ٹریفک نظام کی پاسداری: شریعت کی روشنی میں

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

زمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی سے متعلق وسائل بھی ترقی کی راہ پر مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں، ان وسائل سے جہاں لوگوں کو آسائش اور سہولتیں مہیا ہوئیں، وہیں خطرات اور پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوا، پچھلی دہائیوں میں لوگ چھکڑوں اور بیل گاڑیوں سے سفر کیا کرتے تھے، اس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لئے ایک کٹھن اور اکتادینے کی حد تک وقت درکار ہوتا تھا ؛ لیکن اب اس کی جگہ تیز رفتار سواریوں نے لے لیا ہے، گھنٹوں کا سفر اب لوگ منٹوں میں طے کرنے لگے ہیں ؛ لیکن ان تیز رفتار سواریوں کی وجہ سے بسا اوقات وہ پریشانیاں اٹھانی پڑ جاتی ہیں، جو بیل گاڑیوں سے نہیں اٹھانی پڑتی تھیں۔

انسانی سہولتوں کے وسائل جیسے جیسے سامنے آتے گئے، علماء اُمت نے اسلامی نقطۂ نظر سے اس پر روشنی ڈالنے کی بھی کوششیں کیں، چنانچہ آج کل تیز رفتار سواریوں کی وجہ سے، جو متعدد اور اندوہناک حادثات پیش آرہے ہیں، ان سے متعلق احکام پر یہاں روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ٹریفک نظام کی ضرورت

انسان کی پوری زندگی کسی نہ کسی قانون سے مربوط ہے، یہ قانون انسان کو صحیح راستہ سے سہولت کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچانے میں ممد و معاون ہوتا ہے، اگر قانون اور قانون کی پاسداری نہ ہوتو انسان اور جانوروں میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہے گا۔

قوانین شریعت میں بعض اُمور ایسے ہیں، جن سے صراحتاً روکا گیا ہے اور بعض ایسے ہیں، جن کو کرنے کا صراحتاً حکم دیا گیا ہے، ان مامور بہ اور منہی عنہ احکام پر تو بعینہٖ عمل کرنا ضروری ہے ؛ لیکن بعض اُمور ایسے بھی جن سے نہ تو روکا گیا ہے اور نہ جن کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؛ بلکہ ان سے ایسی مصلحت متعلق ہے کہ صراحتاً ان کے معتبر ہونے کا ذکر شریعت میں ملتا ہے اور نہ نامعتبر ہونے کا، ان چیزوں کے بارے میں حکومت کو حق ہے کہ عام لوگوں کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی انتظامی قانون بنائے۔

ٹریفک نظام کا تعلق ایسے ہی اُمور سے ہے، جس سے عوام الناس کے مفادات متعلق ہیں، اس سے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت مقصود ہے، اگر یہ نظام نہ ہوتو راستہ چلنا ہمارے لئے دوبھر ہوجائے گا، چوں کہ ہر انسان کی طبعی خواہش جلد سے جلد اپنی منزل تک پہنچ جانے کی ہوتی ہے، اب اگر کسی چوراستہ پر ہر انسان اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانا شروع کردے تو منزل تک پہنچنے کے بجائے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر اسپتال جا پہنچے گا، مال کا نقصان تو ہوگا ہی، جان کے بھی لالے پڑیں گے، انھیں نقصانات سے بچانے کے لئے حکومت نے ٹریفک نظام بنایا ہے، جو گویا آج ایک ایسی ضرورت بن چکی ہے، جس پر لوگوں کی موت و زیست کا دار و مدار ہے، عالم اسلام کے ممتاز فقیہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں  :

قد اصبح وضع ہذا النظام ضرورۃ تقوم علیہا حیاۃ الناس بحیث تختل أمور حیاتہم وتضطرب باختلالہ، والذی یضع ہذا النظم ہو الحاکم رعایۃ لمصالح الأمۃ وتدبیراً لشئونہا … وأساس ذلک مراعاۃ المصلحۃ لہم جلبا للمنفعۃ ودفعا  للمضرۃ والمصلحۃ۔ (الفقہ الإسلامی وأدلتہ : ۶؍۷۱۱-۷۱۰) ’’ٹریفک نظام ایک ایسی ضرورت ہے، جس پر لوگوں کی زندگی کا مدار ہے، اس کے درہم برہم ہونے سے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوجاتی ہیں، اس طرح کے نظام مفادات عام کو دیکھتے ہوئے حاکم ( حکومت ) بناتے ہیں … اوراس قانون کی بنیاد جلب منفعت ( لوگوں کو نفع پہنچانا ) اور دفع مضرت (نقصان سے بچانا ) ہے‘‘۔

ٹریفک نظام کی پاسداری

 جان و مال کی حفاظت شریعت کے بنیادی اور اہم مقاصد میں سے ہے، (دیکھئے : الموافقات : ۳؍۲۹ )،ٹریفک کا نظام بھی انھیں دونوں مقاصد کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے، شرعی نقطۂ نظر سے اس قانون کی رعایت کہاں تک لازم ہے ؟ یہ بیان کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ٹریفک کے کچھ بنیادی قوانین پر روشنی ڈالی جائے۔

تیز رفتاری پر کنٹرول

یہ تو حقیقت ہے کہ تیز رفتاری کو کسی ایک نقطہ پر محدود نہیں کیا جاسکتا ہے ؛ بلکہ سڑک کی گنجائش، وسعت، پختگی و ناپختگی اور ہجوم کی رعایت کرتے ہوئے تیز رفتاری میں کمی یا اضافہ کیا جاتا ہے، تاہم بعض جلد باز، بے شعور اور خاص طورپر نوجوان تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی چلانا اپنے لئے باعث ِافتخار سمجھ بیٹھتے ہیں، جس کے نتیجہ میں گاڑی کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے اور پھر حادثہ وجود میں آتا ہے۔

تیز رفتاری پر کنٹرول کے لئے حکومت نے کئی اقدامات کئے ہیں اور کر رہی ہے، جگہ جگہ رفتار محدود (Speed Limit) کے بورڈ لگائے گئے ہیں، چوراستوں پر ٹریفک پولیس کھڑی کی گئی ہے ؛ تاکہ وہ ایسے لوگوں کو روک کر کچھ ہدایات دے اور جرمانہ لے ؛ لیکن بسا اوقات پولیس والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لوگ فرار ہوجاتے ہیں، اس لئے اب حکومت مختلف جگہوں پر کیمرے نصب کررہی ہے، جس میں ڈرائیور کے ساتھ ساتھ، گاڑی کی تصویر اور نمبر محفوظ ہوجاتا ہے، پھر دوچار دن کے اندر چالان کی رسید گھر پہنچتی ہے، اگر وقت مقررہ پر جرمانہ ادا نہ کیا جائے تو پھر خود پولیس والے گھر آکر گاڑی ضبط کرلیتے ہیں۔

ہیلمیٹ کا لزوم

 ہونے والی چیز توہوکر رہتی ہے ؛ لیکن احتیاطی تدابیر کرلینے کی کوئی ممانعت نہیں ہے، انھیں احتیاطی تدابیر کے ضمن میں ہیلمیٹ کا لزوم بھی ہے، دماغ اعضائے رئیسہ میں سے ہے اور اﷲ تعالیٰ نے ہڈیوں سے بنا ایک محفوظ خانہ میں اسے چھپا رکھا ہے، خاص طورپر موٹر سائیکل سوار جب کسی حادثہ کا شکار ہوتاہے، تو سر کے بل ہی اکثر و بیشتر گرتا ہے، سر میں چوٹ آجانے کے بعد انسان کا بچنا ذرا دشوار ہوتا ہے، اسی سے بچانے کے لئے ہیلمیٹ کو لازم کیا گیا ہے۔

 حکومت نے خود بھی اس کو نافذ کرنے کے لئے کئی طریقے اپنائے ہیں، جگہ جگہ بورڈ نصب ہے جن پر (Save Life) ’’ زندگی بچاؤ ‘‘ اور (Wear helmet while riding.) ’’ بائک چلاتے وقت ہیلمیٹ پہنیں ‘‘ لکھا ہوتا ہے، مختلف چوراستوں پر ٹریفک پولیس بھی کھڑی رہتی ہے، ہیلمیٹ نہ پہننے والوں پر ڈنڈے بھی برساتی ہے اور پکڑ ے جانے پر چالان بھی کاٹتی ہے، کیمرے نصب کرنے کی ایک وجہ ہیلمیٹ نہ پہننے والوں کی بھی تنبیہ ہے۔

بیلٹ کا لزوم

  چار پہیوں والی گاڑیوں (Four Wheeler)کے ڈرائیوروں کے لئے بیلٹ کو لازم قرار دیا گیا ہے، بیلٹ لگانے سے جسم بالکل سیدھا رہتا ہے اور اچانک بریک لگنے کی وجہ سے سر اور دل کا حصہ چوٹ پڑنے سے محفوظ رہتا ہے۔

نشہ کی حالت میں گاڑی چلانے کی ممانعت

 نشہ کو اُم الخبائث (Root of the Evils) کہا جاتا ہے، نشہ کرلینے کے بعد انسان اپنے آپ کو ’’شہنشاہِ عالم ‘‘ تصور کرنے لگتا ہے اور اسی جھونک میں وہ سب کر گذرتا ہے، جو ایک انسان کو نہیں کرنا چاہئے، اکثر لوگ تو ایسا نہیں کرتے ؛ لیکن مہذب دنیا کی تقلید کرنے والے وہ حضرات جو بار (Bar) اورنائٹ کلبوں میں اپنی شامیں رنگین کرتے ہیں، آدھی سے زیادہ رات گنوادینے کے بعد کبھی کبھی نشہ کی حالت میں گاڑی چلانے لگتے ہیں اور سڑک حادثہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

  اس پر روک لگانے کے لئے حکومت نے بڑے بڑے بورڈ پر ’’ پی کر گاڑی چلانا حانی کرک ہے ‘‘ کے الفاظ لکھوا رکھے ہیں ؛ لیکن رات کے اس پہر چوں کہ پولیس والے بھی خواب خرگوش میں ہوتے ہیں، اس لئے ان کے ساتھ خاطر خواہ کاروائی نہیں ہوپاتی، اس طرف بھی حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

راستہ کا ضابطہ

حکومت نے ٹریفک حادثات سے بچانے کے لئے راستہ چلنے کا بھی ایک ضابطہ مقرر کیا ہے کہ بائیں جانب سے جائیں اور دائیں جانب سے آئیں، بعض راستوں کو ٹریفک کی وجہ سے (oneway) بھی کیا گیا ہے، یعنی اس راستہ سے یا تو آسکتے ہیں یا جاسکتے ہیں، آنا اور جانا دونوں کام ایک ساتھ نہیں ہوسکتا۔

لائٹوں کے اشارات

 اژدحام کو قابو میں کرنے کے لئے حکومت نے لائٹوں کے ذریعہ ایک ایسا نظام بنایا ہے، جس کو دیکھ کر لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ کب راستہ سے آگے بڑھنا ہے اور کب رُک جانا ہے ؟ ہری بتی (Green Light) آگے جانے کا اشارہ کرتی ہے، پیلی بتی(Yellow Light)دھیمی رفتارکوبتاتی ہے، جب کہ لال بتی (Red Light) رُک جانے کا اشارہ کرتی ہے، لائٹوں کے اشارات ہی دراصل پورے اژدحام کو کنٹرول کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

گاڑی چلاتے ہوئے موبائل پر باتیں نہ کرنا

  یہ تو حقیقت ہے ک موبائل آج کی ضروریاتِ زندگی میں داخل ہوچکا ہے، اس کے بغیر ہر آدمی اپنے آپ کو ادھورا محسوس کرتا ہے، موبائل پر باتیں کرتے ہوئے ذہن بٹ جاتا ہے، جس سے حادثہ پیش آتا ہے، حکومت نے احتیاطی تدابیر کے طورپر گاڑی چلاتے ہوئے موبائل پر بات کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے، چنانچہ اس کے لئے بھی حکومت نے (Avoid Sell Phone Drivimg Prevent) کے بورڈ نصب کرا رکھے ہیں۔

 ٹریفک نظام کے یہ وہ بنیادی اور اہم قوانین ہیں، جو مفاد عامہ کے لئے بنائے گئے ہیں، ان قوانین کے ذریعہ جان کی بھی حفاظت ہوتی ہے اور مال کی بھی، اب شرعی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے کہ کہاں تک ان پر عمل کرنا ضروری ہے ؟

  اس سلسلہ میں سب پہلی بات یہ ہے کہ ٹریفک نظام کسی فرد کا بنایا ہوا قانون نہیں ہے اور نہ ہی کسی شخصی مفاد کے لئے اسے بنایا گیا ہے ؛ بلکہ اس نظام کو حکومت بناتی ہے اور مفاد عامہ کو پیش نظر رکھ کر بناتی ہے اور صراحتاً ان کے معتبر ہونے کا ذکر شریعت میں ملتا ہے اور نہ نامعتبر ہونے کا ؛ بلکہ یہ ان اُمور میں سے ہے، جن میں حکومت کو حق ہے کہ وہ مفاد عامہ کو دیکھتے ہوئے قانون بنائے، اسی کو ’’ مصالحہ مرسلہ ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مصالح مرسلہ کے بارے میں جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ حجت شرعیہ ہے، شیخ عبدالوہاب خلاف لکھتے ہیں  :

ذہب جمہور علماء المسلمین إلی أن المصلحۃ المرسلۃ حجۃ شرعیۃ یبنی علیہا تشریع الأحکام۔ (علم أصول الفقہ : ۸۵)’’جمہور علماء مسلمین کے نزدیک مصلحت مرسلہ حجت شرعیہ ہے، اس پر تشریعی احکام کی بنیاد رکھی جاتی ہے‘‘۔

   دوسری بات یہ ہے کہ چوں کہ یہ قانون حکومت بناتی ہے اور ہمیں حاکموں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، اس لئے قانون کی پاسداری بھی لازم ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے  :

یا أیہا الذین آمنوا أطیعوا اﷲ وأطیعوا الرسول وأولی الأمر منکم۔ (النساء : ۵۹)

’’اے ایمان والو ! اﷲ کی، اس کے رسول کی اور اولی الامر کی اطاعت کرو‘‘۔

مفسرین نے اولی الامر سے مراد امراء اور علماء کو لیا ہے، چنانچہ ابن عربی فرماتے ہیں  :

والصحیح عندی أنہم — أی أولی الأمر — الأمراء والعلماء۔ (أحکام القرآن لابن عربی : ۱ ؍۴۵۱، أحکام القرآن للجصاص : ۲؍۲۶۴، تفسیر ابن کثیر : ۱؍۶۳۳)

’’میرے زدیک صحیح یہ ہے کہ اولی الامر سے مراد امراء اور علماء ہیں ‘‘۔

 اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا  :

إسمعوا وأطیعوا، وإن استعمل علیکم عبد حبشی کأن رأسہ زبیبۃ۔ (بخاری : کتاب الأحکام، باب السمع و الطاعۃ للإمام، حدیث نمبر : ۷۱۴۲)

’’سنو اور اطاعت کرو، اگرچہ کہ تم پر کسی ایسے حبشی غلام کو امیر بنایا جائے، جس کا سر چھوٹا ہو ‘‘۔

ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے امیر کی حکم عدول کو اپنی حکم عدولی قرار دیتے ہوئے فرمایا  :

من اطاعنی فقد اطاع اﷲ، ومن عصانی فقد عصی اﷲ ومن اطاع أمیری فقد اطاعنی، ومن عصی أمیری فقد عصانی۔ (بخاری : کتاب الأحکام، حدیث نمبر : ۷۱۳۷، مسلم : کتاب الإمارۃ، باب وجوب طاعۃ الأمراء فی غیر معصیۃ، حدیث نمبر :۴۷۴۹)

’’جس نے میری اطاعت کی، اس نے اﷲ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اﷲ کی نافرمانی کی، جس نے میرے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی‘‘۔

 ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امیر کی اطاعت واجب ہے اور چوں کہ حکومت بھی امیر کے درجہ میں ہے، اس لئے اس کے بنائے ہوئے قانون کی رعایت بھی واجب ہے، ٹریفک نظام کے شرعی حکم کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں  :

ولا شک أن التقیید بنظام المرور داخل فی وجوب الطاعۃ، لأنہ لم لم یوضع إلا لمصلحۃ الفرد والمجتمع، وحفاظا علی أرواح الناس وأموالہم، فہو لازم التنفیذ من الرعیۃ۔ (الفقہ الإسلامی وألتہ : ۶؍۷۰۴)

’’اس میں شک نہیں کہ ٹریفک نظام کی پابندی وجوب طاعت میں داخل ہے ؛ کیوں کہ یہ فرد و معاشرہ کی مصلحت اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے ہی بنایا گیا ہے، چنانچہ عوام کی طرف سے اس قانون کا نفاذ لازم وضروری ہے ‘‘۔

اسی طرح شیخ ابن عثیمینؒ سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا  :

بالنسبۃ تقطع الإشارۃ لا تجوز، لأن اﷲ تعالیٰ قال : یا أیہا الذین آمنوا أطیعوا اﷲ وأطیعوا الرسول وأولی الأمر منکم، ( النساء : ۵۹ ) وولاۃ الأمر إذا وضعوا علامات تقول للإنسان : قف، و علامات تقول للإنسان : سر، فہذہ الإشارۃ بمنزلۃ القول، وکأن ولی الأمر یقول : قف أو یقول : سر وولی الأمر واجب الطاعۃ۔ (فتاویٰ وتوجیہات فی الإجازۃ والرحلات، للشیخ ابن عثیمین : ۸۰)

’’اشارہ کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں ہے ؛ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : اے ایمان والو ! اﷲ کی، اس کے رسول کی اور اولی الامر کی اطاعت کرو اور حاکم نے جب ایسے اشارات وضع کردیئے، جو انسان کو رکنے اور چلنے کا اشارہ دیتے ہیں، تو گویا یہ اشارات حاکم کے قول کے درجہ میں ہیں، یعنی حاکم خود رکنے اور چلنے کو کہہ رہا ہے اور حاکم کی اطاعت کرنا واجب ہے‘‘۔

  اس سلسلہ میں جدہ فقہ اکیڈمی منعقدہ : ۱-۷؍ محرم الحرام ۱۴۱۴ھ برونائی کا فیصلہ درج ذیل ہے  :

إن الإ لتزامات بتلک الأنظمۃ التی لا تخالف أحکام الشریعۃ الإسلامیۃ واجب شرعاً، لأنہ من طاعۃ ولی الأمر فیما ینظمہ من إجراء ات بناء علی دلیل المصالح المرسلۃ۔ (قرارات وتوصیات،  لمجمع الفقہ الإسلامی، جدہ، للدورات : ۱-۱۰، ص : ۱۶۳)

’’وہ انتظامی اُمور، جو شریعت ِاسلامی کے مخالف نہیں ہیں، شرعی نقطۂ نظر سے ان کی پابندی ضروری ہے ؛ کیوں کہ یہ امیر کی ان احکامات میں فرماں برداری ہے، جو مصالح مرسلہ کی بنیاد پر وہ نافذ کرتا ہے ‘‘۔

 ان نکات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہوگی کہ ٹریفک نظام لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی غرض سے بنایا گیا ہے اور یہ شریعت کے مقاصد سے بالکل ہم آہنگ ہے ؛ اس لئے اس کی پاسداری لازم اور ضروری ہے۔

خلاف ورزی کرنے والے کی سزا

 انسانی فطرت کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اسے جس چیز سے روکا جائے، اس کو کرنے کا جذبہ دو چند ہوجاتا ہے، حکومت نے سڑک حادثات سے بچانے کے لئے مختلف قسم کے قوانین وضع کئے ہیں ؛ لیکن ہم اس کی خلاف ورزی کرکے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے ہیں، حالاں کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ لا تلقوا بأیدیکم إلی التہلکۃ‘‘ ( البقرۃ : ۱۹۵) اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ؛ لیکن ہم ٹریفک نظام کی خلاف ورزی کرکے کبھی ہاتھ پیر تڑوا بیٹھتے ہیں اور کبھی جان تک بھی گنوادیتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا ٹریفک نظام کی خلاف ورزی کرنے والے کے لئے کوئی سزا ہے ؟ اور اگر حکومت نے کوئی سزا تجویز کی ہے تو کیا وہ شریعت اسلامی کے موافق ہے ؟

  پچھلی دہائیوں میں ٹریفک نظام کی نہ تو ضرورت تھی اور نہ ہی اس کو وہ اہمیت حاصل تھی، جو آج ہے، اس لئے ٹریفک نظام کے سلسلہ میں صراحت کے ساتھ بہت کچھ نہیں ملتا، تاہم اتنی بات ضرور ملتی ہے کہ اگر حکومت کوئی قانون وضع کرے اور وہ شریعت ِاسلامی کے مخالف نہ ہو تو اس کی خلاف ورزی جائز نہیں ہے اور اگر خلاف ورزی کی گئی تو حکومت مصلحت کو دیکھتے ہوئے کوئی سزا تجویز کرسکتی ہے، اسی کو فقہ کی کتابوں میں ’’ تعزیر ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، ’’ تعزیر ‘‘ ایسی سزا کو کہتے ہیں، جو ان جرائم پر روک لگانے کے لئے حکومت متعین کرتی ہے، جن کے لئے شریعت میں نہ کفارہ ہے اور نہ ہی حد۔

ألتعزیر ہو عقوبۃ غیر مقدرۃ شرعاً، تجب فی کل معصیۃ لیس فیہا حد ولا کفارۃ۔ (المبسوط للسرخسی : ۹؍۴۵، ط : دار احیاء التراث العربی، بیروت، القلیوبی علی شرح المنہاج : ۴؍۳۰۵، العقوبۃ، لأبی زہرہ : ۵۷، إعلام الموقعین : ۲؍۱۱۸، ط : دار الجیل، بیروت، زاد المحتاج بشرح المنہاج : ۴؍۲۶۵، ط : المکتبۃ العصریۃ، بیروت )

’’تعزیر شریعت کی طرف سے غیر متعینہ سزا ہے، جو ایسی برائیوں کے لئے ہوتی ہے، جس میں حد اور کفارہ نہ ہو ‘‘۔

  اب ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ تعزیر کے طورپر کس طرح کی سزائیں دی جاسکتی ہیں ؟ اس سلسلہ میں اصل تو یہی ہے کہ حاکم وقت حالات کو دیکھتے ہوئے، جس طرح کی سزا مناسب سمجھے تجویز کرلے۔

والتعزیر لا یختص بالسوط والید والحبس، وإنما ذلک موکول إلی إجتہاد الحاکم۔ (تبصرۃ الحکام : ۲؍۲۰۱)

’’تعزیر کوڑے، ہاتھ سے مارنا اور قید کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے ؛ بلکہ یہ حاکم کے اجتہاد پر موقوف ہے ‘‘۔

  چنانچہ حاکم مار بھی سکتا ہے، کوڑے بھی لگوا سکتا ہے، قید بھی کرسکتا ہے اور صرف ڈانٹ ڈپٹ کر چھوڑ بھی سکتا ہے، یعنی جیسی مصلحت دیکھے، ویسی ہی کاروائی کرے : والتعزیر یکون بالضرب والحبس والتوبیخ۔ (۱)

اسی ضمن میں گاڑی ضبط کرلینا اور لائسنس منسوخ کردینا بھی آتا ہے، تاہم آج کل ایک اور سزا حکومت کی طرف سے ہوتی ہے، یعنی چالانات کاٹنا، اس کی ایک مقدار متعین ہوتی ہے، مثلاً ہیلمیٹ نہ پہننے پر سو روپے، اب سوال یہ ہے کہ کیا چالانات کاٹنا شرعی نقطۂ نظر سے درست ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے  استاذ گرامی قدر حضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی حفظہ اﷲ ورعاہ تحریر فرماتے ہیں:

’’اس وقت اسلام کے قانونی حدود و تعزیرات کے فقدان کی وجہ سے بہت سے مسائل، جو سماجی طورپر حل کئے جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی وحدتیں بعض منکرات کا مقابلہ کررہی ہیں، ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ مالی جرمانوں کے ذریعہ وہ ان جرائم کی روک تھام کی سعی کریں، یوں بھی عملاً اس زمانہ میں مالی تعزیر کی بڑی کثرت ہوگئی ہے اور ریلوے، ٹریفک، بس وغیرہ میں کثرت سے اس کا تعامل ہے ؛ اس لئے راقم الحروف کا رجحان ہے کہ اس کی اجازت ہونی چاہئے ‘‘۔ (قاموس الفقہ : ۲؍۴۷۹، لفظ : تعزیر، نیز تفصیل کے لئے : جدید فقہی مسائل : ۳؍ ۲۴۹)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔