا لازمی ہے ، یہی نظام کائنات اور حکم خداوندی ہے ،طاقتور، کمزور، دولت مند، فقیر، کوئی اس کے چنگل سے نہیں بچ سکا ،زندگی ہمیشہ موت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی ،کل نفس ذائقتہ الموت کہہ کر باری تعالی نے اس حقیقت کا اعلان کیا، شہنشاہانِ علم و فضل، امامِ تصوف، ماہرین علوم و حکمت تمام ہی دنیا سے رخصت ہوئے اور سینکڑوں ، لاکھوں ، کروڑوں افراد کی آنکھیں نم ہوئیں ، تکالیف درد و غم کا قلب میں طوفان برپا ہوا ،آہ و زاری سینہ کوبی کے منظر نے زمین کو سوگوار کیا اور دردمندان ملت کے آنسوؤں کی بارش میں بہت سے اکابر علماء دنیا سے رخت سفر باندھ چکے، ان کا علم و فضل، ان کے شاگرد، ان کے کارنامے ان کی موجودگی کا احساس کراتے ہیں ۔ ان کی تحقیقات، ان کی محنت جدو جہد اہل علم کی راہ یابی کا ذریعہ ہے ، اس چمنِ لالہ زار کا ایک خوبصورت پھول شیخ یونس علیہ الرحمہ کی شخصیت بھی تھی ، جن کے وجود سے گلشن کی خوبصورتی دوبالا تھی، انتہائی اعلیٰ معیار کے حامل، علم و فضل، زہد تقوی میں عدیم المثال، تدریس میں نابغہ ،درس حدیث میں یکتا، آپ نے علم حدیث میں پوری دنیا کے اندر منفرد مقام حاصل کیا ،زندگی بھر حدیث کی خدمت کرتے رہے ،بہت سے افراد نے آپ سے رسول اللہ کے کلمات کی گہرائیاں حاصل کیں ،ان کے معانی و مفاہیم دریافت کئے ،آپ نے حدیث کے دریا سے وہ قیمتی موتی اور لعل وجواہر تلاش کئے ،جن تک ہر انسان کی رسائی ممکن نہیں تھی اور امت مسلمہ کو علم کا خزانہ عطا کیا ،زندگی کا بیشتر حصہ خدمت حدیث میں صرف کیا ،دولت کی چمک آپ کو متاثر کر سکی اور نہ زمانے کی نیرنگیاں آپ کی دنیا کو تبدیل کرسکیں مگر ہمیشہ مطالعہ اور علم حدیث ہی سے عشق کیا ،زندگی کی دوسری ضرویات عشق حدیث کے بالمقابل کمزور نظر آئیں ۔

بچپن میں ماموں کے کاندھے پر بیٹھ کر جو علم کا سفر شروع کیا ،کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ، جونپور کے چھوٹے سے گاؤں کھیتا سرائے اور مانی کلاں سے گذرتا ہوا آپ کا تعلیمی سفر سہارنپور کی تاریخی درسگاہ مظاہر العلوم تک پہنچا ،جس کی آب ہوا میں سادگی تھی، شرافت تھی، سنجیدگی و متانت تھی اور اہل علم کی موجودگی اس ادارے کے وقار اور معیار کی پہچان کراتی تھی، حضرت شیخ مہاجر مدنی جیسی شخصیت جہاں موجود ہو ،اس خطہ کی عظمت کا کیا ٹھکانہ۔ علمی فضا، روحانی ماحول، وہی شیخ یونس علیہ الرحمہ کے مزاج میں رچ بس گیا ،علم کے گرویدہ ہوگئے۔ لوگوں سے ملنا جلنا، ربط و ضبط پیدا کرنا اورمطالعہ ہی ان کا معمول قرار پایا ،اپنی لائبریری تھی جس میں حدیث کی نایاب کتابیں موجود تھیں ،مال و دولت کے متلاشی نہیں تھے ،علمِ حدیث کے گوشوں پر کتابوں کی انہیں ہمیشہ تلاش رہتی تھی ،جب موقع فراہم ہوتا کتابیں خریدتے تھے ۔

چنانچہ سفر حج پر جاتے ہوئے حضرت شیخ نے انہیں پچاس روپے عنایت فرمائے تو اس سے نصب الرایہ خریدی 1984ء میں پچاس کی روپے کی بڑی اہمیت ہوتی تھی اور ابھی تدریس کا ابتدائی مرحلہ تھا ،ضروریات منھ پھاڑے ہوئے اور اس رقم سے بہت سی ضروریات مکمل ہوسکتی تھیں ،لیکن شیخ یونس علیہ الرحمہ نے تمام تر ضروریات کو بالائے طاق رکھا اور کتاب خریدی ،حضرت شیخ کی زبان پر بھی یہ جملہ ا جاری ہوا ، ’’اس کے لئے تو عمر پڑی تھی ‘‘شیخ بھی جانتے تھے، اس موقع پر دوسری ضروریات تکمیل کی دہائی دے رہی ہیں اور دوسری حاجتیں ہیں جن سے جان چھڑانا بھی مشکل ہے ،مگر عنوان چشتی نے کہا :

عشق تو پھر عشق ہے آشفتہ سری مانگے

ہوش کے دور میں بھی جامہ دری مانگے ہے

عشق ہی کی طاقت ہے جس نے کمزور، ناتواں ، بیمار طالب علم کو اس مقام پر پہنچایا ،ایسا طالب علم جسے گھر جانے کے لئے مشورہ دیا جارہا تھا ،اس کی کمزوری اور بیماری کا احساس کیا جارہا تھا اور عقل چیخ رہی تھی اس بیمار بچے کو گھر بھیج دیا جائے ،باپ کی شفقت کے سائے میں اعزاء کی محبت کی چادر تلے ،یہاں وطن سے بیماری کی تکلیف اسے نڈھال کردے گی ،ماں کا سایہ تو نہیں پر وطن کی آب و ہوا کیا کم ہے ،لے چلو اس بچہ کو جونپور ،عقل کے اس تقاضے اور اس پکار کو یقینی طور سے بجا خیال کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ تو عشق نبی سے سرشار ہو کر آیا تھا ،دیوانگی اس کی رگوں میں خون کی مانند دوڑ رہی تھی ،قدم منجمد ہوگئے ،دل تکالیف برداشت کرنے کے قابل ہوا اور تعلیم جاری رکھنے کا منشا ظاہر کیا ،ایک مرتبہ پھر عقل عشق کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی اور اقبال مرحوم کا شعر حاشیۂ خیال پر ابھرا اور قلب پر دستک دینے لگا:

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

شیخ یونس علیہ الرحمہ نے تکلیف کی شدت اور بیماری کے باوجود سہارنپور کی سرزمین ہی کو اپنے لئے بہتر خیال کیا اور یہیں اپنے اساتذہ کی خدمت میں مشغول رہے اور علم حدیث میں وہ بلند مقام حاصل کیا کہ پوری دنیا میں فن حدیث میں معتبر ہوگئے۔ اکابر علماء نے ان سے رجوع کیا ، ان کی آراء پر بھروسہ کیا ، انہیں قابل عمل جانا ،ان کے علمی مقام پر گفتگو کرتے ہوئے ،عربی کے عظیم اسکالر بدرالحسن قاسمی لکھتے ہیں ، ’’مولانا کی دقت نظر اور وسعت مطالعہ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ’’ارشاد القاصد‘‘ نامی رسالے میں 168ایسی حدیثیں جمع کیں جو امام بخاری نے ایک ہی سند کے ساتھ بیان کی ہیں ،حالاں کہ امام بخاری اس طرح کے تکرار کی نفی کرتے ہیں اور حافظ ابن حجر اس طرح کی بمشکل22حدیثیں پیش کر سکے ہیں ‘‘یہ سطریں شیخ یونس جونپوری کے مقام و مرتبہ کا اظہار کررہی ہیں اور یہ باور کرارہی ہیں کہ آپ نے علم حدیث میں انتہائی عرق ریزی کی ہے اور علم حدیث کے تمام گوشوں پر اپنی بساط کے مطابق سیر حاصل بحث کی ہے ،حافظ ابن حجر کا مقام علم حدیث میں کتنا بلند ہے ،کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ،ان کی تحقیق ،ان کے اقوال، ان کی تخریج، ان کے سوالات و اشکالات ، علم حدیث میں حافظ کوہ ہمالیہ کے مشابہ ہیں لیکن اس مقام پر وہ شیخ یونس علیہ الرحمہ سے کم حدیثیں پیش کرسکے ہیں ،یہ حقیقت قلب پر ان کی شخصیت کا تاثر قائم کرتی ہے، ایسا تاثر جس کا زوال بہت ہی مشکل ہے ۔

  کسی فن میں اتنا بلند مقام حاصل کرنا آسان نہیں ہے اور فن حدیث پر گفتگو کی جائے تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے ۔امام مسلمؒ کے مقدمہ مطالعہ اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ فن حدیث کتنا مشکل ترین متن سند رجال روات تمام پر بحثیں کرنا ،رطب یابس کو الگ کرنا ،انتہائی عرق ریزی اور جانفشانی کے بناء پر یہ کام ممکن ہی نہیں ہے اور اس فن میں مہارت حاصل کرنا کتنا مشکل تر ہے ،ہر ذی شعور اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے ،شیخ یونس علیہ الرحمہ نے اس فن کو اپنی زندگی کے قیمتی چالیس سال دئے ،دن رات، صحت ومرض ہر حال میں اپنا مقصد مقدم رکھا ،اسی لئے ان کے انتقال پر لاکھوں افراد رنجیدہ ہیں اور اس قصر علم کے گر جانے کی وجہ سے اشکبار ہیں اور زبان حال سے افتخار عارف کا یہ شعر گنگنا رہے ہیں :

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا

یقینا ملت اسلامیہ اس حادثہ سے غم میں مبتلا ہے اور تکلیف کا شکار ہے ،مایوسی قلوب میں گھر کر گئی ہے ،مگر یہی دستور حیات ہے اور خداوند قدوس سے دعا گو ہیں جس طرح سرزمین شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے لے کر عظیم محدثین کی جائے پیدائش رہی ہے اور ان کی علمی کاوشوں سے یہ ملک فیضیاب ہوتا رہا ہے ،جب بھی کوئی عظیم شخصیت دنیا رخصت ہوئی تو اللہ تعالی نے اس کا جانشین امت مسلمہ کو میسر فرمایا ۔آج بھی ہم امید کرتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں خداوندی میں دعا گو ہیں ،امت مسلمہ کو شیخ یونس علیہ الرحمہ کا جانشین عطا فرمائے اور ان جیسی جامع الکمالات شخصیت پھر سے ہمارے علمی سفینے کو سمندر کی طغیانی سے پار لگار دے اور شیخ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے ۔

تبصرے بند ہیں۔