مجاہد آزادی کرنل نظام الدین: سبھاش چندر بوس کے نجی محافظ

محمدرضا(ایلیاؔ)

(6؍ فروری، یوم وفات پر خصوصی مضمون

نظام الدین مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ 25برس کی عمر میں وہ روزی روٹی کی تلاش میں ماں کو بتائے بغیر سنگاپور چلے گئے جہاں ان کے والد امام علی کینٹین چلا تے تھے۔ اپنے والدکے ساتھ کئی بر س کام کیا۔ پھر انہوں نے بر ٹش آرمی جوائن کر لی۔ اسی دوران برٹش سے جاپان کی لڑائی شروع ہو گئی لڑائی کے دوران برٹش لیفٹیننٹ نے نظام الدین سے کہاکہ ’’ ہندوستانی چاہے جتنے بھی مر جائیں اگر مر تے ہیں تو مر نے دومگر ہمارے برٹش کے جو جانور ہیں وہ نہیں مر نا چاہئے ‘‘۔ اس با ت سے نظام الدین بہت ہی رنجیدہ ہوئے اور دل میں سوچا کہ ہم ہندوستانیوں کی ان بر ٹش لیفٹیننٹ کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ چونکہ نظام الدین سچے اور وفادار ہندوستانی تھے اور بہت زیادہ غصے والے بھی تھے۔ نظام الدین ہندوستانیوں کی بے عزتی بر داشت نہ کی آخر کار انہوں نے برٹش کے لیفٹیننٹ کو گولی ما ر کر ہلا ک کر دیا اور بر ٹش آرمی کو چھو ڑ سیدھے نیتا جی سبھا ش چندر بو س سے آکر ملاقات کی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ ان کی بات کو سن کر سبھا ش چند بو س بہت ہی خوش ہوئے اور ان کو گلے لگالیا یہ کہہ کر کہ آپ ہند وستان کے ایک اچھے وفادار با شندے ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ نیتا جی نے نظام الدین کو ہدایت دی کہ آج کے بعد آپ اپنا نام کسی کو سیف الدین نہ بتا نا آج سے میں آپ کا نام نظام الدین رکھتا ہوں ۔ نظام الدین نام سبھا ش چند ر بوس ہی کا دیا ہوا نام ہے۔

سنگا پورہی میں وہ آزاد ہند فوج میں اس وقت شامل ہوگئے جب نیتا جی سبھاش چند ر بوس ’’آزاد ہند فوج‘‘ کے لیے نئے جوانوں کی تلا ش میں تھے۔ نیتا جی نے نظام الدین کو نجی محافظ اور ڈرائیور کی شکل میں منتخب کر لیااورنظام الدین اپنی صلاحیت کی بنیا د پر اس فوج کا اہم حصہ بن گئے۔ ان کا اصل نام سیف الدین تھا لیکن انٹیلی جنس تنظیم آئی. این. اے.(INA )کے انتخاب کے بعد انہوں نے اپنا نام تبدیل کرکے نظام الدین رکھ لیا تھا۔ ٹائم آف انڈیا کی20؍ستمبر 2015 کی رپور ٹ کے مطابق کرنل نظام الدین جس گاڑی کے ڈرائیور تھے وہ گاڑی بارہ سلنڈر کی تھی اور اس گاڑی کو ملایا کے راجہ نے سبھا ش چندر بوس کو تحفے میں دیا تھا۔ ان کے بیٹے نے مجھے بتایا کہ میرے والد نظام الدین مجھے بتایا کر تے تھے کہ یہ گاڑی برق رفتا ر جیسی تیز چلتی تھی اور بہت زیا دہ مضبوط بھی تھی۔ ان کے بقول جہربارو کے راجہ ’’سلطان ‘‘ نے نیتا جی کو برما میں بطور تحفہ دیا تھا۔ کرنل نظام الدین نیتا جی کے ساتھ امریکا، ٹوکیو، ، ناگاساکی، ہیروشیما، لندن، کمبوڈیا جنوبی مشرقی ایشیا، ویت نام، لاؤس، بر ما، رنگون، تھائی لینڈ، جاپان، ملیشیا جیسے متعدد شہروں کا سفر کیا۔

کرنل نظام الدین سے گفتگو کے دوران اس بات کا ہمیں علم ہوا کہ سبھا ش چند بو س کے ساتھ انہوں نے کا فی وقت گزارا۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر نیتا جی کے حساب سے ہندوستان کو آزادی ملتی تو آج بھا رت کا کچھ اور ہی نقشہ ہو تا۔ نیتا جی سبھا ش چند ر بو س ایسے با ثراور پر کشش لیڈر تھے کہ جو بھی آپ سے ملاقات کرتا وہ نیتا جی گن گانے لگتا اور بلا آخر نیتا جی کا ہی ہو کر رہ جا تا تھا۔ کر نل نظام کہتے ہیں کہ جب میں نے ان سے سوال کیا کہ ہم لو گ کیسے ہندوستان کی خدمت کریں تو انہوں نے کہا کہ آپ صرف ہم کو دیکھیں کہ میں کیسے ہندوستان کی خدمت کر رہا ہوں تو اس کے جواب میں نظام الدین نے کہاکہ آپ کو اوپر والا یعنی اللہ دیکھ رہا ہے۔ وہ ضرور آپ کو اس کا ثمرہ دے گا۔ وہ مجھ سے کہتے تھے جب بھی گاڑی چلانا میٹر کی طرف مت دھیان دینا اس کا شاید یہ مقصد ہو سکتا ہے ہندوستان کی آزاد ی کے لیے ہروقت ہر لمحہ جب جیسی ضرورت ہو اس رفتار سے گاڑی چلانا۔

کرنل نظام الدین نے اپنے ایک انٹرویو کے میں کہا کہ وہ نیتا جی کے ساتھ ہی کھا نا کھاتے تھے ان کو سادہ کھانا بہت پسند تھا جن میں دال، چاول سبزی وغیرہ شامل تھی۔ اگر ہم آگ اردو اخبار06 ؍فروری2017 کی خصوصی ہائی لائٹس کو دیکھیں تومعلوم ہو تا ہے کہ فوج کی تشکیل کے بعد نیتا جی سبھا ش چندر بو س اکثر فوج کے تمام اراکین کے ساتھ ہی کھاناکھاتے تھے۔ ان کی انکساری کا عالم یہ تھا کہ وہ خود اپنے ہی ہاتھوں سے کھانا دینے لگتے تھے۔ ان کی پسندیدہ غذا سبزی تھی۔ مرغوب سبزیوں میں انہیں لوکی اور بھنڈی سب سے زیا دہ پسند تھی۔ مگر کبھی بھی مچھلی کھالیتے تھے۔ ان کو چاول سب سے زیا دہ پسند تھا۔ بنگلہ ہیل کھانے میں انہیں خوب لطف آتا تھا۔

نیتا جی سبھا ش چندر بو س کا لبا س دھو تی اور کر تاتھا۔ گلابی گمچھا بہت کا فی عزیز تھا۔ فوج کے قیام کے بعد وہ فوجی شکل میں رہتے تھے۔ وہ 24 گھنٹے میں دو بار کپڑے تبدیل کر تے تھے اور رات کو سوتے وقت بھی وہ اکثر بغیر کسی کو بتائے اپنا مقام تبدیل کر دیتے تھے۔ اپنے افسروں سے بھی اپنے مخفی پلان کے بارے میں نہیں بتاتے تھے۔ بہت سی خفیہ باتوں کا تذکرہ نیتا جی سبھا ش چندر بو س رات کو سوتے وقت کر تے تھے۔

کرنل نظام الدین نے بتایا تھا کہ آزاد ہند فوج کے قیام کے ساتھ نیتا جی نے لوگوں کو رنگون میں جمع ہونے کو کہا تھا۔ جولائی 1943کو برما، سنگاپور، رنگون اوورسیز۔ ہندوستانیوں نے فنڈ کے لئے 26 بوریوں سونے، چاندی، ہیرے جواہرات اور پیسوں سے نیتا جی کو ترازو میں تول دیا تھا۔ نظام الدین کے مطابق:ہم نے پیٹھ پر لاد کر بوریوں کو خزانے میں رکھا تھااورسب نے حلف لیا تھا کہ ملک کی آزادی کے لئے سب کچھ قربان کر دیں گے۔ لوگوں کی حب الوطنی دیکھ کر نیتا جی جذباتی ہوگئے تھے۔ 09 جولائی1943 کو نیتا جی نے ایک نعرہ دیا’’ کرو تمام نیوچھاور بنو تمام فقیر‘‘اس نعرے کے بعد رنگون میں آزاد ہند فوج کے لیے بینک میں ایک دن میں 20 کروڑ روگئے جمع ہو گئے۔ اس کے بعد اکتوبر1943 میں آزاد ہند حکومت کو منظوری مل گئی۔ آزاد ہند فوج کی کرنسی کو’’مانڈلے‘‘کہتے تھے یہ کرنسی برما میں چھپاکر تی تھی۔ ان کی تنخواہ اس وقت صرف 17 روپئے تھی۔ فوج میں ایک پیسہ میں 02 کڑا اور دوکڑے میں چار پائی ہو ا کرتی تھی۔ سال1943 میں آزاد ہند بینک نے پہلی بار500کے نو ٹ کوجاری کیا تھا جس پر نیتا جی کی تصویر چھپی تھی۔ اس دوران لیفٹیننٹ کو80 روپئے تنخواہ ملتی تھی۔ برما میں جتنے افسران موجود تھے ان کو230 روپئے ملتے تھے اور لیفٹیننٹ کر نل کو300 روپئے ملتے تھے۔

کرنل نظام الدین کے مطابق نیتا جی نے اپنا انٹیلی جنس گروپ بنا یا تھااور ان کا خفیہ محکمہ بھی تھا، جس کے وہ سربراہ افسر تھے۔ خفیہ محکمہ کا نام ’’ بہادر گروپ‘‘ تھا۔ اس میں بہت کم اہلکار اور فوجی تھے۔ خفیہ محکمہ سب سے زیادہ فعال برطانوی معلومات کو جمع کرنے میں رہتا تھا۔ اس کا نیٹ ورک چند ماہ میں ہی ملک کے کئی علاقوں تک پھیل گیا۔ نیتا جی کئی بار آبدوز سے سراغ رساں کو سنگاپور اور بینکاک بھی بھیجتے تھے۔

کرنل نظام الدین کی صلا حیت کا بخوبی انداز ہ اس بات سے لگایا جا تا ہے وہ گیارہ زبانوں کے صرف جاننے والے نہیں تھے بلکہ ان کو ان گیا رہ زبانوں پر بھر پور عبور بھی حاصل تھا۔ اس وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے نیتا جی سبھا ش چندر بوس کے ساتھ متعدد ممالک کا دورہ کیا اپنے دورے کے دوران ان کو کئی زبانوں سے سابقہ بھی ہوا جس کی وجہ سے انہوں نے زبانوں کوسیکھا اور بولنے لگے۔ کر نل نظام الدین کی نشانہ بازی بھی بے مثال تھی۔ ان کی نشانہ بازی کی مثال دی جا تی تھی اور ان کو عظیم نشانہ باز کہا جا تا ہے۔ اسی وجہ سے جب جرمنی کے برلن میں نیتاجی سبھاش چندر بوس کے ساتھ ہٹلر سے ملے تو ہٹلر نے نظام الدین کے بارے میں معلومات حا صل کر نا چاہی تب نیتا جی نے کہاکہ یہ میر ے باڈی گارڈ اور اچھے شوٹر ہیں ۔ 1945میں انہوں اپنے نشانے کا جو ہر دکھا تے ہوئے بر ٹش جہاز کو مار گرایا تھا۔

ان کے بیٹے شیخ اکرم کے بقول؛مئی1942میں جرمنی کے برلن میں نیتا جی کی ملاقات ہٹلر سے ہوئی تھی۔ میرے والد کرنل نظام الدین جرمنی کے برلن میں نیتا جی اور ہٹلر ملے تھے۔ تب ہٹلر نے ان کے بارے میں معلومات طلب کی تھی۔ نیتا جی نے بتایا تھا کہ میرے باڈی گارڈ اور اچھے شوٹر ہیں ۔ ہٹلر نے اپنی ہاتھی کے دانت بٹ والی پستول(جس کے دستے پر بیل کے سر کا فوٹو کندہ تھا ) اور ریڈیوکرنل نظام الدین کوتحفے میں دیا تھا۔ 1969میں کرنل نظام الدین کا خاندان اعظم گڑھ ڈھکوا گاؤں آیا تو ریڈیوکو اپنے پاس رکھا مگر پستول کو اپنے رشتہ دار عبد الستار کو دے دیا۔

محمد شہزادقلمکار کے مطابق نظام الدین نے ان کو اپنی پشت پر لگی گولی کے نشان کو انہیں دکھا یا جو انہیں برما کے جنگل میں نیتا جی کی حفاظت کر تے ہوئے لگی تھی۔ کر نل نظام کے مطابق انگریز نیتا جی سبھاش چندر بوس کو نشانے پر رکھ کر گولی چلائی تھی لیکن ٹھیک اسی وقت نیتا جی کا رومال گر گیا اور جیسے میں رومال اٹھانے کے لیے اٹھا گولی مجھے لگ گئی۔ آزاد ہند فوج میں نیتا جی کے سب سے بھروسے مند فوجیوں میں سے کیپٹن لکشمی سہگل نے گولی نکالی جو اس وقت فوج میں بطور ڈاکٹر کام کرنے والی تھیں ۔ انہی کے علاج سے وہ صحت یاب ہوئے اور تبھی سے نیتا جی نے انہیں کر نل کہہ کر پکا را تھا۔ 20؍اگست1947کو نیتا جی کو برما میں چھتانگ ندی کے پاس آخری بار کشتی پر چھو ڑا۔

نظام الدین کہتے ہیں کہ :

جب میں سبھا ش چند بو س کو چھتانگ ندی تک پہنچانے گیا توندی کے کنارے ایک کشتی پہلے ہی رکی ہوئی تھی سبھا ش چند ر بو س کو لے جانے کے لیے۔ چھتانگ ندی کے آگے جا کے سمندر سے ملتی تھی۔ ندی کے بیچ میں ایک پنڈبی کھڑی تھی نیتا جی لے جانے کے واسطے۔ جس پر کشتی پر سبھا ش چند ر بوس جی بیٹھے تھے اس پر جاپانی افسر اور ہندوستانی لوگوں کے ساتھ کچھ سردار بھی موجود تھے۔ اس کشتی پر ایک مدراسی تھا جو نیتاجی کا بہت قریبی تھا۔ ان کے علا وہ اس کشتی پر حبیب الرحمن بھی تھے۔ وہ آگے بتاتے ہیں کہ انہوں نے کشتی پر نیتا جی کو بٹھایا اور کشتی پنڈبی کی طرف روانہ ہو گئی کچھ دور تک تو میں انہیں دیکھتا رہا مگر ندی کے کنارے درخت اور چھا ڑیوں کے وجہ سے صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا کشتی کے نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد ایک فائٹر جہا ز آیا جس نے اس پر گاڑی پر بم بر سائے جس پر ہم لو گ نیتا جی کو چھو ڑنے آئے تھے۔ جس میں بہت سارے لو گ ما رے گئے اور گاڑی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ ہم لو گ بھی گھائل ہو گئے مگر جان بچ گئی۔ میں بھی ان کے ساتھ جانا چاہتا تھامگر نیتا جی سبھا ش چندر بو س نے کہا کہ دیکھو نظام الدین تم نہ جا ؤ ہم تم سے ہندوستان میں ملاقات کریں گے۔ تم کو میں ذمہ داری دیتا ہوں کہ جتنے بھی ہندوستانی بچے ہیں ان کے سارے کا غذات جلا دو ااورسب کو لیکر ہندوستان چلے جا ؤ جب میں آؤں گا تو ہم اپنے وطن ہندوستان سے آزادی کی جنگ لڑیں گے۔ واضح ہو کہ یہ ساری باتیں ان کی ذاتی ڈائری میں لکھی ہوئی ہیں ۔

کر نل نظام الدین ولد امام علی۔ پیدائش 01جنوری1900میں اتر پر دیش کے ڈھکوہ، قصبہ مبارک پور، اعظم گڑھ میں ہوئی۔ آپ کے شناختی کارڈ کا نمبر UP/46/218/0084182 ہے۔ ۔ جس پرآپ کا نام سیف الدین ولد امام علی درج ہے۔ آپ کی عمر117برس کی تھی۔ ہندوستان کے مجا ہد آزادی میں سب سے زیا دہ عمر رسیدہ شخص سیف الدین عرف کرنل نظام الدین تھے۔ اگر یہ بات ثابت ہے کہ نظام الدین کی عمر وہی ہے جو ان کے شناختی کا رڈ اور پاسپورٹ پر لکھی ہے اور آپ دنیا کے سب سے معمر شخص ثابت ہوئے۔
آپ کی بیوی جن کا نام عجب النسا ہے جن کی عمر 107برس کی ہو چکی ہے ابھی وہ با حیات ہیں ۔ آپ کے تین بیٹے ہیں ۔ اختر علی72سال، انور علی65 سال اور شیخ اکرم جن عمر55برس ہے یہ سب سے چھوٹے بیٹے اپنے بابو جی کے ساتھ رہتے ہیں ۔ بیٹی حبیب النسا 85برس کی ہیں ۔ آپ کے بیٹے شیخ اکرم کے مطابق ان کی پسندیدہ غذاسبزی ہے جس میں آپ کو کریلا بہت پسند ہے۔ انہوں نے کبھی گوشت یا انڈا نہیں کھایا۔ کر نل نظام ہمیشہ دودھ پیتے ہیں بغیر دودھ پیئے وہ رہ ہی نہیں سکتے ہیں ۔ شیخ اکرم کے بقول10سے 15آدمیوں کو ایک ساتھ مار گرانے کی طاقت تھی۔ رات کو جلدی کھا نا ان کی عادت ہے۔ ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کو کبھی ذیابیطس یا ہائی بلڈپریشر کی شکایت نہیں رہی۔ صبح اٹھنے پر دودھ، دوپہر میں دیسی گھی کے ساتھ دال اور سبزیاں اور رات کو سونے سے پہلے دودھ پینا کسی نوجوان کی خوراک ہو اور وہ 117برس کی عمر میں فوت ہو جائے توتعجب نہیں ہو گا۔

1955میں نظام الدین پہلی مر تبہ اپنے وطن مبارکپور آئے اور اپنے ضعیف والد کی خدمت کرنے لگے لیکن ان کو اس بات کاڈر تھا کہ کہیں کسی نے ان کو اطلا ع دے دی تو میں گرفتار ہو جاؤں گا۔ اسی درمیان ان کے والد امام علی کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے ان کی تدفین کے فرائض کو پورا کر کے دوبا رہ برما چلے گئے۔ 05؍جون 1969کو کر نل نظام الدین برما سے اپنے آبائی وطن مبارک کے ڈھکوہ گاؤں لو ٹے۔ انہوں نے اپنی پہچان2001میں ظاہر کی۔ جب میں نے ان سے ملاقات کی وہ کافی ملنسار، حب الوطنی میں سر شار، جذبۂ حریت کا مو جیں مار تا ہوا طوفان اس وقت بھی ان میں موجود تھا۔ ہندوستان سے محبت کا عالم یہ تھا کہ117برس کی ضعیفی کے با وجود جب وہ اونچا سننے لگے تو انہوں نے کان کی مشین لگائی اور روزبلا ناغہ ریڈیو، ٹی وی پر خبر سننا کہ ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ ہندوستان سے محبت نہیں تو اور کیاتھی۔ ان کے بیٹے نے مجھے بتایا کہ جب سے میں نے ہو ش سنبھالا ہے بابو جی کے گھٹنے میں درد کی شکایت رہتی ہے جس کے لیے وہ آج تک درد کش دوا کھا رہے ہیں چونکہ معمر ہیں تو ڈاکٹر نے کہاہے کہ مہینے میں ایک بار طاقت کا انجکشن لگوانا ضروری ہے۔ میں نے ان کے بیٹے شیخ اکرم کے توسط سے دیکھاان کے والدکی آزاد ہند فوج کی ٹوپی، ان کا شنا ختی کا رڈ، نیتاجی کی گاڑی کا ڈرائیونگ لائسنس، پا سپو رٹ اور بہت سارے کا غذات جو پرانے ہو نے وجہ سے سنہرے ہو گئے تھے۔ کچھ تو ایسے کا غذات تھے پر انے ہو نے کی وجہ سے پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگے تھے اور ان کی جوانی کی فوٹو۔ کچھ سال قبل نیتا جی سبھا ش چندر بو س کی پر پوتی راج شری چودھری بھی نظام الدین سے ملنے ان کے آبائی وطن مبارک پور، ڈھکوہ گئی تھیں۔

09؍مئی 2014 میں لوک سبھا انتخابات کے دوران وارانسی کی ایک ریلی میں بی جے پی کے امیدوار جناب نریندر مودی نے کر نل نظام الدین کو اسٹیج پر بلاکر شال اڑھا ئی اور ان کی قدم بو سی کرکے ان سے دعائیں لیں اور ان کی حو صلہ افزائی کی۔ 06؍ فروری بروز دوشنبہ 2017کو علی الصبح 4بجے نظام الدین مجاہد آزادی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ان کی نماز جنازہ مولانا وفا مبارکپور کے بیٹے نے بڑھائی اور تدفین ان کے آبائی وطن کے قبرستان مبارک پور، ڈھکوہ میں دوپہر بعد عمل میں آئی۔
مجا ہدآزادی کے انتقال پر وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ٹوئیٹ کے ذریعہ تعزیتی پیغام دیا۔ انہوں نے اپنے ٹوئیٹ کے ساتھ کرنل نظام الدین ساتھ اپنی تصویر بھی پوسٹ کی جس میں وہ مجاہد آزادی کی قدمبوسی کر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ’’سبھاش بابو کے قریبی ساتھی کرنل نظام الدین کو میرا خراج عقیدت۔ میں ان کے ساتھ اپنی ملاقات کو یاد کرتا ہوں ۔ ان کے انتقال رنج و غم کی علا مت ہے۔ ‘‘ ’’ہم کرنل نظام الدین کے نظریات ان کے حوصلہ اور وطن پرستی کو ہمیشہ یاد رکھیں گے جس نے ہماری جدوجہد آزادی کو تقویت پہنچائی‘‘۔ آزاد ہند فوج کے سپاہی نظام الدین جنہیں کرنل بھی کہا جاتا تھا۔

دوسال قبل شیخ اکرم وہاں کے ڈی ایم سے ملے اور انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ جو کچھ واقعا ت ان کے ساتھ ہوئے ہیں ان کو ڈائر کی شکل دی جائے۔ ڈی ایم نے بی ایس اے سے کہا۔ بی ایس اے نے اپنے آدمیوں کو بھیجا۔ انہوں بہت ساری واقعات اور تذکرے، نظام الدین سے اور ان کے بیٹے سے انٹر ویو لے کر35 صفحات پر مشتمل کتاب تیا ر کی۔ مگر شیخ اکرم کا کہنا ہے کہ اس ڈائر ی میں بہت کچھ چھو ٹا ہوا بہر حال یہ ڈائر ی اتر پر دیش کے وزیر اعلیٰ جناب یو گی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کر کے دینا چاہتے ہیں اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ خود وزیر اعلیٰ اپنے ہاتھوں سے اس ڈائر ی کو لا نچ کریں ۔ ان کی خواہش ہے کہ ہر کالج اور اسکول میں کرنل نظام الدین کے بارے میں پڑھا یا جائے۔ ساتھ ہی ان کے پورے خاندان کی یہ خواہش ہے کہ حکومت کی طرف سے ان کے بابو جی کی پنشن جاری ہوجائے تاکہ ان کی ماں کے علا ج میں تھو ڑی بہت راحت مل سکے۔

تبصرے بند ہیں۔