شکستہ پائی

جہاں گیر نایاب

بہت ہی شادماں تھا میں

بہت مسرور رہتا تھا

ان آنکھوں میں حسیں سپنے

سجاکر میں نے رکھے تھے

بھروسہ خود پہ تھا حد سے سوا مجھ کو

ہزاروں تھے دیئے روشن نگاہوں میں

خیالوں کی حسیں وادی میں ہردم سیر کرتا تھا

ہراک لمحہ بڑا پُرکیف تھا میرا

سدا مخمور رہتا تھا

نشے میں چُور رہتا تھا

وہ  بے فکری کا عالم تھا

نہ ہی امروز کی پروا

نہ کچھ اندیشئہ فردا

سمجھتا تھا میں ہر اک کام کو آساں

رواں تھی زندگی میری

اچانک یوں ہوا آخر

کہ میدانِ عمل میں جب قدم رکھا

تو خوابوں کا بھرم ٹوٹا

ہوا احساس پھر اپنی شکستہ پائی کا مجھ کو

وہ راہیں جو کبھی آسان لگتی تھیں

بہت مشکل تھا ان پہ پاؤں رکھنا بھی!

ان آنکھوں میں سجے تھے خواب جو میرے

حقیقت سے نہیں تھا واسطہ ان کا!

تبصرے بند ہیں۔